برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا نے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کر لیا

image
برطانیہ، آسٹریلیا اور کینیڈا نے اتوار کو فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیا ہے، جسے مغربی خارجہ پالیسی میں دہائیوں بعد ایک بہت بڑی تبدیلی قرار دیا جا رہا ہے، اور اس فیصلے پر اسرائیل کا شدید ردِعمل سامنے آیا ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پرتگال بھی اتوار کو ہی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے جا رہا ہے، جبکہ غزہ میں جاری جنگ کے باعث اسرائیل پر عالمی دباؤ میں غیرمعمولی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ یہ جنگ 7سات اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے کے بعد شروع ہوئی تھی۔

اتوار کو برطانوی وزیرِاعظم کیئر سٹارمر نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر کہا کہ ’آج، فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے لیے امن کی امید اور دو ریاستی حل کو زندہ کرنے کے لیے، برطانیہ نے باقاعدہ طور پر ریاستِ فلسطین کو تسلیم کر لیا ہے۔‘

برطانیہ اور کینیڈا جی سیون میں شامل وہ پہلے ممالک بن گئے ہیں جنہوں نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا ہے، جبکہ فرانس اور دیگر ممالک سے توقع ہے کہ وہ پیر کو نیو یارک میں شروع ہونے والے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں ان کی پیروی کریں گے۔

کینیڈین نے وزیرِاعظم مارک کارنی نے ریاستِ فلسطین کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک دیگر بڑے مغربی ممالک کے ساتھ مل کر اسرائیل پر غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لیے دباؤ بڑھا رہا ہے۔

انہوں نے ایکس پر ایک پیغام میں کہا کہ ’کینیڈا ریاستِ فلسطین کو تسلیم کرتا ہے اور ریاستِ فلسطین اور ریاستِ اسرائیل، دونوں کے لیے پُرامن مستقبل کی تعمیر میں شراکت داری کی پیشکش کرتا ہے۔‘

آسٹریلوی وزیرِاعظم انتھونی البانیزے نے بھی اعلان کیا کہ آسٹریلیا نے ’آزاد اور خودمختار ریاستِ فلسطین کو باضابطہ طور پر تسلیم کر لیا ہے۔‘

انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ ’آسٹریلیا فلسطینی عوام کے اپنی آزاد ریاست کے قیام کی جائز اور دیرینہ خواہشات کو تسلیم کرتا ہے۔ آج کا یہ اقدام آسٹریلیا کے دو ریاستی حل سے وابستہ دیرینہ عزم کی عکاسی ہے، جو ہمیشہ اسرائیلی اور فلسطینی عوام کے لیے پائیدار امن اور سلامتی کی واحد راہ رہا ہے۔‘

نیتن یاہو نے کہا کہ فلسطینی ریاست کے قیام کا ’مطالبہ ہمارے وجود کو خطرے میں ڈالے گا اور دہشت گردی کو نوازے گا۔‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

یہ فلسطینیوں اور ان کی آزاد ریاست کے لیے دہائیوں پر محیط جدوجہد کے لیے ایک اہم سنگِ میل ہے، کیونکہ طاقتور مغربی ممالک کا طویل عرصے سے یہ موقف تھا کہ فلسطینی ریاست کا قیام صرف اسرائیل کے ساتھ مذاکراتی امن معاہدے کے تحت ہی ممکن ہے۔

تاہم اس اقدام سے یہ ممالک امریکہ اور اسرائیل کے مخلاف سمت میں آ کھڑے ہوئے ہیں۔ جبکہ اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو نے غصے کا اظہار کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ میں اس کی مخالفت کا عندیہ دیا ہے۔

نیتن یاہو نے اتوار کو کہا کہ فلسطینی ریاست کے قیام کا ’مطالبہ ہمارے وجود کو خطرے میں ڈالے گا اور دہشت گردی کو نوازے گا۔‘

دوسری جانب اسرائیل نے غزہ میں اپنی کارروائیاں تیز کر دی ہیں اور حماس کو ختم کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

غزہ کی پٹی وسیع پیمانے پر تباہی، بڑھتے ہوئے جانی نقصان اور خوراک کی قلت کا شکار ہے، جس سے ایک بڑی انسانی بحران جنم لے چکا ہے اور اس کے خلاف بین الاقوامی سطح پر شدید ردعمل دیکھنے میں آ رہا ہے۔

برطانیہ نے جولائی میں اسرائیل کو ایک الٹی میٹم دیا تھا کہ اگر غزہ میں ’سنگین صورتحال‘ کے خاتمے کے لیے اس نے مؤثر اقدامات نہ کیے، تو وہ ریاستِ فلسطین کو تسلیم کر لے گا۔

لندن میں فلسطینی مشن کے سربراہ حسام زملط نے اس فیصلے کو ’ایک دیرینہ ضروری اقدام‘ قرار دیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

لندن میں فلسطینی مشن کے سربراہ حسام زملط نے اس فیصلے کو ’ایک دیرینہ ضروری اقدام‘ قرار دیا اور کہا کہ ’یہ فیصلہ صرف فلسطین کے بارے میں نہیں بلکہ برطانیہ نے ایک سنجیدہ ذمہ داری کو پورا کیا ہے۔‘

انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ ’یہ انصاف، امن، اور تاریخی ناانصافیوں کی اصلاح کی جانب ایک ناقابلِ واپسی قدم ہے۔‘

 


News Source   News Source Text

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US