یوٹیوبر رضی دادا کا ’متعصبانہ تبصرہ‘، ن لیگ اور پیپلز پارٹی آمنے سامنے

image
پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان حالیہ دنوں میں ایک نئی کشیدگی ابھری ہے، جو بظاہر صوبائیت اور علاقائی تعصب کو ہوا دے رہی ہے۔

یہ تنازع ایک سینیئر صحافی اور یوٹیوبر رضوان الرحمان رضی المعروف رضی دادا کی ایک ویڈیو سے شروع ہوا، جس میں سندھ میں بسنے والوں کے خلاف مبینہ طور پر توہین آمیز اور نسل پرستانہ تبصرے کیے گئے۔ جس پر انہوں نے بعدازاں معافی بھی مانگ لی۔

تاہم اب یہ معاملہ  پنجاب اور سندھ کی صوبائی حکومتوں کے درمیان موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ ایک طرف مسلم لیگ ن کی قیادت رضی دادا کی معافی کو کافی سمجھتی ہے، تو دوسری طرف پیپلز پارٹی اسے سندھ کے خلاف نفرت انگیزی قرار دے رہی ہے۔ اس واقع نے سوشل میڈیا پر کئی دنوں سے طوفان برپا کر رکھا ہے۔

اب تک کیا ہوا؟رضی دادا، جو سرکاری ٹیلی ویژن ’پی ٹی وی نیوز‘ سے بطور تجزیہ نگار وابستہ تھے، نے چند روز قبل اپنے ایک ولاگ میں سندھ کے عوام کے بارے میں سخت اور مبینہ طور پر نسل پرستانہ کلمات کہے۔ یہ ویڈیو دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اور سندھ میں شدید ردعمل پیدا ہوا۔ پیپلز پارٹی کی قیادت اور کارکنوں نے اسے سندھ کے خلاف نفرت پر مبنی پروپیگنڈا قرار دیا۔

اس کے نتیجے میں سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی نے رضی دادا کو وضاحت کے لیے طلب کیا۔ کمیٹی میں انہوں نے معذرت کی اور کہا کہ کسی کو تکلیف پہنچانا ان کا مقصد نہیں تھا۔ تاہم کمیٹی نے ان کی معافی کو ناکافی قرار دیتے ہوئے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کو ہدایت دی کہ ان کا یوٹیوب چینل ’نفرت انگیز تقریر‘ کے باعث بند کیا جائے۔

اس کے بعد سوشل میڈیا پر رضی دادا کے حق میں ٹرینڈ چلنے لگا۔ ان کے حامیوں نے ایکس پر اپنی پوسٹس میں لکھا کہ ’آپ دادا سے اختلاف کر سکتے ہیں لیکن جس طرح انہوں نے مشکل وقت میں حق کا علم بلند رکھا وہ یاد رکھا جائے گا۔‘

اس مہم کو مسلم لیگ ن کی سوشل میڈیا ٹیم نے بھی آگے بڑھایا، جس سے معاملہ پنجاب اور سندھ کی سیاسی کشمکش میں ڈھل گیا۔

وزیراعلٰی پنجاب مریم نواز کے ایک بیان میں کہا گیا کہ رضی دادا نے ’دل سے معافی مانگ کر ایک بڑے ظرف کا مظاہرہ کیا اور ان کی جماعت صوبائی تعصب کی سیاست پر یقین نہیں رکھتی۔‘

پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے بھی کہا کہ مسلم لیگ ن نے کبھی صوبائیت کی سیاست نہیں کی اور نہ ہی دریاؤں اور ڈیموں کی بنیاد پر صوبے لڑائے۔

دوسری جانب سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل میمن نے رضی دادا کو ’بیمار ذہن‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’پنجاب حکومت کی جانب سے ان کی حمایت سندھ کے عوام کو منفی پیغام دے رہی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ سب دراصل سیلاب میں ناقص کارکردگی سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔‘

