لگ بھگ نو سال قبل جب سعودی سلطنت میں یہ واقعات اور تعیناتیاں عمل میں لائی جا رہی تھیں تو اُس وقت تک سعودی عرب کی سیاست میں محمد بن سلمان کا کسی نے نام تک نہیں سُنا تھا اور نہ ہی ان کے بارے میں زیادہ معلومات دستیاب تھیں۔
جب سعودی عرب کے شاہ عبداللہ 23 جنوری 2015 کو پھیپھڑوں کے کینسر کے عارضے میں مبتلا ہو کر چل بسے تو سلمان بن عبدالعزیز سعودی سلطنت کے نئے بادشاہ بن گئے۔
نئے شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے اپنے بیٹے 68 سالہ مقرن بن عبدالعزیز کو اپنا ولی عہد مقرر کیا، جو کہ اس نئی تعیناتی سے قبل سعودی خفیہ ایجنسی کے سربراہ تھے۔
ابھی تین ماہ ہی گزرے تھے کہ اچانک سلمان بن العزیز نے مقرن کو اس عہدے (ولی عہد) سے برطرف کر دیا اور اُن کی جگہ اپنے بھتیجے 55 سالہ محمد بن نائف کو نیا ولی عہد مقرر کیا۔ محمد بن نائف کی تقرری کے ساتھ ساتھ شاہ سلمان نے اپنے 29 سالہ بیٹے محمد بن سلمان کو نائب ولی عہد اور وزیر دفاع مقرر کیا۔
لگ بھگ نو سال قبل جب سعودی سلطنت میں یہ واقعات اور تعیناتیاں عمل میں لائی جا رہی تھیں تو اُس وقت تک سعودی عرب کی سیاست میں محمد بن سلمان کا کسی نے نام تک نہیں سُنا تھا اور نہ ہی ان کے بارے میں زیادہ معلومات دستیاب تھیں۔
امریکی انتظامیہ نے محمد بن نائف کی تعریف کی اور انھوں نے دفاعی معاملات پر ایف بی آئی کا کورس کیا تھا۔ اس کے علاوہ سکاٹ لینڈ یارڈ میں انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی کی تربیت بھیحاصل کر رکھی تھی۔
اگست 2009 میں شہزادہ نائف کو خودکش بم حملے کے ذریعے قتل کرنے کی ناکام کوشش کی گئی۔ اس حملے کا الزام القاعدہ پر عائد کیا گیا تھا۔
محمد بن سلمان: سعودی بادشاہ کے ’گیٹ کیپر‘
مصنف ڈیوڈ اوٹاوے نے محمد بن سلمان پر اپنی کتاب میں لکھا کہ ’جیسے ہی وہ وزیر دفاع بنے، تو انھوں (محمد بن سلمان) نے اس عہدے کو بادشاہ کا دربان بننے کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔‘
متعدد آرا کے مطابق محمد بن سلمان نے جلد ہی اپنے والد کو اُن کے خاندان اور ماضی کے قریبی دوستوں سے الگ تھلگ کر دیا۔ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ شاہ سلمان کو اُن کی اہلیہ یعنی محمد بن سلمان کی والدہ سے ملنے سے بھی روک دیا گیا تھا۔
ڈیوڈ اوٹاوے کی کتاب میں دعویٰ کیا گیا کہ ’محمد بن سلمان نے عملی طور پر اپنی والدہ اور دو بہنوں کو نظر بند کر دیا اور اپنے والد کو اس بارے میں خبر نہیں ہونے دی۔ جب بھی ان کے والد نے ان کی والدہ کے بارے میں پوچھا تو انھیں بتایا گیا کہ انھیں علاج کے لیے بیرون ملک بھیج دیا گیا ہے۔‘
یمن پر حملہ
جلد ہیمحمد بن سلمان نے وزیر دفاع کی حیثیت سے اپنے پر پھیلانا شروع کر دیے۔
26 مارچ کو اُن کی نگرانی میں سعودی عرب کی فضائیہ نے حوثی باغیوں سے یمن کے دارالحکومت صنعا کا قبضہ چھڑانے کے لیے یمن پر حملہ کر دیا۔
ڈیوڈ اوٹاوے لکھتے ہیں کہ ’ابتدائی طور پر سعودی عوام نے اس حملے کی خوب پذیرائی کی، انھیں لگا کہ آخر کار ان کے ملک نے ایران کے توسیع پسندانہ رجحانات کی مخالفت کرنے کی ہمت دکھائی ہے، لیکن کچھ دنوں کے بعد یہ حملہ محمد اور سلمان اور سعودی عرب کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن کر سامنے آیا۔ بین الاقوامی دنیا میں اسے محمد بن سلمان کی خارجہ پالیسی میں غفلت کے طور پر دیکھا جانے لگا۔‘
