سعودی عرب اور فرانس کی سربراہی میں دو ریاستی حل کی حمایت کے لیے پیر کو درجنوں عالمی رہنماؤں کی موجودگی میں اجلاس ہوگا اور توقع ہے کہ متعدد ممالک فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کریں گے۔ یہ اقدام اسرائیل اور امریکہ کے سخت ردعمل کا باعث بن سکتا ہے۔برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اسرائیل کے اقوام متحدہ کے سفیر ڈینی ڈینن نے اس تقریب کو ’سرکس‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل اور امریکہ سربراہی اجلاس کا بائیکاٹ کریں گے۔ انہوں نے جمعرات کو میڈیا کو بتایا کہ ’ہمیں نہیں لگتا کہ یہ مددگار ہے۔ ہمارے خیال میں یہ دراصل دہشت گردی کا بدلہ ہے۔‘اسرائیلی حکام نے کہا ہے کہ اسرائیل ممکنہ ردعمل کے طور پر مقبوضہ مغربی کنارے کے حصے کو ضم کرنے اور پیرس کے خلاف مخصوص دو طرفہ اقدامات پر غور کر رہا ہے۔امریکی انتظامیہ نے اسرائیل کے خلاف اقدامات کرنے والوں کے خلاف ممکنہ نتائج سے بھی خبردار کیا ہے، بشمول فرانس کے خلاف جس کے صدر ایمانویل میکخواں نیویارک سمٹ کی میزبانی کر رہے ہیں۔اسرائیل کے غزہ پر جارحانہ کارروائیوں اور مغربی کنارے میں اسرائیلی آباد کاروں کے بڑھتے ہوئے تشدد کے دوران دو ریاستی حل پر فوری اقدام کا تقاضہ کرتا ہے کہ اس سے پہلے کہ یہ اس حل کا خیال ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے۔جنرل اسمبلی نے اس ماہ سات صفحات پر مشتمل ایک اعلامیے کی توثیق کی جس میں دو ریاستی حل کی جانب ’مضبوط اور ناقابل واپسی اقدامات‘ کا خاکہ پیش کیا گیا، جبکہ حماس کی مذمت اور اسے ہتھیار ڈالنے اور غیر مسلح کرنے کا مطالبہ کیا۔اسرائیل اور امریکہ کی طرف سے فوری طور پر ردعمل سامنے آیا اور انہوں نے اسے نقصان دہ اور تشہیر کا سٹنٹ قرار دیا۔
فرانس کے وزیر خارجہ نے کہا کہ ’نیویارک کا اعلامیہ مستقبل بعید کے لیے کوئی مبہم وعدہ نہیں ہے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)
فرانس کے وزیر خارجہ جین نول باروٹ نے جمعرات کو صحافیوں کو بتایا کہ ’نیویارک کا اعلامیہ مستقبل بعید کے لیے کوئی مبہم وعدہ نہیں ہے، بلکہ ایک روڈ میپ ہے جو اولین ترجیحات کے ساتھ شروع ہوتا ہے جس میں جنگ بندی، یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ میں انسانی امداد کا بلا روک ٹوک داخلہ شامل ہے۔‘
’ایک بار جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی حاصل ہونے کے بعد اگلے مرحلے کے لیے ایک منصوبہ ہے جو پیر کی بات چیت کے ایجنڈے میں شامل ہوگا۔‘واضح رہے کہ برطانیہ، آسٹریلیا، پرتگال اور کینیڈا نے اتوار کو فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیا ہے، جسے مغربی خارجہ پالیسی میں دہائیوں بعد ایک بہت بڑی تبدیلی قرار دیا جا رہا ہے، اور اس فیصلے پر اسرائیل کا شدید ردِعمل سامنے آیا ہے۔