کوہ طور، دنیا کی سب سے قدیم خانقاہ اور پیغمبر اسلام کا خط: ایک مقدس مقام سے جڑا متنازع منصوبہ جس کے لیے قبروں سے لاشوں کو منتقل کر دیا گیا

مقامی طور پر جبلِ موسیٰ کہلانے والے اس مقام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہیں حضرت موسیٰ کو خدا کی جانب سے دس احکامات ملے تھے۔ بہت سے لوگ یہ بھی مانتے ہیں کہ یہی وہ مقام ہے جہاں انجیل اور قرآن کے مطابق خدا نے جھاڑی میں آگ کے ذریعے حضرت موسیٰ سے کلام کیا تھا۔

برسوں سے زائرین کسی مقامی بدو گائیڈ کے ساتھ کوہِ طور یا جبل موسیٰ جاتے تاکہ وہ صاف ستھری، سنگلاخ وادیوں پر طلوعِ آفتاب کے دلکش منظر کا نظارہ کر سکیں یا پھر وہ بدوؤں کی رہنمائی میں اس علاقے کی سیر کر سکیں۔

یہ مصر کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک ہے جسے یہودی، مسیحی اور مسلمان تینوں مقدس مانتے ہیں۔ لیکن حال ہی میں یہ ایک تنازع کا مرکز بن گیا ہے کیونکہ اس علاقے کو ایک نیا سیاحتی میگا پراجیکٹ بنانے کا منصوبہ ہے۔

مقامی طور پر جبلِ موسیٰ کہلانے والے اس مقام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہیں حضرت موسیٰ کو خدا کی جانب سے دس احکامات ملے تھے۔ بہت سے لوگ یہ بھی مانتے ہیں کہ یہی وہ مقام ہے جہاں انجیل اور قرآن مجید کے مطابق خدا نے جھاڑی میں آگ کے ذریعے حضرت موسیٰ سے کلام کیا تھا۔

یہاں چھٹی صدی کی سینٹ کیتھرین کی موناسٹری (خانقاہ) بھی موجود ہے جو یونانی آرتھوڈوکس چرچ کے زیرانتظام ہے اور بظاہر اس کے راہب اب بھی وہاں موجود رہیں گے کیونکہ مصری حکام نے، یونان کے دباؤ پر، اس کو بند کرنے کی تردید کی ہے۔

بہر حال یہ صحرائی مقام اب یونیسکو کے عالمی ورثہ میں شامل ہے، جس میں خانقاہ، ایک قصبہ اور پہاڑ شامل ہیں۔ لیکن اب ان میں ہونے والی تبدیلیوں پر گہری تشویش ظاہر کی جا رہی ہے۔ وہاں پر لگژری ہوٹل، ولاز اور بازار تعمیر ہو رہے ہیں۔

یہ علاقہ ایک روایتی بدو قبیلے جبلیہ کا بھی مسکن ہے۔ اس قبیلے کو ’سینٹ کیتھرین کے محافظ‘ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ان کے گھروں کو بہت کم معاوضہ دے کر مسمار کر دیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ مقامی قبرستان میں قبریں خالی کروا کر لاشوں کو منتقل کر دیا گیا ہے تاکہ نئی کار پارکنگ بنائی جا سکے۔

سنائی کے علاقے میں دور افتادہ اس مقام کو سیاحتی مرکز کے طور پر تعمیر کیا جا رہا ہے
BBC
سنائی کے علاقے میں دور افتادہ اس مقام کو سیاحتی مرکز کے طور پر تعمیر کیا جا رہا ہے