محمد بن نائف کی حراست
شاہ سلمان نے شہزادہ محمد بن نائف کو ہٹانے اور اپنے بیٹے محمد بن سلمان کو ولی عہد بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔
20 جون 2015 کی رات کو شاہی خاندان کے کئی افراد رمضان المبارک کے آخری ایام کے لیے مکہ میں جمع تھے۔ اس رات سیاسی اور سلامتی امور کی کونسل کا اجلاس ہونا تھا جس کی صدارت محمد بن نائف نے کرنی تھی۔
ملاقات شروع ہونے سے کچھ دیر قبل انھیں پیغام ملا کہ شاہ سلمان اُن سے ملنا چاہتے ہیں۔ وہ بادشاہ سے ملاقات کے لیے اپنے دو محافظوں کے ساتھ ہیلی کاپٹر کے ذریعے صفا محل پہنچے۔
بین ہبارڈ اپنی کتاب ’دی رائز ٹو پاور، محمد بن سلمان‘ میں لکھتے ہیں کہ ’محمد بن نائف اور ان کے دو محافظ شاہ سے ملنے کے لیے لفٹ میں سوار ہوئے۔ پہلی منزل پر لفٹ کا دروازہ کھلا تو شاہ کے سپاہی آگے بڑھے اور نائف کے محافظوں کے ہتھیار اور موبائل فون چھین لیے۔‘
’نائف کو ایک ساتھ والے کمرے میں لے جایا گیا۔ انھیں وہاں سے جانے کی اجازت نہیں دی گئی اور ولی عہد کے عہدے سے مستعفی ہونے کے لیے دباؤ ڈالا گیا۔ نائف نے ان کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔‘
نائف کا استعفیٰ
اسی رات جب نائف گھر میں نظربند تھے، شاہی عدالت کے اعلیٰ عہدیداروں نے شاہی کونسل کے ارکان کو یہ پوچھنے کے لیے بلایا کہ کیا وہ محمد بن سلمان کو ولی عہد بنانے کے فیصلے سے متفق ہیں۔
کونسل کے 34 ارکان میں سے 31 نے اس کی حمایت کی۔ ان کی فون کالز ریکارڈ کی گئیں اور نائف کو سنائی گئیں کہ ان کے کتنے رشتہ دار شاہ کے فیصلے کی حمایت کر رہے ہیں۔
بین ہیوبرڈ لکھتے ہیں کہ شہزادہ نائف ذیابیطس کے مرض میں مبتلا تھے مگر اُس ’رات انھیں ادویات فراہم نہیں کی گئیں۔ جس کے باعث وہ تھک چکے تھے اور صبح ہونے تک وہ اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے والی دستاویز پر دستخط کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔ انھیں اگلے کمرے میں لے جایا گیا، جہاں شاہ سلمان سکیورٹی اہلکاروں اور کیمروں کے ساتھ موجود تھے۔‘
’بادشاہ نے نائف کا گرمجوشی سے استقبال کیا اور اُن کا ہاتھ چوما، نائف نے انتہائی دھیمی آواز میں سلمان سے اپنی وفاداری کا اظہار کیا۔ اس ملاقات کی ویڈیو سعودی ٹی وی اور سوشل میڈیا پر بار بار دکھائی گئی۔ محمد بن نائف جب کمرے سے نکلے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ انُ کے محافظ وہاں نہیں تھے۔ جب وہ جدہ میں اپنے محل پہنچے تو انھیں وہاں نظر بند کر دیا۔‘

نائف کی خاموشی
نیویارک ٹائمز کے ایک سوال کے جواب میں رائل کورٹ کے ترجمان نے اس رات کے بارے میں ایک مختلف کہانی سنائی۔ ان کے مطابق کونسل نے قومی مفاد میں نائف کو ولی عہد کے عہدے سے ہٹایا۔ رائل کورٹ کی جانب سے مزید کہا گیا کہ اُن کی برطرفی کی وجوہات خفیہ ہیں اور انھیں عام نہیں کیا جا سکتا۔
اس واقعے کے لگ بھگ ایک ماہ بعد ایک نامعلوم سعودی اہلکار نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ بادشاہ نے نائف کو ہٹانے کا فیصلہ اس لیے کیا تھاکیونکہ انھیں مورفین اور کوکین کی لت لگ گئی تھی۔
