پاکستان کے صوبہ پنجاب کا دارالحکومت لاہور روشنیوں کا شہر ہے جہاں دن کی ہلچل اور رونق رات کی خاموشی میں چھپ جاتی ہے۔ مگر کبھی کبھ یہی خاموشی دہشت کا لبادہ اوڑھ لیتی ہے۔17 ستمبر 2025 کی رات ہربنس پورہ کی گلیوں میں بھی ایک ایسا کھیل کھیلا گیا جو کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں تھا، اور یہ کھیل تھا اغوا برائے تاوان کا۔ مقدمے کی ایف آئی آر کے مطابق ملزمان نے پولیس کی وردی پہن رکھی تھی۔ہربنس پورے کے علاقے میں رات گئے خاموشی کے ڈیرے تھے یہ وہ وقت تھا جب لوگ گھروں میں سو رہے تھے اور سڑکیں سنسان تھیں۔ ایک شہری ندیم جو اس ایف آئی آر میں مدعی بھی ہیں، کسی کام کے سلسلے میں گھر سے نکلتے ہیں۔
ایف آئی آر کے متن کے مطابق انہیں راستے میں پولیس کی وردی پہنے چار افراد روکتے ہیں۔ لہجہ سخت، آنکھیں سرد، اور حکم مختصر ’چیکنگ ہے، رک جاؤ۔‘ ندیم رک جاتے ہیں، انہیں اندازہ بھی نہیں تھا کہ یوں رکنا ان کی زندگی کا سب سے خوفناک لمحہ بن جائے گا۔
چند لمحوں میں وردی پوش افراد گاڑی میں بیٹھ جاتے ہیں اور انہیں نامعلوم مقام کی طرف لے جاتے ہیں۔ اندھیری رات، سنسان سڑک اور پستول کی نوک پر خاموشی۔ ندیم کے سوالوں کا جواب صرف دھمکیوں میں ملتا ہے۔نامعلوم مقام پر پہنچتے ہی اصل کہانی شروع ہوتی ہے۔ ندیم کو گن پوائنٹ پر دباؤ میں لا کر 10 کروڑ روپے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ رات کے اس پہر اتنی بڑی رقم کا اکٹھا کرنا نا ممکن تھا۔ندیم کے مطابق ان کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے اور انہیں گن پوائںٹ پر مسلسل دھمکیاں دی جا رہی تھیں۔ پولیس کی وردی میں ملبوس افراد نقاب اوڑھے ہوئے تھے اور انہیں مسلسل بندوق کے زور پر مجبور کر رہے تھے۔تاہم ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ لوگ ندیم کو کسی نہ کسی طرح جانتے ہیں کیونکہ اب کی بار وہ ان کے ایک دوست عثمان کا نام لے کر اسے بلانے کے لیے دباؤ ڈال رہے تھے کہ وہ پیسے لے کر آئے۔اس دوران اغوا کاروں اور مغوی کے درمیان مذاکرات ہوتے ہیں اور 25 لاکھ روپے عثمان کے ذریعے منگوائے جاتے ہیں۔ یہ ایک فلمی سا منظر تھا۔اغوا کاروں اور عثمان کے درمیان رابطہ ہوتا ہے اور پھر اورنج ٹرین سٹیشن کے قریب ایک پل پر وہ پہنچ جاتا ہے۔ اس کے ہاتھ میں پیسوں کا بیگ ہوتا ہے جس میں 25 لاکھ روپے تھے۔ جیسے ہی نیچے سے اغوا کاروں نے اشارہ کیا عثمان نے بیگ پل سے نیچے پھینک دیا۔ تاہم ان کے اس ایکشن پر ان کےکچھ دوست اپنے موبائل فون کیمرے پر ریکارڈ کر لیتے ہیں۔ پل کے نیچے چھپے اغوا کار پیسے سمیٹ لیتے ہیں۔
ان دنوں پنجاب بھر میں سی سی ڈی کے چرچے ہیں اور پولیس کا دعویٰ ہے کہ جرائم کی شرح میں واضح کمی آئی ہے۔ (فائل فوٹو: پنجاب پولیس)
مغوی کی مدعیت میں درج ایف آئی آر کے مطابق گاڑی میں موجود 15 لاکھ روپے اغوا کار پہلے ہی لے چکے تھے۔ یوں اغوا کار 40 لاکھ روپے اکٹھے کر چکے تھے۔
پیسے ملنے کے بعد ندیم کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس واقع کا مقدمہ 19 ستمبر کو ہربنس پورہ تھانے میں ان کی مدعیت میں درج کر لیا جاتا ہے۔ مقدمہ چار نامعلوم ملزمان کے خلاف ہے۔ان دنوں لاہور کیا پنجاب بھر میں کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ (سی سی ڈی) کے چرچے ہیں اور پولیس کا دعویٰ ہے کہ جرائم کی شرح میں واضح کمی آئی ہے۔ ایسے میں لاہور کی سڑکوں پر اغوا برائے تاوان کا یہ واقعہ سمجھ سے باہر لگتا ہے۔ تاہم اس کی گتھی ایک پولیس افسر نے سلجھائی جنہوں نے اردو نیوز سے التماس کی کہ چونکہ تفتیش ابھی چل رہی ہے اس لیے ان کا نام ظاہر نہ کیا جائے۔پولیس آفیسر کے مطابق ’اس ایف آئی آر کے اندراج کے بعد چار میں سے دو افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ان مبینہ اغوا کاروں میں سے ایک پولیس کانسٹیبل اصل میں پولیس کا ملازم ہے۔‘’تفتیش میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ پانچوں کسی مشترکہ کاروبار سے منسلک تھے جو بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ ناجائز تھا، اور یہ سب آپس میں شراکت دار تھے۔ ان میں ایک پولیس اہلکار بھی تھا جس کی تلاش ابھی جاری ہے۔ ان کے درمیان لین دین کا تنازع کافی وقت سے چل رہا تھا۔ تو باقی چار افراد نے طاقت کے زور پر اپنا حساب برابر کرنے کی کوشش کی۔‘
ایف آئی آر کے متن کے مطابق ندیم کو راستے میں پولیس کی وردی پہنے چار افراد روکتے ہیں۔ (فائل فوٹو: ایکس)
پولیس افسر کے مطابق پولیس اس واقع کی مکمل تہہ تک پہنچ رہی ہے، جلد ہی اس حوالے سے میڈیا کو آگاہ کیا جائے گا۔ دو افراد اس وقت تک گرفتار ہو چکے ہیں جبکہ باقی دو کی تلاش جاری ہے۔