اس منصوبے کو اگرچہ ’ضروری پائیدار ترقی‘ کے طور پر پیش کیا گیا ہے جو سیاحت کو فروغ دے گا، مگر برطانوی سفرنامہ نگار بین ہوفلر، جو مقامی قبائل کے ساتھ مل کر کام کرتے رہے ہیں، کہتے ہیں کہ یہ منصوبہ بدوؤں کی مرضی کے خلاف نافذ کیا جا رہا ہے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ وہ ترقی نہیں ہے جسے جبلیہ قبیلہ والے اپنا سمجھ سکیں یا جس کے لیے انھوں نے درخواست کی ہو، بلکہ یہ اوپر سے تھوپی گئی ترقی ہے، جو مقامی برادری کے مفاد پر باہر سے آنے والوں کے مفاد کو ترجیح دیتی ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا: ’ایک نیا شہری نظام ایک ایسے بدو قبیلے کے گرد تعمیر ہو رہا ہے جس کی جڑیں خانہ بدوش طرزِ زندگی میں پیوست ہیں۔ یہ وہ دنیا ہے جس سے انھوں نے ہمیشہ خود کو دور رکھا، جس کی تعمیر کے لیے انھوں نے کبھی رضامندی ظاہر نہیں کی، اور جو ہمیشہ کے لیے ان کے وطن میں ہی ان کا مقام بدل دے گی۔‘

مقامی لوگ، جن کی تعداد تقریباً 4000 ہے، ان تبدیلیوں کے بارے میں براہِ راست بات کرنے سے گریز کرتے ہیں۔

اب تک یونان ہی وہ غیر ملکی طاقت ہے جس نے ان منصوبوں کے خلاف سب سے زیادہ آواز اٹھائی ہے، کیونکہ اس کا خانقاہ سے گہرا تعلق ہے۔

ایتھنز اور قاہرہ کے درمیان کشیدگی اس وقت بڑھی جب ایک مصری عدالت نے مئی میں یہ فیصلہ سنایا کہ سینٹ کیتھرین، جو دنیا کی سب سے قدیم مسلسل فعال مسیحی خانقاہ ہے، سرکاری زمین پر واقع ہے۔

ایک دہائیوں پر محیط تنازع کے بعد، ججوں نے کہا کہ خانقاہ کو صرف اس زمین کے استعمال کا حق حاصل ہے جس پر وہ قائم ہے، اور اس کے ارد گرد کے مذہبی اور آثارِ قدیمہ کے مقامات پر بھی صرف استعمال کا اختیار ہے۔

یونانی چرچ کے سربراہ آرچ بشپ ایرونیموس دوئم نے اس فیصلے کی شدید مذمت کی ہے۔

انھوں نے کہا: ’خانقاہ کی ملکیت کو ضبط کر کے قومیا لیا گیا ہے۔ یہ آرتھوڈوکس مسیحی اور یونانی ثقافت کا روحانی مرکز ہے جو اب ایک خطرے سے دوچار ہے۔‘

ایک نایاب انٹرویو میں سینٹ کیتھرین کے طویل عرصے سے رہنے والے آرچ بشپ دامِیانوس نے ایک یونانی اخبار کو بتایا کہ یہ فیصلہ ’ہمارے لیے ایک سنگین دھچکہ ہے۔۔۔ اور باعثِ شرمندگی ہے۔‘ اس معاملے کو جس انداز میں انھوں نے سنبھالا، اس سے راہبوں کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے اور انھوں نے حال ہی میں استعفیٰ دے دیا۔

یروشلم میں یونانی آرتھوڈوکس چرچ نے نشاندہی کی کہ اس مقدس مقام، جس پر ان کا مذہبی اختیار ہے، کو خود پیغمبر اسلام کی طرف سے تحفظ کا خط دیا گیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ ’بازنطینی دور کی یہ خانقاہ، جس میں فاطمی دور کی ایک چھوٹی سی مسجد بھی موجود ہے، عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان امن کی علامت ہے اور ایک ایسے دنیا کے لیے امید کی پناہ گاہ ہے جو تنازعات میں الجھی ہوئی ہے۔‘

اگرچہ عدالت کا متنازع فیصلہ اب بھی برقرار ہے لیکن سفارتی سرگرمیوں کے نتیجے میں آخرکار یونان اور مصر کے درمیان ایک مشترکہ اعلامیہ سامنے آیا ہے جس میں سینٹ کیتھرین کی یونانی آرتھوڈوکس شناخت اور ثقافتی ورثے کے تحفظ کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔

’خصوصی تحفہ‘ یا مداخلت؟

مصر نے سنہ 2021 میں سرکاری سرپرستی میں سیاحوں کے لیے ’گریٹ ٹرانسفگریشن پروجیکٹ‘ کا آغاز کیا۔ اس منصوبے میں ہوٹلوں، ماحولیاتی لاجز اور ایک بڑے وزیٹر سینٹر کے قیام کے علاوہ قریبی چھوٹے ہوائی اڈے کی توسیع اور جبلِ موسیٰ تک جانے والی کیبل کار شامل ہے۔

حکومت اس منصوبے کو ’دنیا اور تمام مذاہب کے لیے مصر کے تحفے‘ کے طور پر پیش کر رہی ہے۔

وزیر ہاؤسنگ شریف الشربینی نے گذشتہ سال کہا تھا کہ ’یہ منصوبہ زائرین کے لیے تمام سیاحتی اور تفریحی سہولیات فراہم کرے گا، قصبے (سینٹ کیتھرین) اور اس کے آس پاس کے علاقوں کی ترقی کو فروغ دے گا، قدرتی ماحول، بصری مناظر اور ورثے کے کردار کو محفوظ رکھے گا، اور ان افراد کے لیے رہائش فراہم کرے گا جو سینٹ کیتھرین کے منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔‘

اگرچہ فنڈنگ کے مسائل کی وجہ سے کام وقتی طور پر رکا ہوا لگتا ہے، مگر وادی الراحہ، جو سینٹ کیتھرین کی خانقاہ کے سامنے واقع ہے، کو پہلے ہی تبدیل کر دیا گیا ہے اور نئی سڑکوں کی تعمیر جاری ہے۔

یہ وہی جگہ ہے جہاں کہا جاتا ہے کہ حضرت موسیٰ کے پیروکار، بنی اسرائیل، ان کے پہاڑ پر جانے کے بعد ان کا انتظار کرتے رہے تھے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس علاقے کی خاص قدرتی خوبصورتی تباہ کی جا رہی ہے۔

یونیسکو نے اس مقام کی عالمی اہمیت کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’اس کے اردگرد کا سنگلاخ پہاڑی منظر خانقاہ کے لیے ایک مثالی پس منظر فراہم کرتا ہے۔‘

یونیسکو کے مطابق: ’اس مقام کا انتخاب ایک شعوری کوشش کو ظاہر کرتا ہے کہ قدرتی خوبصورتی اور تنہائی کو انسانی روحانیت سے جوڑا جائے۔‘

سنہ 2023 میں یونیسکو نے تشویش ظاہر کرتے ہوئے مصر سے مطالبہ کیا کہ وہ اس ترقیاتی عمل کو روکے، اس کے اثرات کا جائزہ لے اور ایک تحفظاتی منصوبہ تیار کرے۔

لیکن یہ سب ابھی تک نہیں ہوا۔

خطرے سے دوچار عالمی ورثہ کے مقامات میں شمار کا مطالبہ

جولائی میں ’ورلڈ ہیریٹیج واچ‘ نامی تنظیم نے ایک خط لکھا جس میں یونیسکو کی عالمی ورثہ کمیٹی سے مطالبہ کیا گیا کہ سینٹ کیتھرین کے علاقے کو ’خطرے سے دوچار عالمی ورثہ مقامات‘ کی فہرست میں شامل کیا جائے۔

تحفظ کے حامی افراد نے برطانیہ کے بادشاہ چارلس سے بھی رابطہ کیا جو ’سینٹ کیتھرین فاؤنڈیشن‘ کے سرپرست ہیں۔ یہ فاؤنڈیشن موناسٹری کے تاریخی ورثے کو محفوظ رکھنے اور اس کے قدیم مسیحی مخطوطات کے ذخیرے پر تحقیق کے لیے فنڈز مہیا کرتی ہے۔

بادشاہ نے اس مقام کو ’ایک عظیم روحانی خزانہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’اسے آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ رکھا جانا چاہیے۔‘

