پاکستان میں بجلی کے صارفین سال بھر اور خصوصاً موسمِ گرما میں زائد بلوں کے حوالے سے شکوہ کناں رہتے ہیں اور وہ غالباً اس بارے میں حق بجانب بھی ہوتے ہیں کیونکہ بجلی کے ریٹس ٹیکسز سمیت بہت زیادہ ہو جاتے ہیں جن کی ادائیگی عوام کی جیب پر گراں گزرتی ہے۔دوسری جانب حکومت نے بجلی کی بلنگ میں نقائص دور کرنے کے لیے سمارٹ میٹرز (اے ایم آئی) اور موبائل سمارٹ ایپ جیسے مختلف اقدامات کیے ہیں۔لیکن یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ حکومت نے سمارٹ اور جدید میٹرنگ کی طرف جانے کا فیصلہ کیوں کیا ہے؟اس فیصلے کی ایک وجہ یہ ہے کہ ملک کی مختلف ڈسکوز میں ایسے ہزاروں میٹرز موجود ہیں جنہیں غیرمعیاری یا خراب قرار دیا گیا ہے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان بھر کے مختلف ڈسکوز میں ہزاروں ایسے میٹرز موجود ہیں جو خراب ہیں اور جن کی ریڈنگ مکمل طور پر درست نہیں ہوتی۔اس صورت حال میں جب میٹر صحیح طور پر کام نہ کر رہے ہوں تو صارفین کو ایوریج بل بھیجا جاتا ہے جس کے نتیجے میں نہ صرف انہیں بھاری بل ادا کرنا پڑتا ہے بلکہ ان کے بجلی کے استعمال کا ریکارڈ بھی متاثر ہوتا ہے۔اس حوالے سے نیپرا نے ڈسکوز کو یہ ہدایت بھی کی ہے کہ وہ خراب میٹرز کے درست اعداد و شمار فراہم کریں اور پھر ان کی تبدیلی یا وہاں نئے میٹرز کے استعمال کو جلد از جلد یقینی بنائیں۔پاکستان میں توانائی کے شعبے پر گہری نظر رکھنے والے ڈاکٹر شعیب احمد نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ملک میں بجلی کے نظام کو ’فول پروف‘ بنانے کی ضرورت ہے۔‘انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’حکومت کو چاہیے کہ صارفین کو بھیجے جانے والے بل کو جتنا ممکن ہو، آسان اور واضح بنایا جائے۔‘
نیپرا نے ڈسکوز کو یہ ہدایت بھی کی ہے کہ وہ خراب میٹرز کے درست اعداد و شمار فراہم کریں (فائل فوٹو: اے ایف پی)
انہوں نے مثال کرتے ہوئے کہا کہ ’کسی ٹرانسفارمر پر اگر بجلی چوری ہو رہی ہے اور لائن لاسز بھی ہیں تو حکومت اس کا بوجھ بھی صارفین پر ڈال دیتی ہے اور انہیں ہی اس کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ حالانکہ وہ صارف جو استعمال کی گئی بجلی کا پورا بل ادا کرتے ہیں، انہیں بھی اضافی چارجز ادا کرنا پڑتے ہیں۔‘
ڈاکٹر شعیب احمد نے نشاندہی کی کہ ’ان کے پاس موجود اعداد و شمار کے مطابق خراب میٹرز کی تعداد ایک محتاط اندازے کے مطابق 70 ہزار ہے اور حکومت ان پر ایوریج بل بھیج رہی ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت کو چاہیے کہ نظام کو ’فل پروف‘ بناتے ہوئے صارفین کو ان کی استعمال کردہ بجلی کے مطابق ہی بل بھیجے جائیں جبکہ خرابی، لائن لاسز یا بجلی چوری کا بوجھ اس کھاتے میں ڈالا جائے جس کی وجہ سے یہ ہو رہی ہے۔‘کراچی میں مقیم توانائی شعبے کے ماہر انیل ممتاز ایک مختلف نقطۂ نظر رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’میٹر خراب نہیں ہوتے بلکہ میٹرز کو جان بوجھ کر خراب کیا جاتا ہے۔‘
ماضی میں پاکستان میں چین اور پھر جرمنی کے ڈائل میٹرز نصب کیے گئے تھے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
انیل ممتاز نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’میٹرز کو جان بوجھ کر خراب اس لیے ظاہر کیا جاتا ہے تاکہ بجلی کے اخراجات پورے کیے جا سکیں۔‘
’ماضی میں پاکستان میں چین اور پھر جرمنی کے ڈائل میٹرز نصب کیے گئے تھے جو ڈیجٹ کے بجائے سوئیوں کے ذریعے یونٹس دکھاتے تھے جو ہمیشہ درست بلنگ کرتے تھے۔‘’حکومت نے ان دنوں سمارٹ میٹر جنہیں اے ایم آئی میٹر کہا جاتا ہے، لگانے کا پروگرام شروع کر رکھا ہے جو کہ چین سے درآمد کیے گئے ہیں لیکن دراصل یہ میٹر بھی مکمل طور پر درست ریڈنگ نہیں دیتے اور ان کے ساتھ بھی چھیڑ چھاڑ کی جا سکتی ہے۔‘انہوں نے نشاندہی کی کہ پاکستان میں میٹر کی کیلیبریشن یعنی میٹر کو اس طرح ایڈجسٹ کرنا کہ وہ بجلی کی کھپت کو بالکل درست ماپے، صرف لیبارٹریز میں ممکن ہے لیکن کسی ڈسکو کے پاس ایسی لیبارٹری موجود نہیں۔
گھروں میں لگے میٹرز کے ساتھ چھیڑ چھاڑ عام شخص کے بس کی بات نہیں ہوتی (فائل فوٹو: اے ایف پی)
انیل ممتاز نے کہا کہ ’گھروں میں لگے میٹرز کے ساتھ چھیڑچھاڑ عام شخص کے بس کی بات نہیں ہوتی، اکثر کیسز میں بجلی تقسیم کار کمپنیوں کے اہلکار یہ کام خود کرتے ہیں اور پھر صارفین سے اضافی بل وصول کرتے ہیں۔‘
انہوں نے زور دیا کہ ’بجلی تقسیم کار کمپنیوں کو چاہیے کہ وہ میٹرز نصب کرنے سے پہلے ان کی مکمل جانچ پڑتال اور تصدیق کا عمل یقینی بنائیں۔‘