پاکستان سے ہر برس لاکھوں افراد خلیجی ممالک اور دنیا کے دیگر خطوں کا رخ روزگار کی تلاش میں کرتے ہیں۔ ان تارکینِ وطن کی جانب سے بھیجی جانے والی ترسیلاتِ زر ملکی معیشت کو سہارا دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ مختلف ممالک کی جانب سے یہ شکایات بھی سامنے آتی رہی ہیں کہ پاکستانی ورکرز کو کام کے ماحول میں ڈھلنے، مقامی ثقافت کے مطابق رویہ اپنانے، زبان اور کمیونیکیشن کے مسائل حل کرنے اور ٹیم ورک جیسے بنیادی پہلوؤں میں مشکلات درپیش رہتی ہیں۔کئی مواقع پر آجر اداروں نے یہ بھی کہا کہ پاکستانی ملازمین اپنے کام کے حوالے سے تو محنتی ہیں لیکن رویوں اور سماجی میل جول میں وہ معیار پورا نہیں کر پاتے جس کی بین الاقوامی منڈی میں ضرورت ہوتی ہے۔
انہی مسائل کے پیش نظر حکومت پاکستان نے ایک اہم فیصلہ کیا ہے کہ اب بیرون ملک جانے والے ہر پاکستانی کے لیے اخلاقی تربیتی پروگرام شروع کیا جائے گا جسے ’سافٹ سکلز ٹریننگ ماڈیول‘ کا نام دیا گیا ہے۔ جو بیرون ملک جانے والے ہر ورکر کے لیے مکمل کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے۔
یہ فیصلہ بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ نے کیا ہے، جس کے مطابق 18 ستمبر 2025 کے بعد کوئی بھی امیدوار اس تربیت کا سرٹیفکیٹ حاصل کیے بغیر رجسٹریشن یا پروٹیکٹر کلیئرنس نہیں لے سکے گا۔اس اقدام کو وزیراعظم آفس اور وفاقی وزیر برائے سمندر پار پاکستانی و انسانی وسائل کی براہِ راست ہدایات پر عملی شکل دی گئی ہے۔یہ ماڈیول اوورسیز ایمپلائمنٹ کارپوریشن اور انٹرنیشنل سینٹر فار مائیگریشن پالیسی ڈویلپمنٹ نے مشترکہ طور پر تیار کیا ہے جبکہ اوورسیز پاکستانی فاؤنڈیشن اور بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ نے اس میں بھرپور تعاون فراہم کیا ہے۔یہ تربیتی پروگرام دراصل ایک جدید اور خودکار سسٹم پر مبنی ہے جو ویب پورٹل اور موبائل ایپلی کیشن کے ذریعے فراہم کیا جائے گا۔ یہ ایپ اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں دستیاب ہو گی تاکہ ہر سطح کے ورکرز آسانی سے فائدہ اٹھا سکیں۔ ورکر اپنی سہولت کے مطابق کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ سے یہ تربیت مکمل کر سکے گا۔ ویب پورٹل اور ایپ کو انٹرایکٹیو بنایا گیا ہے تاکہ شرکا نہ صرف مواد پڑھ سکیں بلکہ عملی طور پر سیکھنے اور سمجھنے کے مواقع بھی حاصل کریں۔
حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ اب بیرون ملک جانے والے ہر پاکستانی کے لیے اخلاقی تربیتی پروگرام شروع کیا جائے گا۔ (فائل فوٹو: ایکس)
ٹریننگ ماڈیول میں وہ تمام مہارتیں شامل کی گئی ہیں جنہیں دنیا بھر میں آج کے دور میں ’سافٹ سکلز‘ کہا جاتا ہے۔ اس میں مؤثر کمیونیکیشن، سماجی اور ثقافتی ہم آہنگی، ٹیم ورک، جذباتی ذہانت، صبر و تحمل، مثبت رویہ اور ورک پلیس پر آنے والے چیلنجز کا سامنا کرنے کی صلاحیت شامل ہیں۔
ڈی جی بیورو آف امیگریشن محمد طیب کا کہنا ہے کہ ان مہارتوں کو سیکھنے سے پاکستانی ورکرز نہ صرف بہتر انداز میں اپنے فرائض سرانجام دے سکیں گے بلکہ میزبان ملک اور آجر کے لیے زیادہ اعتماد کے ساتھ کام کرنے والے ثابت ہوں گے۔ یہ تربیت ورکرز کو عالمی معیار کے مطابق ڈھالنے کی ایک بڑی کوشش ہے جس سے مستقبل میں پاکستانی افرادی قوت کے لیے مزید مواقع پیدا ہوں گے۔حکومت نے واضح کیا ہے کہ 18 ستمبر 2025 کے بعد اس تربیت کے بغیر کوئی بھی ورکر پروٹیکٹر کلیئرنس حاصل نہیں کر سکے گا، یعنی یہ پروگرام اب لازمی شرط کے طور پر نافذ ہوگا۔ پاکستان اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز ایسوسی ایشن اور مین پاور ایکسپورٹرز ویلفیئر ایسوسی ایشن کو اس سلسلے میں ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ اپنے نیٹ ورک کے ذریعے یہ پیغام تمام اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز تک پہنچائیں اور ساتھ ہی ٹریننگ سینٹرز قائم کریں۔ ان مراکز میں منتخب امیدواروں کو مفت تربیت فراہم کی جائے گی تاکہ وہ پروٹیکٹر کلیئرنس حاصل کرنے سے پہلے یہ مرحلہ مکمل کر سکیں۔
اس اقدام کو وزیراعظم آفس اور وفاقی وزیر برائے سمندر پار پاکستانی و انسانی وسائل کی براہِ راست ہدایات پر عملی شکل دی گئی ہے۔ (فائل فوٹو: او ای سی)
ڈی جی بیورو آف امیگریشن کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کے مستقبل پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ آج کی دنیا میں صرف پیشہ ورانہ مہارت یا تعلیمی قابلیت کافی نہیں بلکہ آجر زیادہ تر ان ملازمین کو ترجیح دیتے ہیں جو سماجی اور ثقافتی سطح پر ہم آہنگ ہوں، مؤثر انداز میں بات چیت کر سکیں، ٹیم ورک کے ذریعے مسائل حل کریں اور مشکل حالات میں صبر و برداشت کا مظاہرہ کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان نے اپنے ورکرز کو اس شعبے میں بہتر بنانے کا عمل شروع کر دیا تو اس سے نہ صرف ورکرز کے لیے روزگار کے مزید دروازے کھلیں گے بلکہ ان کے لیے عزت اور وقار میں بھی اضافہ ہوگا۔ ساتھ ہی یہ اقدام پاکستان کی معیشت کے لیے بھی مثبت ثابت ہوگا کیونکہ بہتر ساکھ کے باعث پاکستانی افرادی قوت کی بین الاقوامی منڈی میں طلب مزید بڑھ سکتی ہے۔