یہ میگا پروجیکٹ مصر میں پہلا منصوبہ نہیں جسے ملک کی منفرد تاریخی حساسیت کو نظر انداز کرنے پر تنقید کا سامنا ہے۔

لیکن حکومت ان شاندار منصوبوں کو معیشت کی بحالی کی کلید کے طور پر دیکھتی ہے۔

مصر کی ترقی پزیر سیاحت کی صنعت جو کووڈ-19 کی وبا کے اثرات سے سنبھلنے لگی تھی اب وہ غزہ کی جنگ اور خطے میں نئی کشیدگی کی لہر سے دوبارہ متاثر ہونے لگی ہے۔ حکومت کا ہدف ہے کہ 2028 تک سالانہ تین کروڑ سیاح ملک میں آئیں۔

مصر میں آنے والی مختلف حکومتوں نے طور سینا کے علاقوں میں تجارتی ترقیاتی منصوبے مقامی بدو برادریوں سے مشاورت کے بغیر ہی جاری رکھے۔

اسرائیل کے قبضے سے واپسی

یہ علاقہ سنہ 1967 کی جنگ کے دوران اسرائیل کے قبضے میں چلا گیا تھا اور 1979 میں مصر اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدے کے بعد مصر کو واپس دیا گیا ہے۔ اس کے بعد سے بدوؤں نے شکایت کی ہے کہ ان کے ساتھ دوسرے درجے کے شہریوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔

مصر کے مشہور بحیرہ احمر کے سیاحتی مقامات، جن میں شرم الشیخ بھی شامل ہے، کی تعمیر جنوبی سنائی میں 1980 کی دہائی میں شروع ہوئی۔ بہت سے لوگ موجودہ سینٹ کیتھرین کے حالات کو انہی واقعات سے ملتا جلتا سمجھتے ہیں۔

مصر کے صحافی مہند صابری کہتے ہیں: ’بدو ہی اس علاقے کے لوگ تھے، وہی گائیڈ ہوتے تھے، وہی مزدور ہوتے تھے، اور وہی لوگ تھے جن سے کرایے پر سامان لیا جاتا تھا۔‘

’پھر صنعتی سیاحت آئی اور بدوؤں کو پیچھے دھکیل دیا گیا۔ انھیں صرف کاروبار سے نہیں نکالا گیا بلکہ انھیں جسمانی طور پر سمندر سے دور، پیچھے دھکیل دیا گیا۔‘

جس طرح بحیرہ احمر کے مقامات پر ہوا، اسی طرح توقع ہے کہ سینٹ کیتھرین کے نئے منصوبے میں کام کے لیے مصر کے دیگر علاقوں سے لوگ لائے جائیں گے۔ تاہم، حکومت کا کہنا ہے کہ وہ بدو رہائشی علاقوں کو بھی ’بہتر‘ بنا رہی ہے۔

سینٹ کیتھرین کی خانقاہ نے گذشتہ ڈیڑھ ہزار سال میں کئی بڑے اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں، مگر جب یہاں سب سے پرانے راہب آئے تھے، یہ ایک دور دراز اور دور افتادہ مقام تھا۔

یہ صورت حال اس وقت بدلنا شروع ہوئی جب بحیرہ احمر کے ساحلی تفریحی مقامات کی توسیع کے بعد ہزاروں زائرین یہاں دن بھر کے دوروں پر آنے لگے۔

گذشتہ برسوں میں، اکثر دیکھا گیا کہ بڑی تعداد میں لوگ اس مقام کے قریب سے گزرتے ہیں یا اس میوزیم کا دورہ کرتے ہیں جہاں دنیا کی سب سے قدیم اور تقریباً مکمل ہاتھ سے لکھی گئی انجیل (کوڈیکس سینائٹیکس) کے صفحات نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں۔

اگرچہ خانقاہ اور اس مقام کی گہری مذہبی اہمیت اب بھی برقرار رہے گی لیکن اس کے اردگرد کا ماحول اور صدیوں پرانی طرزِ زندگی ناقابلِ واپسی طور پر بدلتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US