اُسی سال کے آخر تک اُن کے بینک اکاؤنٹس بھی منجمد کر دیے گئے۔ نائف نے اپنے علاج کے بارے میں کبھی بھی عوامی سطح پر بات نہیں کی۔
آج صورتحال یہ ہے کہ31 اگست 1985 کو پیدا ہونے والے محمد بن سلمان کے سعودی عرب میں ہر جگہ پوسٹرز نظر آتے ہیں۔
محمد بن سلمان شاہی خاندان کے ان شہزادوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے بیرون ملک تعلیم حاصل نہیں کیہے۔ وہ کبھی سعودی فوج اور فضائیہ کا حصہ بھی نہیں رہے۔ انھوں نے ریاض کے شاہی اور ثانوی سکولوں میں تعلیم حاصل کی۔
ان کے ایک انگلش ٹیچر راشد سیکائی نے بی بی سی سے ان کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ’محمد بن سلمان بچپن میں بہت شرارتی تھے۔ وہ انگریزی پڑھنے سے زیادہ شاہی محافظوں سے واکی ٹاکی پر بات کرنے میں دلچسپی رکھتے تھے۔‘
سنہ 2007 میں گریجویشن مکمل کرنے کے بعد انھوں نے سارہ بنت مشور سے شادی کی، جن سے اُن کے چار بچے ہیں۔
پیانو پر کلاسیکی دھنیں

جب محمد بن سلمان نے امریکہ کا اپنا پہلا دورہ کیا تو اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے انھیں اپنے گھر عشائیے پر مدعو کیا۔
بین ہیوبرڈ اپنی کتاب میں مزید لکھتے ہیں کہ ’محمد بن سلمان نے پوری شام کیری سے کمرے میں گفتگو کرتے ہوئے گزاری۔ پھر سلمان کی نظر وہاں رکھے پیانو پر پڑی۔‘
’جان کیری نے اُن سے پوچھا، کیا تم پیانو بجانا جانتے ہو؟ جب محمد بن سلمان پیانو کے سامنے بیٹھے اور کلاسیکی دھن بجائی تو کمرے میں موجود ہر شخص دنگ رہ گیا۔ وہابی پس منظر رکھنے والوں کی موسیقی سے ناپسندیدگی کو مدنظر رکھتے ہوئے جان کیری کو محمد بن سلمان سے پیانو بجانے کی امید نہیں تھی۔‘
جج کے میز پر بندوق کی گولی
شروع سے ہی شہزادہ سلمان سرمایہ کاری کے ذریعے اپنی اقتصادی سلطنت بنانے کی طرف مائل رہے ہیں۔
سعودی شاہی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے رچرڈ لیسی لکھتے ہیں کہ ’ایک بار جب محمد بن سلمان ابھی ولی عہد نہیں بنے تھے تو ان کے والد کی نظر ریاض میں زمین کے ایک قیمتی ٹکڑے پر پڑی۔ زمین کا مالک اسے بیچنے کے حق میں نہیں تھا۔‘
’سلمان نے دباؤ ڈالنے کی غرض سے ایک جج کا سہارا لیا۔ جب جج نے بھی ان کی بات نہ مانی تو انھوں نے ریوالور کی گولی جج کی میز پر رکھ دی۔ اس کا اشارہ یہ تھا کہ اگر جج نے اس کی بات نہ سنی تو اسے گولی مار دی جائے گی۔‘
جج نے شاہ عبداللہ سے سلمان کے رویے کی شکایت کی۔ سلمان نے کبھی اس خبر کی تردید نہیں کی۔
جب شاہ عبداللہ نے سنہ 2011 میں محمد بن سلمان کے والد کو وزیر دفاع مقرر کیا تو انھوں نے یہ شرط رکھی تھی کہ اُن کا بیٹا کبھی وزارت کی عمارت کے اندر داخل نہیں ہو گا۔
خواتین کو گاڑی چلانے کی آزادی

جب شہزادہ محمد بن سلمان کے والد نے سعودی عرب کے بادشاہ کا عہدہ سنبھالا تو ان کی عمر 79 سال تھی۔ اطلاعات تھیں کہ وہ برسوں سے الزائمر کے مرض میں مبتلا تھے۔ اس کے بعد بہت ہی کم وقت میں محمد بن سلمان نے نے اقتدار پر مکمل قبضہ جما لیا۔
محمد بن سلمان سعودی نوجوانوں اور خواتین کو اپنے حق میں کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ سنہ 2018 میں انھوں نے خواتین کے لیے ڈریس کوڈ میں نرمی کرتے ہوئے کہا کہ انھیں عوام میں ’عبایا‘ پہننے کی ضرورت نہیں ہے۔
