موسمیاتی تبدیلی کی ہولناکی اپنی جگہ لیکن آخری مرتبہ پنجاب نے جو بدترین سیلاب دیکھا وہ سن اٹھاسی کا واقعہ ہے۔بزرگ بتاتے ہیں کہ اس سیلاب سے جموں کی تمام تحصیلیں اور دیہات ڈوب گئے تھے، وہاں سے پانی سیالکوٹ اور ناروال تک پہنچا تو یہاں قیامت صغریٰ تھی۔ حالیہ سیلابی صورتحال پر ماہرین کا اندازہ ہے کہ یہ اٹھاسی سے کہیں زیادہ خوفناک ثابت ہو سکتی ہے۔آٹھ اضلاع میں فوج طلب کی جاچکی، کرتاپور صاحب کی زیارت بھی ڈوبی رہی۔ دریا ہوں یا ندی نالے، سبھی بپھرے پڑے ہیں، جگہ جگہ انتہائی اونچے درجے کے سیلاب کی اطلاع ہے۔ رہی سہی کسر بارشوں کے غیرمتوقع سلسلے سے پوری ہو رہی ہے۔جموں میں تین سو ملی میٹر ریکارڈ بارش ہوئی تو انہی دنوں سیالکوٹ اور گردو و نواح میں ریکارڈ چھ سو ملی میٹر بارش مسلسل برستی رہی۔ بارش اور سیلاب ان تمام علاقوں میں زرعی اراضی، مال مویشی اور سینکڑوں دیہاتوں کو بری طرح متاثر کر رہے ہیں۔شکر خدا کا پنجاب سرکار بالآخر جاپان سے وطن واپس لوٹ آئی ہے۔ بہتر ہوتا اگر ایسے دورے کو فوراً ختم کرتے ہوئے پنجاب واسیوں کی داد رسی کو ترجیح دی جاتی۔ منہ زو ر سیلابی ریلے گزر جائیں گے، تباہی و بربادی کی داستانیں پانی اترنے کے بعد منظرعام پر آئیں گی، لیکن اصل پریشانی پنجند کے مقام پر پانچ دریاوں کے اکٹھ پر ہو گی۔ خدشہ ہے کہ جنوبی پنجاب اور سندھ ماضی کی نسبت کہیں زیادہ متاثر نہ ہوں۔صورتحال کا اندازہ لگاتے ہوئے کلیجہ منہ کو آ رہا ہے۔ مولا کریم اہل پاکستان پر خصوصی کرم فرمائے وگرنہ ہمارے حکمرانوں نے تباہی و بربادی کی اس داستان کو بڑھانے میں کبھی کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔گزرے چالیس برسوں میں ماحولیاتی تبدیلیوں کا اندازہ لگایا گیا نہ اس سلسلے میں پیشکی انتطامات کو یقینی بنایا گیا۔ پانی ذخیرہ کرنے کے لیے نئے ڈیمز یا ذخائر بنائے گئے نہ جنگلات کی کٹائی روکنے کے لیے مؤثر اقدامات اٹھائے گئے۔اب جب کہ دنیا بھر کی جانب سے حالیہ چند برسوں میں مسلسل پکار اٹھی کی پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے بری طرح متاثر ہو گا تو حکومتوں کے ہاں اس موضوع پر بات ہونا شروع ہوئی ہے۔
پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کے لیے نئے ڈیمز یا ذخائر بنائے گئے نہ ہی جنگلات کی کٹائی روکنے کے لیے مؤثر اقدامات اٹھائے گئے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
نہیں معلوم اگلے برس کی ہولناکی تک ہم کہاں کھڑے ہوں گے۔ پانی کے ذخائر ہوں یا جنگلات کا فروغ، یہ ایسے مدعے ہیں جن پر فوری کام شروع ہو بھی جائے تو سالہا سال بعد ہی نتائج ملتے ہیں۔
