فروری 2024 کی ایک سرد صبح، محمد شیراز دیگر بچوں کے ساتھ ایک چھوٹے سے ٹھندے اور بنیادی سہولیات سے محروم کلاس روم میں زمین پر بیٹھا انگریزی کا ایک سبق بلند آواز میں دہرا رہا تھا۔ اس وقت گھر کے عام کپڑوں میں ملبوس اس سات برس کے بچے کو شاید خود بھی معلوم نہیں تھا کہ ایک دن اس کی کوششوں سے یہ کلاس روم ایک جدید سکول میں تبدیل ہو جائے گا۔محمد شیراز نے ایک سال قبل یوٹیوب پر ویڈیوز اپ لوڈ کرنا شروع کیں جن میں وہ دیہی زندگی، کچے مکانات، مٹی کے راستے اور سرسبز اور برف پوش پہاڑ وں کو اپنی سادہ زبان میں بیان کرتا نظر آتا ہے۔ اس کی کم عمری اور ٹوٹی پھوٹی اردو نے لوگوں کی توجہ حاصل کی اور راتوں رات وہ اپنے علاقے کی مشہور شخصیت بن گیا۔ محمد شیراز کا تعلق پاکستان کے زیرِ انتظام گلگت بلتستان کے ضلع گانچے کے گاؤں ’غورسے‘ سے ہیں۔ یہ سرسبز و شاداب علاقہ تعلیم، بجلی، پانی کے صاف پانی اور ٹرانسپورٹ جیسی سہولیات سے محروم ہیں۔آج اس بچے کی مقبولیت کے نتیجے میں گاؤں میں جدید سکول، صاف پانی، ایمبولینس کی سہولت اور سیلاب سے بچاؤ کے لیے ایک حفاظتی بند تعمیر کیا گیا ہے۔ اردو نیوز کو بھیجے گئے ایک ویڈیو پیغام میں محمد شیراز نے کہا ہے کہ نیا سکول بننے کی وجہ سے اب گاؤں کے سب بچے خوشی خوشی آتے ہیں۔ ’پہلے یہ سکول خراب تھا۔ یہاں واش روم بھی نہیں تھا۔ سب ٹوٹی پھوٹی چیزیں تھیں۔ اس سکول میں اب جھولے بھی ہیں، کمپیوٹرز بھی ہیں اور کینٹین بھی ہے۔ سب بچے بہت خوش ہیں۔‘محمد شیراز کے والد محمد تقی نے اردو نیوز کو بتایا کہ اس سکول کی تعمیر ان کے بیٹے کی یوٹیوب کی کمائی اور بیرون ملک مقیم ایک خاتون کی مالی مدد سے ہوئی ہے۔ ’جب سکول کی بہتری کے لیے کام شروع کیا تو اللہ کے کچھ نیک بندوں نے میرا ساتھ دینا شروع کیا اور سکول کو بہتر کرنا شروع کیا۔ سکول کو بنانے اور اساتذہ کی تنخواہوں کے لیے مدد درکار تھی۔نیت اچھی ہو تو اللہ راستے نکال لیتا ہے۔ ایک اوورسیز بہن فوزیہ ذکی نے مجھے کال کی تو انہوں نے سکول کی ذمہ داری اٹھائی اور سکول کی بہتری میں بہت مدد کی۔ ہم نے ان کے نام پر اس سکول کا نام رکھا ہے۔‘یوٹیوب پر محمد شیراز کے 17 لاکھ 80 ہزار سبسکرائبرز ہیں۔ گزشتہ برس سوشل میڈیا پر ویڈیوز وائرل ہونے کے بعد پاکستان کے ٹی وی چینلز نے انہیں اپنی بہن مسکان زہرہ سمیت مختلف پروگرامز میں مدعو کیا تھا۔ پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے بھی محمد شیراز سے اپنے دفتر میں ملاقات کی تھی۔محمد تقی کے مطابق شیراز کی شہرت کے بعد ان کے سامنے دو راستے تھے۔ ’یا تو گاؤں چھوڑ کر اسلام آباد جیسے شہر جا کر صرف اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلواتا یا پھر گاؤں میں رہ کر سب بچوں کے لیے کچھ کرتا تو میں نے دوسرے راستے کا انتخاب کیا۔‘غورسے میں یہ ایک نیم سرکاری سکول تھا جس میں حکومت کی جانب سے دو ٹیچرز دیے گئے تھے۔ محمد تقی کے مطابق ’حکومت نے سکول کی تعمیر میں کوئی مدد نہیں کی۔‘یہ سکول جو گاؤں کے کچھ لوگوں کی زمینیں خرید کر بنایا گیا ہے، اس میں ساتویں جماعت تک مفت تعلیم دی جاتی ہے۔ ’ہمارا منصوبہ صرف تعلیم بلکہ بچوں کو جدید تعلیم دینا ہے۔ سکول میں 15 سے 20 کمپیوٹرز رکھے گئے ہیں، کلاس رومز میں ایل ای ڈی ہیں اور وائی فائی بھی فراہم کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ آن لائن کلاسیں بھی ہوتی ہیں۔‘بجلی کی لوڈشیڈنگ کے پیش نظر سکول میں سولر سسٹم بھی نصب کیا گیا ہے۔
View this post on Instagram A post shared by Muhammad Shiraz (@shirazivlogs)
محمد تقی کے مطابق ’گاؤں میں بنیادی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے زندگی میں خاص کامیابی حاصل نہیں کر سکا اور نہ اعلٰی تعلیم حاصل کی لیکن ہمیشہ سے میرے ذہن میں تھا کہ اپنے گاؤں کی مدد کروں گا اور جو محرومیاں خود دیکھی ہیں تاکہ اس کو کم کرنے کی کوشش کروں۔‘دوسری جماعت کے طالبعلم محمد شیراز کے یوٹیوبر بننے کے بارے میں محمد تقی کہتے ہیں کہ یہ ایک اتفاق تھا۔ ’مجھے شیراز کو یوٹیوبر بنانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ میں خود اپنے یوٹیوب چینل سے تھوڑا بہت کما رہا تھا۔ وہ میری نقل کرتا تھا اور اپنی والدہ کے فون پر گھر کی اور کبھی مویشیوں کی ویڈیوز بناتا تھا۔ میری بیوی نے مجھے ایک دن ویڈیوز دکھائیں تو مجھے دلچسپ لگیں اور میں نے اس کی ایک ویڈیو اپلوڈ کی جس کے بعد اس کو شہرت ملی۔‘غورسے میں بہت کم لوگ تعلیم یافتہ ہیں۔ گاؤں کی کل آبادی تقریباً 200 سے 250 گھرانوں پر مشتمل ہے جہاں زیادہ تر لوگ کھیتی باڑی اور مزدوری کرتے ہیں۔ لڑکے عموماً میٹرک کرنے کے بعد شہروں میں ہوٹلوں پر کام کرتے ہیں اور میٹرک کرتے ہی لڑکیوں کی شادیاں کر دی جاتی ہیں۔’شیراز اب بچوں کے لیے رول ماڈل بن چکا ہے‘ غورسے کے مقامی رہائشی مبشر حسین کا کہنا ہے کہ شیراز کی وجہ سے نہ صرف لوگ اب ہمارے گاؤں کو جانتے ہیں بلکہ یہاں کے مسائل بھی اجاگر ہو گئے ہیں۔ان کے مطابق گاؤں کے بچوں میں صلاحیتوں کی کمی نہیں لیکن سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے وہ آگے برھ نہیں بڑھ پاتے تھے۔’شیراز اب بچوں کے لیے رول ماڈل بن چکا ہے۔ وہ موٹیویٹ ہو رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے مثبت تبدیلی بھی آ رہی ہے اور ہمارے مسائل حل ہو رہے ہیں۔