اسی سال خواتین کو ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنے کی اجازت دی گئی تاکہ وہ مردوں کے ساتھ بغیر کام یا دکان پر جا سکیں۔
مارک تھامسن نے اپنی کتاب ’بئینگ ینگ، میل اینڈ سعودی‘ میں لکھا کہ ’آزادی کی طرف یہ قدم معاشی وجوہات کی بنا پر اٹھائے گئے ہیں، خواتین کو آزادی دینے کے لیے نہیں۔‘
ان کے مطابق ’یہ سب کچھ اس لیے کیا گیا تاکہ خواتین کام کر سکیں اور مردوں کی اجازت کے بغیر اپنی کمائی ہوئی رقم خرچ کر سکیں۔‘
’شوریٰ‘ کا خاتمہ

سعودی عرب پر نظر رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ محمد بن سلمان نے سعودی ’شوریٰ‘ اور سینیئر شہزادوں سے مشاورت کر کے فیصلے لینے کی روایت کو ترک کر دیا ہے۔
انھوں نے اپنے آپ کو مطلق العنان حکمران کے طور پر پیش کیا ہے۔ انھوں نے واضح کیا ہے کہ وہ اپنے فیصلوں اور سیاست کے خلاف کسی قسم کا احتجاج یا تنقید برداشت نہیں کریں گے۔
چیس فری مین، جو 1990 کی دہائی کی خلیجی جنگ کے دوران سعودی عرب میں امریکی سفیر تھے، کا خیال ہے کہ ’سعودی شاہی خاندان کے اتحاد کے لیے سب سے بڑا خطرہ ’شوریٰ‘ کے نظریات کو مکمل طور پر نظرانداز کرنا ہے۔‘
مہنگی چیزوں کے دلدادہ
ولی عہد بننے سے پہلے ہی محمد بن سلمان شاہ خرچ شخصیت کے طور پر شہرت حاصل کر چکے تھے۔ انھوں نے ایک روسی اولیگارک سے 440 فٹ لمبی لگژری یاٹ خریدنے کے لیے 500 ملین ڈالر خرچ کیے۔
اس سے قبل نومبر 2017 میں انھوں نے لیونارڈو ڈاونچی کی مشہور پینٹنگ خریدنے کے لیے 450 ملین ڈالر خرچ کیے تھے۔
تنقید سے بچنے کے لیے انھوں نے پہلے وعدہ کیا کہ وہ یہ پینٹنگ ابوظہبی کے میوزیم کو دیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ کچھ دنوں بعد یہ پینٹنگ ان کی کشتی ’سیرین‘ میں لٹکتی ہوئی دیکھی گئی۔
گرفتاریاں
کہا جاتا ہے کہ سعودی عرب میں کم از کم دس ہزار شہزادے ہیں۔ ان میں سے تقریباً 100 سیاسی طور پر سرگرم ہیں۔ ان سب کو حکومت کی طرف سے ماہانہ الاؤنس دیا جاتا ہے۔ کم از کم الاؤنس 800 ڈالر ہے جبکہ زیادہ سے زیادہ الاؤنس 2.75 لاکھ ڈالر ہے۔
سلمان کے ولی عہد بنتے ہی انھوں نے ان الاؤنسز میں کافی کمی کر دی۔ 4 نومبر 2017 کو محمد بن سلمان نے 380 شہزادوں، تاجروں اور اعلیٰ سرکاری افسران کی گرفتاری کا حکم دیا اور اُن پر سرکاری فنڈز میں خورد برد کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
بین ہیوبرڈ نے لکھا کہ ’گرفتار کیے گئے 380 افراد میں کم از کم 11 شہزادے شامل تھے۔ گرفتار ہونے والوں میں وزیر اقتصادیات اور منصوبہ بندی عادل فقہیہ اور وزیر خزانہ ابراہیم عبدالعزیز بھی شامل تھے۔‘
ان سب کے موبائل فون چھین لیے گئے۔ انھیں براہ راست فائیو سٹار رٹز کارلٹن ہوٹل لے جایا گیا اور نظر بند کر دیا گیا۔ ان تمام لوگوں کو تب رہا کیا گیا جب انھوں نے مبینہ طور پر بدعنوانی کے ذریعے کمائی ہوئی رقم حکومت کو واپس کر دی اور اس کے علاوہ انھوں نے مجموعی طور پر ایک ارب ڈالر جرمانے کے طور پر جمع کروایا۔‘
اسی طرح جب محمد بن سلمان نے سعودی عرب کے دورے پر آئے ہوئے لبنان کے وزیر اعظم سعد الحریری کو مبینہ طور پر گرفتار کیا تو کھلبلی مچ گئی۔
