بلوچستان میں سکیورٹی صورت حال اور زمینی سفر محدود ہونے کی وجہ سے فضائی سفر پر انحصار بڑھ گیا ہے جس کی وجہ سے کرایوں میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ عام شہری، مریض اور تاجر طبقہ مہنگے فضائی ٹکٹوں سے پریشان ہیں۔کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے سلمان احمد نے بتایا کہ اسلام آباد کا ٹکٹ جو عام دنوں میں 18 سے 20 ہزار روپے میں مل جاتا تھا اب 50 ہزار روپے سے کم میں نہیں مل رہا۔ان کا کہنا تھا کہ میرے رشتہ دار شادی کی ایک تقریب میں شرکت کے لیے کوئٹہ آئے تھے جنہیں اب واپس جانا ہے لیکن ٹرین سروس معطل ہے اور رات کو بسوں کا سفر ممنوع ہے، دن میں بھی سڑکوں پر سفر محفوظ نہیں۔’رشتہ دار خوف کی وجہ سے بس میں سفر نہیں کرنا چاہتے۔ ہوائی سفر واحد آپشن رہ گیا ہے مگر مہنگے کرایوں کی وجہ سے اب طیارے پر سفر ممکن نہیں رہا۔‘کوئٹہ میں مقامی ٹریول ایجنسی کے مالک حاجی رحمت اللہ اچکزئی نے کرایوں میں اضافے کی وجہ طلب بڑھنے اور پروازوں کی کمی کو قرار دیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ کوئٹہ سے صرف فلائی جناح اسلام آباد اور کراچی کے لیے روزانہ پروازیں چلاتی ہے۔ پی آئی اے کی ہفتے میں 3 سے 4 پروازیں ہیں جبکہ سیرین ایئر ہفتہ وار صرف ایک پرواز چلاتی ہے۔ان کے مطابق حالیہ دنوں میں سکیورٹی صورتِ حال مزید خراب ہوئی ہے جس کی وجہ سے لوگ فضائی سفر کو ترجیح دے رہے ہیں، طلب بڑھنے پر قیمتیں مزید بڑھ گئی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ دو سے تین ہفتے پہلے اسلام آباد کا ٹکٹ 20 ہزار روپے میں مل جاتا تھا لیکن ان دنوں 50 ہزار روپے سے کم میں نہیں مل رہا۔ ایک یا دو دن پہلے ٹکٹ خریدنے پر تو کرایہ 70 سے 80 ہزار روپے تک پہنچ جاتا ہے۔واضح ہے کہ کوئٹہ سے اسلام آباد تک ہوائی جہاز کے سفر کا دورانیہ تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ بنتا ہے۔ایک اور شہری عطا الرحمان نے بتایا کہ انہیں اچانک کسی کام سے اسلام آباد سے کوئٹہ جانا تھا۔ بس میں کوئٹہ تک سفر میں 15 سے 16 گھنٹے لگ جاتے ہیں اس لیے انہیں مجبوراً 88 ہزار روپے میں یک طرفہ ہوائی ٹکٹ خریدنا پڑا۔
ٹریول ایجنٹس کے مطابق ’کوئٹہ سے صرف فلائی جناح اسلام آباد اور کراچی کے لیے روزانہ پروازیں چلاتی ہے‘ (فائل فوٹو: فلائی جناح)
خیال رہے کہ بلوچستان میں حالیہ مہینوں کے دوران قومی شاہراہوں پر شدت پسندوں کی جانب سے ناکہ بندیوں اور مسافر بسوں پر حملوں، مسافروں کے قتل اور ٹرینوں پر حملوں کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
اتوار کو مستونگ کے دشت سپیزنڈ میں کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس پر بم حملے کے بعد پاکستان ریلویز نے 14 اگست تک بلوچستان میں ٹرین سروس معطل کر دی ہے۔مارچ میں کوئٹہ سے لاہور اور راولپنڈی کے راستے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس ٹرین کو ہائی جیک کر لیا گیا تھا اور اس حملے میں 30 سے زائد مسافر ہلاک ہوگئے تھے۔اس کے بعد حکومت نے ٹرینوں کی سکیورٹی کے لیے سخت اقدامات کیے لیکن اس کے بعد بھی کم سے کم تین بار جعفر ایکسپریس پر حملہ ہو چکا ہے۔دوسری جانب قومی شاہراہوں پر بسوں کو روک کر مسافروں کے قتل کے واقعات کی وجہ سے حکومت نے شام 5 بجے کے بعد بین الصوبائی بس سروس پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ان واقعات کے بعد شہری اب فضائی سفر کو ترجیح دے رہے ہیں، یہ سفر مہنگا ہونے کی وجہ سے عام لوگوں کی پہنچ سے پہلے ہی باہر تھا، اب کرائے زیادہ ہونے کی وجہ سے متوسط اور تاجر طبقہ بھی متاثر ہو رہا ہے۔
مسافروں کے قتل کے واقعات کی وجہ سے شام 5 بجے کے بعد بین الصوبائی بس سروس پر پابندی عائد ہے (فائل فوٹو: روئٹرز)
