اتوار کے روز پاکستانی امدادی کارکنوں نے گھروں کو ملبے سے نکالنے کا کام جاری رکھا، جب کہ ملک بھر میں شدید بارشوں کے بعد آنے والے اچانک سیلاب سے کم از کم 344 افراد ہلاک ہوگئے ہیں اور 150 سے زائد افراد لاپتہ ہیں۔جمعرات سے ملک بھر میں جاری موسلا دھار بارشوں کے باعث سیلاب، پانی کی سطح میں اضافہ اور لینڈ سلائیڈنگ کے واقعات پیش آئے، جنہوں نے پورے دیہات بہا دیے اور کئی رہائشی مکانات ملبے تلے دب گئے۔سب سے زیادہ ہلاکتیں، 317 افراد، خیبر پختونخوا میں رپورٹ ہوئیں، جہاں مون سون کی بارشیں مزید شدت اختیار کر رہی ہیں، اور لینڈ سلائیڈنگ کے باعث گھر منہدم ہوگئے۔
بونیر ضلع سب سے زیادہ متاثر ہوا، جہاں کم از کم 208 افراد ہلاک اور 150 سے زائد لاپتہ ہیں۔ حکام کے مطابق 10 سے 12 پورے دیہات جزوی طور پر دفن ہو چکے ہیں۔
صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے سربراہ اسفندیار خٹک کا کہنا تھا کہ ’لاپتہ افراد اپنے گھروں کے ملبے تلے دبے ہو سکتے ہیں یا سیلابی پانی میں بہہ گئے ہوں گے۔‘انہوں نے مزید بتایا کہ شانگلہ ضلع میں بھی درجنوں افراد لاپتہ ہیں۔ریسکیو ایجنسی کے ترجمان بلال احمد فیضی نے اے ایف پی کو بتایا کہ نو اضلاع میں تقریباً 2,000 ریسکیو اہلکار کام کر رہے ہیں، تاہم مسلسل بارش امدادی کاموں میں رکاوٹ بن رہی ہے۔’ملبے تلے دبے افراد کو بچانے کا کام جاری ہے۔ مگر ان کے زندہ بچنے کے امکانات بہت کم ہیں۔‘بونیر میں موجود اے ایف پی کے صحافیوں نے دیکھا کہ وہاں آدھے دفن شدہ گاڑیاں، تباہ شدہ سامان اور دکانیں کیچڑ میں تھیں۔ کئی علاقوں میں بجلی اتوار کو بحال ہوئی۔
بونیر ضلع سب سے زیادہ متاثر ہوا، جہاں کم از کم 208 افراد ہلاک اور 150 سے زائد لاپتہ ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
قیصر علی شاہ نامی قبر کھودنے والے نے بتایا کہ ’میں نے پچھلے دو دنوں میں 29 قبریں کھودی ہیں، جن میں سے 6 بچوں کی تھیں۔ ہر قبر کھودتے وقت ایسا محسوس ہوتا جیسے یہ میرے اپنے بچے کی قبر ہو۔‘
’آج میرے جسم نے میرا ساتھ دینا چھوڑ دیا، اس لیے میں نے معذرت کر لی کہ میں مزید یہ کام نہیں کر سکتا۔‘سیلابی پانی کے بعد گرے ہوئے درختوں اور ملبے نے ریسکیو گاڑیوں کی نقل و حرکت مشکل بنا دی۔ کچھ دیہاتی اپنے ہاتھوں سے درخت کاٹ کر راستہ صاف کرتے نظر آئے۔ایک دکاندار نور محمد نے کہا کہ ’ہمارا سامان بکھرا ہوا، خراب ہو چکا ہے۔ دکانیں تباہ ہو گئی ہیں۔ لوگوں کی تھوڑی بہت جمع پونجی بھی بہہ گئی ہے۔‘صوبائی حکومت نے بونیر، باجوڑ، سوات، شانگلہ، مانسہرہ اور بٹگرام کو آفت زدہ علاقے قرار دے دیا ہے۔بونیر کے رہائشی سید وہاب باشا نے کہا کہ ’ہم اپنے گھروں میں پھنسے رہے، باہر نکلنا ممکن نہیں تھا۔پوری غریب آبادی متاثر ہوئی ہے۔ یہ سڑک ہی ہمارا واحد راستہ تھی، وہ بھی بہہ گئی۔‘اجتماعی جنازےہفتے کے دن، سینکڑوں لوگ اجتماعی جنازوں میں شریک ہوئے، جہاں خون آلود سفید چادروں میں لپٹے لاشے گاؤں کے میدان میں رکھے گئے۔قریبی کھیتوں میں گرے ہوئے درخت اور بھوسا بکھرا ہوا تھا، جب کہ لوگ اپنے گھروں سے کیچڑ نکالنے میں مصروف تھے۔
صوبائی حکومت نے بونیر، باجوڑ، سوات، شانگلہ، مانسہرہ اور بٹگرام کو آفت زدہ علاقے قرار دے دیا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے محکمہ موسمیات نے خبردار کیا ہے کہ اتوار سے مون سون کی شدت مزید بڑھے گی۔
مون سون کا موسم جنوبی ایشیا کو سالانہ بارش کا تقریباً تین چوتھائی حصہ دیتا ہے، جو زراعت کے لیے ضروری ہے، مگر اکثر تباہی بھی ساتھ لاتا ہے۔قومی ڈیزاسٹر ایجنسی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل انعام حیدر نے کہا کہ ’رواں سال مون سون کی شدت پچھلے سال کے مقابلے میں 50 سے 60 فیصد زیادہ ہے۔ مزید 2 سے 3 مون سون سپیلز ستمبر کے پہلے ہفتوں تک متوقع ہیں۔‘پاکستان میں رواں مون سون سیزن کے آغاز سے اب تک 650 سے زائد افراد ہلاک اور 920 سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کے سب سے زیادہ خطرے سے دوچار ہیں، اور شدید موسمی واقعات یہاں معمول بنتے جا رہے ہیں۔2022 کے تباہ کن مون سون سیلاب میں ملک کا ایک تہائی حصہ ڈوب گیا تھا اور تقریباً 1,700 افراد جان سے گئے تھے۔بونیر کے ایک اور رہائشی اور 32 سالہ سکول ٹیچر سیف اللہ خان نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’میں نے ان بچوں کی لاشیں نکالنے میں مدد کی، جنہیں میں پڑھاتا تھا۔‘’میں مسلسل سوچتا رہا کہ قدرت نے ان بچوں پر کیسی آزمائش نازل کی ہے۔ پورا علاقہ شدید صدمے میں ہے۔‘