قدرتی آفات اور غیرمتوقع سیلاب آنے والے کئی برسوں تک اہل پاکستان کا امتحان لیتے رہیں گے۔ اس بیچ ضرورت اس امر کی تھی کہ تمام سیاست دان ہنگامی طور پر مستقبل کے لائحہ عمل یا کسی قومی پالیسی کی جانب متوجہ ہوتے اور فوری آبی ذخائر کی تعمیر کے لیے اتفاق رائے قائم کرتے۔لیکن بدقسمتی سے ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا نہیں ہو پا رہا۔ تحریک انصاف کے گرد شکنجہ مزید سخت مزید سخت ہو رہا ہے تو بدلے میں جیل بیٹھا کپتان بھی ردعمل کا آغاز کر چکا۔ قائمہ کمییٹوں سے مستعفی ہونے کا فیصلہ ہو یا ضمنی انتخابات کے بائیکاٹ کی سوچ۔ قائد حزب اختلاف کی نئی نامزدگیاں ہوں یا جوڈیشل کمیشن سے مستعفی ہونے کا معاملہ۔ واضح ہو رہا ہے کہ کپتان فرنٹ فٹ پر آ کر جارحانہ موڈ میں ہیں۔قومی اسمبلی میں 34 قائمہ کمیٹیاں ہیں، پبلک اکاوئنٹس کمیٹی سمیت سات کی سربراہی پی ٹی آئی کے پاس تھی۔ پی ٹی آئی اب تازہ احکامات کے بعد ان کمیٹیوں سے رخصت ہو چکی۔ اپوزیشن کے سب سے بڑی جماعت کی عدم موجودگی میں ان کمیٹیوں کے ساکھ کیا رہے گی؟ ضمنی انتخابات کے بائیکاٹ کے بعد چناؤ کی حیثیت کیسے دیکھی جائے گی؟ نئے ججز کی سلیکشن کا معاملہ آیا تو پی ٹی آئی کی غیرحاضری میں پراسس کیسے آگے بڑھے گا؟ موجودہ نظام جس ایلفی کے ساتھ ایستادہ ہے، اسے دیکھتے ہوئے نہیں لگتا کہ اسے کوئی فرق پڑے۔ لیکن پی ٹی آئی اگر ردعمل میں سسٹم سے الگ ہوتی چلی گئی تو ان کے لیے صورتحال بھی حوصلہ افزا نہیں ہو گی۔ پی ٹی آئی کا ورکر سپورٹر تو شاید ان فیصلوں سے وقتی طور پر مطمئن ہو لیکن پراسس سے دوری بہرحال منفی اثرات کی حامل بھی ہوا کرتی ہے۔ بہتر نہ ہوتا اگر یہ فیصلے سیلاب اتر جانے کے بعد لیے جاتے؟
پی ٹی آئی اگر ردعمل میں سسٹم سے الگ ہوتی چلی گئی تو ان کے لیے صورتحال بھی حوصلہ افزا نہیں ہو گی (فائل فوٹو: اے ایف پی)
ملک بھر کی توجہ مسلسل سیلاب کے خدشات پر مرکوز ہے، ایسے میں اہم ترین سیاسی فیصلوں کا اعلان فطری طور پر زائل ہو رہا ہے۔
شیخ وقاص اکرم سے بات ہو رہی تھی، ان سے پوچھا کہ اگلے مرحلے میں تحریک انصاف اسمبلیوں سے استعفے بھی دے سکتی ہے؟ ان کا فرمان تھا کہ بالکل یہ آپشن ٹیبل پر موجود ہے۔ اڈیالہ سے حکم آتے ہی عمل درآمد یقینی بنایا جائے گا۔ رہ گئی بات نو مئی پر معافی تلافی یا اظہار تأسف کی تو اڈیالہ سے جاری تازہ سٹیٹمنٹ نے اس ایک اہم نکتے پر بھی عجب گرہ باندھ دی ہے۔ اس گرہ اور حالیہ اعلانات کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ یہ گتھی اب سلجھنے کی بجائے اگلے چند ماہ مزید الجھے گی۔ اس بیچ سیلاب اور موسمیاتی تبدیلیوں پر قومی اتفاق رائے شاید ایک خواب ہی رہے۔ناامیدی موت سے کہتی ہے اپنا کام کرآس کہتی ہے ٹھہر خط کا جواب آنے کو ہے