’ٹیکنالوجی نے موقع دیا‘، غیرتعلیم یافتہ گارڈ دنیا بھر کے کلائنٹس تک کیسے پہنچے؟

image
لاہور کے تاریخی ایم اے او (محمڈن اینگلو اورینٹل) کالج میں خدمات انجام دے رہے 35 برس کے نذیر احمد کوئی عام گارڈ نہیں ہیں۔

ان کی جدوجہد، محنت اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے اپنی زندگی بدلنے کی چاہ ان کے ساتھی عملے کے علاوہ کالج کے طالب علموں کو بھی متاثر کر رہی ہے۔

نذیر احمد ننکانہ صاحب سے تعلق رکھتے ہیں تاہم وہ گذشتہ طویل عرصے سے لاہور میں مقیم ہیں۔

وہ گورنمنٹ ایم اے او کالج میں بطور گارڈ ملازمت کرتے ہیں جبکہ اسی کے ساتھ ہی وہ آن لائن گرافک ڈیزائننگ کا کام کر کے ہزاروں روپے ماہانہ بھی کما رہے ہیں۔

یوں انہوں نے اپنی زندگی کے چیلنجز کو نہ صرف قبول کیا بلکہ انہیں اپنی ترقی کا ذریعہ بھی بنایا۔ نذیر احمد کوئی باقاعدہ تعلیمی پس منظر نہیں رکھتے مگر ان کا عزم اور سیکھنے کی لگن انہیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔

انہوں نے سنہ 2007 سے سنہ 2010 کے دوران ایک سافٹ ویئر ہاؤس میں بطور آفس بوائے کام کیا۔

نذیر احمد نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سافٹ ویئر ہاؤس میں ملازمت کے دوران دفتری عملے کو چائے پانی دیا کرتا تھا لیکن اپنے اردگرد موجود پروگرامرز اور ڈیزائنرز کے کام کو بھی غور سے دیکھتا رہا اور ان سے ڈیزائننگ کے بارے میں پوچھا کرتا۔ دفتر سے چھٹی ہوتے ہی رات کو گھر جا کر اپنے کمپیوٹر پر ڈیزائننگ کی پریکٹس کرتا۔‘ یہ وہ دور تھا جب نذیر احمد  گرافک ڈیزائننگ کے فن سے متعارف ہوئے۔

سنہ 2010 میں نذیر احمد نے شادی کر لی اور یوں ایک سال بعد سنہ 2011 میں انہوں نے ایم اے او کالج میں بطور ڈیلی ویجر گارڈ ملازمت اختیار کر لی۔

یہ ملازمت ان کے لیے روزگار کا ذریعہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نئے سفر کا آغاز بھی تھی۔ دن بھر کی ڈیوٹی کے بعد یا رات کی شفٹ کے دوران جب بھی انہیں فرصت ملتی وہ اپنا لیپ ٹاپ کھول کر گرافک ڈیزائننگ کرنے لگتے۔

وہ اپنے اس تخلیقی سفر کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ’ایڈوب ایلسٹریٹر اور  ایڈوب فوٹوشاپ جیسے سافٹ ویئرز پر میری مہارت وقت کے ساتھ ساتھ پختہ ہوتی گئی۔ آج میں نہ صرف لوگو ڈیزائن کر لیتا ہوں بلکہ ایٹسی اور اپ ورک جیسے بین الاقوامی فری لانسنگ پلیٹ فارمز پر بھی اپنی خدمات پیش کر رہا ہوں جہاں میرے کلائنٹس کی بڑی تعداد غیر ملکی ہے۔‘

نذیر احمد کی کہانی کا سب سے دلچسپ پہلو ان کا ٹیکنالوجی کے ساتھ ہم آہنگ ہونا ہے (فوٹو: اردو نیوز)

