بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کی قیادت خودکش حملوں کے نشانے پر کیوں؟

image

بلوچستان میں شدت پسندی کےبڑھتے واقعات میں نیا موڑ اس وقت آیا جب 2 ستمبر کو سابق وزیراعلیٰ بلوچستان اور معروف سیاستدان سردار عطا اللہ مینگل کی برسی کے حوالے سے بلوچستان نیشنل پارٹی کے سریاب کے علاقے شاہوانی اسٹیڈیم میں جلسے کے اختتام پر ایک خودکش حملے میں صوبے کے بڑے قوم پرست سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو خودکش حملے میں نشانہ بنانےکی کوشش کی گئی، جس میں بی این پی کے 14 کارکن اور ایک پولیس اہلکار جان سے گیا، تاہم اس حملے میں بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل، پشتونخوامیپ کے سربراہ محمود خان اچکزئی، نیشنل پارٹی کےمرکزی رہنما میر کبیر محمد شہی اور دیگر رہنما محفوظ رہے۔

اس دھماکے میں زخمی ہونے والے ایک بچے کے والد نے بتایا کہ اس کی ڈیوٹی ٹریفک پولیس میں ہے، اس روز وہ اسی جلسے کے قریب ڈیوٹی دے رہا تھا، اس کے پاس اس کا کمسن بیٹا بھی موجو د تھا، جیسے ہی جلسہ ختم ہوا یہ تقریباً 9 بجے کے بعد کا وقت تھا اور گاڑیاں نکل رہی تھیں، اس دوران دھماکا ہوگیا، ہر طرف اندھیرا چھاگیا، افراتفری اور چیخ وپکار مچ گئی اور لوگ اپنے ساتھیوں، عزیزوں کو دیکھنے دوڑ پڑے۔

پولیس اہلکار نے بتایا کہ میں نے دیکھا میرا بیٹا بھی گرا ہوا ہے، خون میں لت پت اسے اٹھایا اور کسی طرح اسپتال منتقل کیا گیا، ڈاکٹروں نے معائنہ کے بعد بتایا کہ اس کے پیر کے اوپر کے حصے میں چھرے لگے ہیں، اب اس کی حالت بہتر ہے، مزید علاج معالجہ چل رہا ہے۔ اس نے مزید بتایا کہ وہ منظر ایسا تھا کہ کسی کو کسی کا علم نہیں تھا، ہر کوئی اپنے کسی دوست رشتہ دار کے غم میں گُم تھا، بہت خوفناک منظر تھا۔

امریکا میں مقیم صحافی اور تجزیہ کار ملک سراج اکبر سمجھتے ہیں کہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے جلسے پر خودکش حملہ اپنی شدت کے اعتبار سے بڑا حملہ ہے، مستقبل میں ایسے واقعات پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کے جلسوں میں بھی پیش آسکتے ہیں۔

ملک سراج اکبر نے "ہماری ویب" کو بتایا کہ بلوچ قوم پرستوں اور مذہبی شدت پسند عناصر کے درمیان ٹکراؤ کا خدشہ کئی سالوں سے تھا لیکن طالبان کے ساتھ ایسا ٹکراؤ اس لیے پیش نہیں آیا کہ کہیں یہ بلوچ پشتون جنگ کی صورت اختیار نا کرے۔ جہاں تک داعش اور اس سے حال یا ماضی میں منسلک مذہبی گروہ ہیں ان کی صفوں میں خود کچھ بلوچ نوجوان شامل ہیں جس نے ایک نئی صورتحال اختیار کی ہے جس کے تحت مذہبی گروہ سمجھتے ہیں کہ ان کی بقا ہر طرح کی بلوچ قوم پرستی (بشمول قوم پرستانہ سیاسی جماعتیں اور علیحدگی پسند مسلح قوتوں) کے خاتمہ میں ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ "بلوچ قوم پرستی کا خاتمہ یا کمزوری اس وقت پاکستان اور اس کے بیرونی معاونین بشمول چین کی خواہش ہے۔ " ملک سراج کے بقول : حکومتی سطح پر بی این پی ہونے والے حالیہ حملے کی کتنی بھی مذمت کیوں نا ہو، ریاستی اداروں کی طرف سے دبے الفاظ میں ہر اس قوت کا خیرمقدم کیا جائے گا جو بلوچ قوم پرستی کو کمزور کرنے میں بلواسطہ یا بلاواسطہ ریاست کی مدد کرے۔ ایسا نہیں ہے کہ ماضی میں ریاست نے خضدار میں ایسے مذہبی عناصر (شفیق مینگل) کی حمایت نہیں کی ہے جو بی این پی اور سردار اختر مینگل کو قابو کرنے میں ریاست کی مدد کریں۔

