روسی شہر ولادیوستوک میں اکنامک فورم کے دوران شرکا نے اس موقع پر تالیاں بجائیں۔ یہ ایسا تھا جیسے روسی حکام اور کاروباری رہنما مغربی دستوں کو 'تباہ' کرنے کی دھمکی کا خیر مقدم کر رہے ہوں۔ میرے لیے ہال میں یہ منظر دیکھنا خوفناک تھا۔
بعض اوقات یہ ضروری نہیں کہ جو کہا جائے وہی سب سے زیادہ اثر و رسوخ پیدا کرے گا۔ اس کا ردعمل بھی زیادہ معنی خیز ہو سکتا ہے۔
روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے مغرب کو ایک تنبیہ دی ہے: یوکرین میں فوجی دستے بھیجنے، خواہ وہ قیام امن کی فوج ہو، کے بارے میں سوچنا بھی مت۔
روسی صدر نے کہا کہ 'اگر کچھ دستے یہاں بھیجے گئے، خاص کر تب جب لڑائی جاری ہے، تو ہم انھیں تباہ کرنے کے اہداف کے طور پر دیکھیں گے۔'
پھر اس کا ردعمل آیا۔
روسی شہر ولادیوستوک میں اکنامک فورم کے دوران شرکا نے تالیاں بجائیں۔ یہ ایسا تھا جیسے روسی حکام اور کاروباری رہنما مغربی دستوں کو 'تباہ' کرنے کی دھمکی کا خیر مقدم کر رہے ہوں۔
میرے لیے ہال میں یہ منظر دیکھنا خوفناک تھا۔
یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے کہ جب کیئو کے اتحادی 'کولیشن آف دی ولنگ' نے جنگ کے بعد یوکرین میں حفاظتی فورس بنانے کا وعدہ کیا ہے۔
شرکا نے ایک بار پھر تالیاں بجائیں جب روسی صدر نے عندیہ دیا کہ وہ یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی سے ملنے کے لیے تیار ہیں بشرطیہ کہ یہ ملاقات روس میں ہوتی ہے۔
پوتن نے کہا کہ 'اس کے لیے بہترین مقام روسی دارالحکومت ماسکو ہے۔'
روس کے باہر پوتن کی پیشکش کو غیر سنجیدہ کہہ کر مسترد کیا گیا ہے۔ اسے سیاسی ٹرولنگ سے تشبیہ دی گئی ہے۔
رواں ماہ چین میں پوتن نے عالمی رہنماؤں کے ساتھ ہاتھ ملائے اور مسکراہٹوں کا تبادلہ کیا۔ اس کا مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ روس کے پاس طاقتور دوست ہیں، جیسے چین، انڈیا اور شمالی کوریامگر یہ کریملن کی یوکرین جنگ پر موجودہ پوزیشن کو واضح کرتا ہے: 'جی ہاں، ہم امن چاہتے ہیں مگر صرف ہماری شرائط کے مطابق۔ اگر آپ ہماری شرائط مسترد کرتے ہیں تو پھر کوئی امن نہیں ہو گا۔'
روس نے یوکرین جنگ پر سخت موقف اختیار کر رکھا ہے اور یہ سمجھوتے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔
پہلی یہ کہ کریملن سمجھتا ہے کہ یوکرین کے میدانِ جنگ میں روسی دستوں کو برتری حاصل ہے۔
دوسری وجہ سفارتی کامیابی ہے۔ رواں ماہ چین میں پوتن نے عالمی رہنماؤں کے ساتھ ہاتھ ملائے اور مسکراہٹوں کا تبادلہ کیا۔ اس کا مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ روس کے پاس طاقتور دوست ہیں، جیسے چین، انڈیا اور شمالی کوریا۔
تیسری وجہ امریکہ ہے۔ گذشتہ ماہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پوتن کو ملاقات کے لیے الاسکا مدعو کیا تھا۔ کریملن کے حامی مبصرین نے دعویٰ کیا کہ یہ ملاقات اس بات کا ثبوت ہے کہ مغرب کی روس کو یوکرین جنگ پر تنہا کرنے کی کوششیں ناکام ہوئی ہیں۔
ٹرمپ نے کریملن کو جنگ بندی پر آمادہ کرنے کے لیے کئی ڈیڈلائنز دی ہیں۔ انھوں نے روس پر پابندیوں کی بھی دھمکی دی ہے۔
لیکن ٹرمپ نے اپنی دھمکیوں کے باوجود کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ یہی وجہ ہے کہ روس کا اعتماد بڑھ گیا ہے۔
پوتن نے عوامی سطح پر ٹرمپ کی قیام امن کی کوششوں کی تعریف کی ہے۔ اس کے باوجود انھوں نے ٹرمپ کی جنگ بندی کی تجاویز کو مسترد کیا ہے۔ ان کا اصرار ہے کہ یوکرین جنگ پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔
تو اب یوکرین جنگ کے خاتمے اور قیام امن کے کیا امکانات ہیں؟
پوتن نے حال ہی میں کہا تھا کہ وہ 'سرنگ کے آخر میں روشنی دیکھ سکتے ہیں۔'
مجھے لگتا ہے کہ اس وقت ایک طرف روس اور دوسری طرف یوکرین اور یورپ (اور کسی حد تک امریکہ) ہیں۔ دونوں مختلف سرنگوں، مختلف سڑکوں اور مختلف منزلوں کو دیکھ رہے ہیں۔
یوکرین اور یورپ کی توجہ لڑائی کو ختم کرنے، کیئو کے لیے حفاظتی ضمانتیں اور اس بات کو یقینی بنانے پر مرکوز ہے کہ جنگ کے بعد یوکرین کی فوج ایک اور حملے کو روکنے کے لیے مضبوط ہو جائے۔
جب پوتن 'سرنگ کے آخر میں روشنی' کے بارے میں بات کرتے ہیں تو مجھے یقین ہے کہ وہ ایک ایسے راستے کا تصور کرتے ہیں جو انھیں یوکرین میں روسی فتح کی طرف لے جائے۔ یعنی یہ ایک ایسا عالمی منظر نامہ جس سے روس کو فائدہ پہنچے گا۔
جہاں تک امن کی بات ہے تو یہ کہنا مشکل ہے کہ دو بالکل الگ شاہراہیں کب اور کہاں آپس میں ملیں گی۔