انڈیا میں ایرو سپیس انجینئرنگ کے طالب علم سدھنوا کشیپ نے سوچا تھا کہ انہوں نے ہر وہ کام بہترین طریقے سے مکمل کر لیا ہے جو اُن کو امریکہ جانے کے لیے درکار ہے مگر اب اُن کے اس کے منصوبے کو واشنگٹن کی جانب سے ہُنرمند ورکرز کے ویزوں میں اچانک اور مہنگی تبدیلی نے مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ٹیک انڈسٹری سے وابستہ افراد کے فیورٹ ایچ ون بی کیٹیگری کے ویزوں کی نئی فیس ایک لاکھ ڈالر کیے جانے نے امریکی کمپنیوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ویزا فیس میں تبدیلی نے سدھنوا کشیپ جیسے اُن طلبا کے مستقبل کے منصوبوں کے لیے غیریقینی صورتحال پیدا کر دی ہے جو کسی امریکی یونیورسٹی میں داخل ہونے کی امید رکھتے تھے تاکہ وہاں کی ’جاب مارکیٹ‘ تک رسائی حاصل کر سکیں۔جنوبی انڈیا کے ٹیک ہب سمجھے جانے والے بنگلورو سے تعلق رکھنے والے 21 سالہ کشیپ نے تصور میں خود کو ایک اعلیٰ امریکی یونیورسٹی سٹنفورڈ میں جاتے دیکھا تھا۔انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ جب فیس کم تھی تب بھی یہ ایک ایسی چیز تھی جس سے آپ امیدیں وابستہ کر سکتے تھے، یعنی کہ سٹوڈنٹ ویزا کو ایچ ون بی میں تبدیل کرنا آسان ہوگا۔‘سدھنوا کشیپ نے کہا کہ ’میں بہت مایوس ہوں۔ جو صورتحال دکھائی دے رہی ہے میرا خواب پٹری سے اتر گیا ہے۔‘امریکہ کی حکومت مقامی کمپنیوں کو اجازت دیتی ہے کہ وہ خصوصی مہارتوں کے حامل غیرملکی کارکنوں کو ایچ ون بی ویزا سپانسر کرے۔
صدر ٹرمپ کے ایگزیکٹیو آرڈر کے بعد ایچ ون بی ویزے کی فیس ایک لاکھ ڈالر کر دی گئی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
ان افراد میں سائنسدان، انجینیئر اور کمپیوٹر پروگرامر ترجیح ہوتے ہیں جن کو امریکہ میں کام کرنے کے لیے ابتدائی طور پر تین سال کا ویزا دیا جاتا ہے جس میں چھ سال تک توسیع کی جا سکتی ہے۔
امریکہ ہر سال ایچ ون بی کیٹیگری کے 85 ہزار ویزوں کا لاٹری سسٹم کے ذریعے اعلان کرتا ہے جن میں سے تین چوتھائی انڈیا کے شہری حاصل کرتے ہیں۔نئے ویزا قواعد کے اعلان کے بعد امریکی کمپنیوں نے اپنے انڈین کارکنوں سے کہا ہے کہ وہ ملک چھوڑنے کا ارادہ ترک کر دیں تاکہ وہ اس دوران مضمرات کا تخمینہ لگا سکیں۔ اسی طرح بہت سے افراد جنہوں نے چھٹیوں پر انڈیا جانا اپنی ٹکٹس منسوخ کرا دی ہیں ان خدشات کے باعث کہ معلوم نہیں اُن کو واپس امریکہ میں داخلے کی اجازت ملے گی یا نہیں۔امریکہ کے محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی کی جانب سے سنہ 2024 میں جاری کیے گئے ڈیٹا کے مطابق وہاں چار لاکھ 22 ہزار 335 انڈین طلبہ موجود تھے۔ یہ گزرے برس کے مقابلے میں لگ بھگ 12 فیصد اضافہ تھا۔