ملک سراج سمجھتے ہیں کہ اس واقعہ کا نقصان یہ ہوگا کہ پر امن اور جمہوری قوتوں (بی وائی سی یا بی این پی) کو بھی اپنے دفاع میں انتہا پسندی کی طرف مائل کیا جائے گا۔ اس واقعہ سے ایک طرح سے جمہوری قوتوں کو یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ بلوچستان میں اس وقت جنگ مسلح گروہوں کے درمیان چل رہی ہے اور جمہوری قوتیں پیچھے ہٹیں۔ کسی بھی بڑی بلوچ جماعت پر یہ شدت کے اعتبار سے سب سے بڑا حملہ ہے لیکن مجھے خدشہ ہے کہ مستقبل میں ایسے واقعات پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور بلوچ یکجہتی کمیٹی ( بی وائی سی) کے جلسوں میں بھی پیش آسکتے ہیں۔

اگرچہ بی این پی اور بلوچ مسلح قوتوں کے درمیان ماضی میں خوشگوار تعلقات نہیں رہے ہیں لیکن بی ایل اے جیسی قوتیں اس سانحہ کو باریک بینی سے دیکھ رہی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ یہ بی این پی نہیں بلکہ تمام بلوچ حقوق کی جنگ لڑنے والوں پر حملہ ہے۔ یوں وہ اس واقعہ کے پیش نظر مستقبل قریب میں داعش اور اس سے جڑی ہوئی مقامی تنظیموں سے ٹکرائیں گے اور یوں بلوچستان خانہ جنگی اور تشدد کے ایک نئے تاریک دور میں داخل ہوگا۔ ملک سراج نے بتایا کہ ریاست کی ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ بلوچ آپس میں لڑیں تاکہ بلوچستان میں جاری شورش میں فوج اور ایف سی کی شمولیت کم بلکہ نا ہونے کے برابر ہو کیونکہ حالیہ سالوں میں ان اداروں کو بلوچستان میں خاصا جانی نقصان ہوا ہے اور وہ چاہتے ہیں یہ جنگ ایک ایسی صورتحال اختیار کرے کہ قوم پرستانہ سیاست کمزور یا ختم ہو اور اس تمام عمل میں فوج اور ایف سی یا خفیہ اداروں کو زیادہ جانی نقصان بھی نا ہو۔ قوم پرست اور مذہبی عناصر کے درمیان محاذ آرائی اسی پالیسی کی کامیابی ہے۔

یاد رہے کہ سردار اخترمینگل کے جلسے کے بعد خود کش حملے کے خلاف صوبے کے اپوزیشن جماعتیں جو اس واقعہ کے خلاف متحد ہوکر ایک آل پارٹیز بن چکے ہیں، جنہوں نے مشترکہ اجلاس کےبعد کل آٹھ ستمبر کو صوبے بھر میں شٹرڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کی کال بھی دی ہے۔

تجزیہ اور صحافی احمد بلوچ نے "ہماری ویب" کو بتایا: کہ شاہوانی اسٹیڈیم میں جمہوری و قوم پرست قیادت پر ہونے والا خودکش حملہ، جس نے بی این پی کے 14 کارکنان، ایک پولیس اہلکار اور درجنوں بے گناہ انسانوں کو شہید و زخمی کیا، محض ایک سانحہ نہیں بلکہ بلوچستان کی سیاست کے مستقبل پر سوالیہ نشان ہے۔ "اس حملے کا واضح ہدف جمہوری آواز کو زندہ رکھنے والی قیادت اور قوم کے حقوق اور سیاسی عمل کی نمائندگی کرنے والے تھے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ یہ منظر بلوچستان کے ماضی سے نیا نہیں۔ 8 اکتوبر 2016 کو کوئٹہ کے سول اسپتال میں اسی نوعیت کا قیامت خیز دھماکا ہوا تھا جس میں 70 سے زائد وکلا اور تعلیم یافتہ طبقے کے نمائندے شہید ہوئے۔ اس حملے کا مقصد بلوچستان کے باشعور حلقوں کو خاموش کرنا تھا۔ شاہوانی اسٹیڈیم میں ہونے والا دھماکا بھی اسی سلسلے کی کڑی دکھائی دیتا ہے، جہاں ہدف وکلا کے بجائے سیاسی کارکن اور قیادت تھی۔ فرق صرف یہ ہے کہ میدان اور نام بدل گئے ہیں مگر سوچ اور منصوبہ ایک ہی ہے بلوچستان کے شعور کو کچل دو۔

احمد بلوچ کے بقول: سب سے پہلے تو بلوچستان کی جمہوری سیاست براہِ راست دباؤ میں ہے۔ سیاسی کارکن عدم تحفظ کا شکار ہیں، قیادت خوف کی فضا میں سانس لے رہی ہے اور عام ووٹر مزید بداعتمادی کا شکار ہورہا ہے۔ ایسی صورت میں جب سیاسی عمل کمزور ہو تو طاقت کے غیر جمہوری مراکز مضبوط ہوتے ہیں۔ جمہوریت کے سائے چھٹنے لگتے ہیں اور شدت پسندی کی تاریکی مزید گہری ہوجاتی ہے۔