پیپلز پارٹی کے دیگر رہنماؤں نے بھی شدید ردعمل دیا اور کہا کہ یہ صحافت کی توہین اور اتحادی جماعتوں کے اتحاد کے لیے خطرہ ہے۔ سوشل میڈیا پر پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے کہا کہ ’پنجاب سیلاب سے نبرد آزما ہے اور مسلم لیگ ن سندھ کا مذاق اڑانے والوں کا دفاع کر رہی ہے۔‘

یوں یہ تنازع ایک ویڈیو سے نکل کر سیلابی امداد، وفاقی فنڈز اور صوبائی حقوق کی بحث تک پھیل گیا ہے۔

صوبائیت کی سیاستمسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی روایتی سیاسی مخالفت تو پرانی ہے، لیکن صوبائیت کے مسئلے پر ان کا آمنے سامنے آنا زیادہ تر 90 کی دہائی میں دیکھنے کو ملا۔ اس دور میں پیپلز پارٹی کو سندھ کے دیہی علاقوں تک محدود کرنے کی کوششیں ہوئیں، جبکہ ایم کیو ایم کو پروان چڑھایا گیا تاکہ سندھ میں طاقت کا توازن بدلا جائے۔ مہاجر اور سندھی آبادیوں کے درمیان کشیدگی نے صوبائی سیاست کو مزید تقسیم کیا۔

سیاسیات کے پروفیسر ڈاکٹر فاروق احمد نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ان دونوں جماعتوں کا اختلاف پرانا ہے، معاشی سطح پر بھی دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کی پالیسیوں کو چیلنج کیا۔ سنہ 1990 کی دہائی میں مسلم لیگ ن کی پنجاب میں مضبوط گرفت اور پیپلز پارٹی کی سندھ میں بنیاد نے صوبائی تفریق کو اجاگر کیا۔ بعد کے برسوں میں یہ اختلافات زیادہ تر انتخابی مقابلوں تک محدود ہو گئے، لیکن پانی کی تقسیم، ڈیموں کی تعمیر اور وسائل کی تقسیم پر دونوں جماعتیں ہمیشہ متصادم رہیں۔‘

’سنہ 2022 کے سیلاب میں بھی امداد کی تقسیم پر اختلاف سامنے آیا، لیکن موجودہ براہ راست نسلی اور صوبائی پہلو کم ہی دیکھا گیا۔ رضی دادا کا معاملہ پہلا موقع ہے جب یہ تنازع واضح طور پر صوبائی شناخت اور قومیت کے حساس پہلو سے جڑ گیا ہے۔ جو کہ میرے خیال میں کوئی نیک شگون نہیں ہے۔‘

رضوان الرحمان رضی ’پی ٹی وی نیوز‘ سے بطور تجزیہ نگار وابستہ تھے۔ (فوٹو: سکرین گریب)

سیاسی ماہرین کے مطابق یہ تنازع دراصل وفاقی اور صوبائی سطح پر اعتماد کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔ سیاسیات کی ایک اور استاد ڈاکٹر عنبرین کہتی ہیں کہ ’یہ صرف ایک صحافی کا مسئلہ نہیں بلکہ وفاقی ڈھانچے کی کمزوری کا عکاس ہے۔ لیکن اس معاملے میں ایک پہلو یہ بھی ہے جس پر کوئی بات نہیں کر رہا وہ یہ کہ ہمارے ملک میں سیاست اور صحافت ایک دوسرے میں مدغم ہو چکے ہیں جو کہ صحافت کے اصولوں کی مکمل نفی ہے۔ لیکن ظاہر ہے اس کا براہ راست تعلق پاکستان کے معروضی حالات سے ہے۔ جہاں جس کا کام اسی کو ساجھے کا اطلاق نہیں ہوتا۔‘

’ویسے تو دنیا بھر میں بھی اب یہی ہو رہا ہے۔ دائیں بازو کی نئی لہر اور سوشل میڈیا کی آمد کے بعد صحافت اور سیاست اب ایک ہی جگہ اکٹھے ہو چکے ہیں۔ اور جب یہ ہو گا تو پھر ایسے واقعات بھی آپ ہونے سے نہیں روک سکتے۔‘

 


News Source   News Source Text

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US