بین ہیوبرڈ لکھتے ہیں کہ ’جب الحریری محمد بن سلمان سے ملنے پہنچے تو انھیں اندر لے جایا گیا۔ ان کے قافلے کے باقی افراد کو باہر ہی رُکنے کا کہا گیا۔ کمرے میں حریری کو اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کو کہا گیا۔‘
’الحریری نے لبنانی جھنڈے کے ساتھ کھڑے ہو کر اپنے استعفیٰ کا اعلان کرتے ہوئے ایک بیان پڑھا۔ اس بیان کو دنیا بھر میں ٹیلی ویژن پر نشر کیا گیا۔‘
انھوں نے کہا کہ اُن کا استعفیٰ لبنان کو مزید مضبوط اور آزاد بنائے گا۔ اس بیان میں انھوں نے کئی بار توقف کیا اور یہ تاثر دیا کہ انھوں نے یہ بیان خود نہیں لکھا ہے۔ بہت سے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر حریری استعفیٰ دینا چاہتے تھے تو انھوں نے غیر ملکی سرزمین پر ایسا کیوں کیا؟‘
جب الحریری چند روز بعد اپنے ملک واپس آئے تو انھوں نے اپنا استعفیٰ واپس لے لیا۔ اس عجیب و غریب واقعے کے پس پردہ حالات کبھی معلوم نہیں ہو سکے۔
انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات
ہیومن رائٹس واچ نے مئی 2018 کی ایک رپورٹ میں لکھا کہ ’سعودی حکومت نے 2,305 افراد کو چھ ماہ سے زائد عرصے سے حراست میں لیا ہے، جن میں سے 251 ایسے ہیں جو تین سال سے زیادہ عرصے سے جیل میں ہیں اور انھیں کبھی جج کے سامنے پیش نہیں کیا گیا ہے۔‘
یہی نہیں بلکہ نیویارک میں قائم کمیٹی فار دی پروٹیکشن آف جرنلسٹس نے بھی اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ سعودی عرب میں 26 صحافی جیلوں میں بند ہیں جو کہ چین اور ترکی کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔
سنہ 2019 میں 1000 سعودی شہریوں پر سفر کرنے پر پابندی عائد کی گئی۔
جمال خاشقجی کا قتل

محمد بن سلمان کو اُس وقت سب سے زیادہ خفت کا سامنا کرنا پڑا جب ان کے ایک ناقد صحافی جمال خاشقجی کو اس وقت قتل کر دیا گیا جب وہ کسی کام سے ترکی میں سعودی سفارت خانے گئے تھے۔
خاشقجی ’عرب نیوز‘ اور ’الوطن‘ جیسے اخبارات کے ایڈیٹر رہے۔ تمام تر ثبوتوں کے باوجود ایک سال تک محمد بن سلمان اُن کے قتل کی ذمہ داری سے انکاری رہے۔
ڈیوڈ اوٹاوے لکھتے ہیں کہ ’قتل کی منصوبہ بندی محمد بن سلمان کے دو قریبی ساتھیوں کی نگرانی میں کی گئی تھی۔ تفتیش کے بعد سی آئی اے اس نتیجے پر پہنچی کہ قتل کا حکم محمد بن سلمان ہی نے دیا تھا۔‘
’قومی سلامتی ایجنسی نے محمد بن سلمان کی ایک پرانی ریکارڈنگ تلاش کر نکالی جس میں انھوں نے خاشقجی کے سعودی عرب واپس نہ آنے کی صورت میں اُن کے خلاف گولی چلانے کی بات کی تھی۔‘
30 ستمبر 2019 کو سی بی ایس نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو میں جب اینکر پرسن نورا ڈونل نے ان سے براہ راست پوچھا کہ ’کیا آپ نے خاشقجی کے قتل کا حکم دیا تھا؟‘ تو محمد بن سلمان کا جواب تھا ’بالکل نہیں، یہ ایک انتہائی گھناؤنا جرم تھا۔ لیکن سعودی عرب کے رہنما کی حیثیت سے میں اس کی پوری ذمہ داری لیتا ہوں۔ خاص طور پر اس وقت جب یہ جرم کرنے والے سعودی حکومت کے لیے کام کر رہے تھے۔‘‘
دسمبر 2019 میں سعودی عدالت نے خاشقجی کے قتل کے الزام میں پانچ افراد کو سزائے موت سنائی تھی۔ تین افراد کو 24 سال قید کی سزا سنائی گئی۔
اس وقت یہ خبر سب کے لیے حیرانی کا باعث بنی جب 20 مئی 2020 کو خاشقجی کے بیٹے صالح خاشقجی نے اپنے والد کے قاتلوں کو معاف کر دیا۔