کوئٹہ کے تاجر نادر خان کے مطابق پہلے کوئٹہ سے کراچی یا اسلام آباد کا ٹکٹ 20 ہزار روپے تک ہوتا تھا مگر اب اس کی قیمت کئی گنا بڑھ گئی ہے، اس لیے اب کاروباری طبقے کے لیے بھی مشکلات پیدا ہوگئی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ عام لوگ تو ویسے بھی فضائی سفر نہیں کرتے مگر علاج کے لیے یا کسی دوسری مجبوری کی وجہ سے انہیں فضائی سفر کرنا پڑے تو آنے جانے میں ہی لاکھوں روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔یہ پہلا موقع نہیں کہ بلوچستان میں فضائی سفر کے کرائے بڑھائے گئے ہوں۔ مارچ میں بلوچستان میں احتجاج کی وجہ سے قومی شاہراہوں کی مسلسل بندش کے بعد کرائے بلند ترین سطح تک پہنچ گئے تھے اور کوئٹہ سے کراچی اور اسلام آباد کے لیے فضائی ٹکٹ ایک لاکھ روپے تک پہنچ گیا تھا۔اس صورت حال کے خلاف بلوچستان اسمبلی میں قرارداد پاس کی گئی جبکہ قومی اسمبلی میں بھی اس معاملے کو اٹھایا گیا۔ کوئٹہ چیمبر آف کامرس نے بھی وزارت ہوا بازی کو خط لکھ کر احتجاج ریکارڈ کرایا۔ کوئٹہ چیمبر آف کامرس نے ایئرلائنز پر پروازیں محدود کرنے اور کرایوں میں غیر معمولی اضافے کا الزام عائد کرتے ہوئے سول ایوی ایشن سے مطالبہ کیا تھا کہ کوئٹہ کے لیے تمام بڑی ایئرلائنز کی پروازیں بحال کی جائیں، کرایوں پر حد مقرر ہو اور اجارہ داری ختم کی جائے۔
مسافروں کا کہنا ہے کہ اسلام آباد کا ٹکٹ جو 20 ہزار روپے میں ملتا تھا اب 50 ہزار روپے سے کم میں نہیں مل رہا (فائل فوٹو: روئٹرز)
کوئٹہ چیمبر آف کامرس کے نائب صدر میروائس کاکڑ کا کہنا تھا کہ فضائی کمپنیاں لائسنس لینے کے لیے بلوچستان کے لیے پروازیں شروع کرتی ہیں لیکن جیسے ہی ان کا آپریشن بڑھتا ہے تو یہ بلوچستان کے لیے پروازیں محدود یا پھر ختم کر دیتی ہیں۔ ان کے مطابق اس وقت کئی ایئرلائنز بلوچستان کے لیے ایک بھی پرواز نہیں چلا رہیں۔
وزارت دفاع کی جانب سے رواں سال مئی میں قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق بلوچستان کے لیے اس وقت ہفتہ وار 84 پروازیں چلتی ہیں جن میں کراچی-کوئٹہ رُوٹ پر ہفتہ وار 20، اسلام آباد-کوئٹہ رُوٹ پر 30 جبکہ لاہور-کوئٹہ رُوٹ پر 12 پروازیں چلائی جاتی ہیں۔کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی جمال شاہ کاکڑ کی جانب سے پوچھے گئے سوال پر وزارت دفاع کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ مارچ 2025 میں فلائی جناح کا کراچی سے کوئٹہ تک اوسط کرایہ تقریباً 33 ہزار روپے جبکہ اسلام آباد تک کا کرایہ 25 ہزار روپے ریکارڈ کیا گیا۔قومی اسمبلی میں رکن جمال شاہ کاکڑ نے شکایت کی کہ عید پر ٹکٹ ایک لاکھ روپے تک پہنچ گیا تھا۔ یہ انسانی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانا ہے۔پارلیمانی سیکریٹری دفاع زیب جعفر نے یقین دلایا تھا کہ ’پی آئی اے کی جانب سے 36 ہزار روپے سے زائد کرایہ لیا گیا تو اس پر تحقیقات ہوں گی۔‘
اتوار کو جعفر ایکسپریس پر حملے کے بعد 14 اگست تک بلوچستان میں ٹرین سروس معطل ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
تاہم کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے کئی ٹریول ایجنٹس نے بتایا ہے کہ پی آئی اے بھی بھاری کرایوں کی وصولی میں کسی سے پیچھے نہیں۔
وزارت دفاع کی جانب سے فضائی کرایوں کو ریگولیٹ کرنے سے متعلق سوال پر موقف اختیار کیا گیا کہ نیشنل ایوی ایشن پالیسی 2023 کے تحت ایئرلائنز کرائے طلب اور رسد، مارکیٹ فورسز اور مسابقت کی بنیاد پر طے کرتی ہیں۔حکومت براہِ راست ریگولیشن نہیں کرتی کیونکہ یہ صنعت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔حکومت کی جانب سے قومی اسمبلی کو یقین دلایا گیا تھا کہ بلوچستان کے لیے پروازوں کی تعداد بڑھانے کی کوشش کی جائے گی۔وزیراعلٰی بلوچستان سرفراز بگٹی نے بھی اس سلسلے میں وزیراعظم کو خط لکھا تھا، تاہم اب تک کوئی بہتری دیکھنے کو نہیں مل رہی اور صوبے میں پروازوں کی محدود تعداد کی وجہ سے مسافروں کو مہنگے ٹکٹ خریدنا پڑ رہے ہیں۔