یہ حقیقت بھی نظرانداز نہیں کی جاسکتی کہ بلوچستان میں ایسے ہر سانحے کے بعد نوجوانوں کے ذہنوں میں سوالات جنم لیتے ہیں۔ جب ان کے سامنے ان کی قیادت کو شہید ہوتے دیکھا جائے، جب انہیں یہ پیغام دیا جائے کہ جمہوری راستہ بھی محفوظ نہیں، تو وہ یا تو خاموشی اختیار کرلیتے ہیں یا پھر کسی اور انتہا کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔ یہ وہ لمحہ ہے جہاں ریاست اور جمہوری قوتوں کو زیادہ سنجیدگی اور حکمت سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔

سانحہ شاہوانی اسٹیڈیم اور سانحہ سول اسپتال 2016 دراصل ایک ہی سلسلے کی دو کڑیاں ہیں۔ دونوں میں بلوچستان کے باشعور اور سیاسی حلقوں کو نشانہ بنایا گیا تاکہ مزاحمت اور سوال کرنے کی روایت کو دبایا جاسکے۔ یہ صرف افراد کا نقصان نہیں بلکہ پورے معاشرے کے اعتماد اور حوصلے پر حملہ ہے۔

بلوچستان کی سیاست کا مستقبل انہی سوالوں کے گرد گھوم رہا ہے کیا جمہوری آوازیں اس خوف کے ماحول میں زندہ رہ سکیں گی؟ کیا قوم پرست قیادت اپنی صفوں کو مزید منظم کر پائے گی یا یہ زخم انہیں مزید منتشر کردے گا؟ اور سب سے اہم، کیا ریاست بلوچستان کے عوام کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہوگی کہ ان کی سیاست، ان کی قیادت اور ان کی زندگیاں محفوظ ہیں؟ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ سوال مزید گہرے ہوں گے۔ بلوچستان کا مستقبل اسی دن روشن ہوگا جب وہاں کے عوام کو یہ احساس ہوگا کہ ان کا لہو رائیگاں نہیں جارہا، ان کے زخموں کی قیمت صرف تعزیتی بیانات نہیں بلکہ عملی اقدامات کی صورت میں مل رہی ہے۔

ادھر پاکستان میں شدت پسندی کے واقعات کا تجزیہ کرنے والے پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز کی ایک رپورٹ کے مطابق اگست کے مہینے میں شدت پسندی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، ایک مہینے کے دوران پورے ملک میں 129 واقعات رپورٹ ہوئے، جس میں 181 افراد جان سے گئے اور 196 زخمی ہوئے۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ 22 سے 28 اگست 2025 کے ہفتے کے دوران ملک میں عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں میں کمی ریکارڈ کی گئی، اس دوران 23 حملے ہوئے جبکہ پچھلے ہفتے یہ تعداد 28 تھی۔ ان حملوں میں 28 افراد جاں بحق ہوئے جن میں 12 سکیورٹی اہلکار اور 13 عام شہری شامل ہیں، جبکہ 39 افراد زخمی بھی ہوئے۔

سابق فاٹا سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ رہا جہاں 9 حملے ہوئے۔ اس کے بعد خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں 5، سندھ میں 3 اور گلگت بلتستان میں ایک حملہ ہوا۔ ان واقعات میں 9 ٹارگٹ کلنگ، 8 ٹیکنیکل حملے، 3 آئی ای ڈی دھماکے، 2 گرینیڈ حملے اور ایک کواڈ کاپٹر حملہ شامل تھا۔

اگرچہ سکیورٹی اداروں کو بلوچستان میں نواب اکبر بگٹی کی برسی کے موقع پر بڑے حملوں کا خدشہ تھا، لیکن سخت حفاظتی اقدامات کے باعث ایسے واقعات پیش نہ آئے۔

دوسری جانب، سکیورٹی فورسز نے 7 آپریشنز کیے جن میں 8 عسکریت پسند مارے گئے اور 8 کو گرفتار کیا گیا، جن میں 6 مبینہ طور پر "را" کے سہولت کار بھی شامل ہیں۔ تاہم دوسری جانب بلوچستان میں کالعدم سرگرم شدت پسند گروپ "براس" نے 76 حملوں اور فورسز کے 37 اہلکار بھی مارنےکا دعویٰ کیا ہے۔

ماضی میں بھی بلوچستان نیشنل پارٹی کے لانگ مارچ اور مستونگ اور کوئٹہ کے درمیان لک پاس کے مقام پر دھرنے کے دوران بھی ایک مبینہ خودکش حملہ آور نے قیادت کو نشانہ بنانے کی کوشش کی تھی، کارکنوں کے روکنے پر اس نے خود کو اڑا لیا تھا۔


Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US