نذیر احمد کی کہانی کا سب سے دلچسپ پہلو ان کا ٹیکنالوجی کے ساتھ ہم آہنگ ہونا ہے۔

وہ رسمی تعلیم نہ ہونے کے باوجود مصنوعی ذہانت یعنی اے آئی (آرٹیفیشل انٹیلجنس) کے ٹولز کا بھرپور استعمال کرتے ہیں۔ جب کوئی کلائنٹ ان سے انگریزی میں رابطہ کرتا ہے یا کوئی ہدایت دیتا ہے تو نذیر احمد اس کا پہلے تو چیٹ جی پی ٹی کے ذریعے اردو میں ترجمہ کرتے ہیں اور پھر بات کرتے ہیں۔

وہ اپنے اس منفرد طریقے کی وضاحت کرتے ہوئے بتاتے ییں کہ ’کلائنٹس کا جب انگریزی میں پیغام آتا ہے تو میں وہ چیٹ جی پی ٹی کو دیتا ہوں اور پھر اپنا جواب اردو میں بتا کر چیٹ جی پی ٹی سے اسے انگریزی میں جواب لکھنے کا کہتا ہوں۔ اس طرح میں نہ صرف اپنے کلائنٹس کے ساتھ بہتر رابطہ قائم رکھ پاتا ہوں بلکہ اپنے کام کو بھی آسان بنا رہا ہوں۔‘

اے آئی نے ان کے کام کو آسان تو بنایا ہی ہے بلکہ گارڈ کی نوکری کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے لیے اضافی آمدن کو بھی ممکن بنایا ہے۔

نذیر احمد ٹیکنالوجی کی افادیت کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ’میں نے کبھی انگریزی نہیں پڑھی لیکن ٹیکنالوجی نے مجھے وہ موقع دیا جو شاید مجھے کبھی نہ ملتا۔ اب میں دنیا بھر کے لوگوں کے ساتھ کام کرتا ہوں اور خوب کما رہا ہوں‘

نذیر احمد کی شادی سنہ 2010 میں ہوئی اور ان کے تین بچے ہیں۔ ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی نجی سکول میں زیر تعلیم ہیں۔

نذیر احمد کی سب سے بڑی خواہش اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانا اور انہیں جدید ٹیکنالوجی خصوصاً مصنوعی ذہانت اور آن لائن کام کے ہنر سکھانا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے ان سے بھی آگے جائیں۔ ’میں اکثر اپنے بچوں کو بتاتا ہوں کہ میں اگر  ڈگری حاصل کیے بغیر یہ سب کر سکتا ہوں تو وہ پڑھ لکھ کر کیا کچھ نہیں کر سکتے۔‘

نذیر احمد رسمی تعلیم نہ ہونے کے باوجود مصنوعی ذہانت کے ٹولز کا بھرپور استعمال کرتے ہیں (فوٹو: اردو نیوز)

ایم اے او کالج کی پرنسپل عالیہ رحمان نذیر احمد کی محنت اور لگن کی معترف ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’ان کی جوانی اسی کالج کے ماحول میں گزری۔‘

وہ نذیر احمد کی محنت اور ہنر سے متعلق بتاتی ہیں کہ ’نذیر احمد کا کام ہمارے طالب علموں کے لیے مثال ہے۔ وہ دن کی ڈیوٹی ہو یا رات کی مگر اپنا آن لائن کام جاری رکھتے ہیں۔ ہمیں ان کی محنت اور ایمانداری دیکھ کر فخر محسوس ہوتا ہے۔‘

نذیر احمد کی زندگی کا معمول آسان نہیں۔ رات کی شفٹ کے بعد جہاں زیادہ تر لوگ آرام کرتے ہیں نذیر احمد اپنے لیپ ٹاپ پر کام کرتے ہیں۔

ان کے دن کا بیشتر حصہ کلائنٹس سے رابطے، ڈیزائننگ، اور نئے پروجیکٹس کی تلاش میں گزرتا ہے۔ اس کے باوجود وہ اپنی ڈیوٹی کو کبھی نظر انداز نہیں کرتے۔

وہ اپنی آن لائن کمائی کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ’میں کبھی ماہانہ 200 ڈالرز کماتا ہوں تو کبھی 300 لیکن آپ کہہ سکتے ہیں کہ آن لائن کمائی لاکھوں میں ہے تاہم کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی کام نہیں ملتا۔‘

 


News Source   News Source Text

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US