بیرون ملک ملک مقیم پاکستانی بالخصوص خلیجی ممالک میں محنت مزدوری کرنے والے ورکرز ہر سال اربوں ڈالر اپنے وطن بھیجتے ہیں جو نہ صرف ان کے خاندانوں کا معاشی سہارا بنتے ہیں بلکہ قومی معیشت کے استحکام میں بھی ان کا کلیدی کردار ہے۔سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، کویت اور عمان جیسے ممالک میں مقیم پاکستانیوں کی اکثریت تعمیرات، ٹرانسپورٹ، سروسز اور گھریلو ملازمتوں کے شعبوں میں کام کرتی ہے۔
صرف سعودی عرب ہی سے ہر سال پاکستان کو اربوں ڈالر کی ترسیلات موصول ہوتی ہیں جو مجموعی زرمبادلہ کے ذخائر میں نمایاں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ حکومت اور سٹیٹ بینک مسلسل ایسے اقدامات کر رہے ہیں جن سے ترسیلات زر کا عمل مزید محفوظ، تیز اور کم لاگت بنایا جا سکے تاکہ غیررسمی ذرائع جیسے ہنڈی اور حوالہ پر انحصار کم ہو اور رقوم براہِ راست ملک کے مالیاتی نظام کا حصہ بن سکیں۔اب خلیجی ممالک میں رہنے والے اوورسیز پاکستانیوں کے لیے ترسیلات زر کو مزید محفوظ، سستا اور تیز بنانے کے لیے پاکستانیوں کے ’راست اکاؤنٹس‘ کو ’بُونا پیمنٹ سسٹم‘ سے منسلک کیا جا رہا ہے۔اس اقدام کے نتیجے میں عرب ممالک سے پاکستان کے کسی بھی بینک اکاؤنٹ میں براہِ راست رقم منتقل کی جا سکے گی۔ تاہم یہ سہولت صرف بھیجنے کی ہو گی، یعنی اوورسیز پاکستانی اس نظام کے ذریعے پاکستان سے رقوم واپس بیرون ملک نہیں منگوا سکیں گے۔
ان اقدامات کا آغاز گزشتہ برس کیا گیا تھا اور اس سلسلے میں پاکستان اور عرب ممالک کے درمیان ایس آئی ایف سی اور دیگر پلیٹ فارمز پر گفتگو جاری رہی۔ اب اس پر عمل درآمد شروع ہونے جا رہا ہے۔
گورنر سٹیٹ بینک جمیل احمد کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ڈیجیٹل اکانومی کی توسیع کے لیے طویل المدتی منصوبے پر عمل کیا جا رہا ہے۔
’جون 2026 تک وفاق اور صوبوں میں کیش لیس معیشت متعارف کرانے کا ہدف مقرر کیا ہے جبکہ 2028 تک 75 فیصد نوجوانوں کو ڈیجیٹل فنانشل سروسز کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی۔ اس نظام کے تحت مستقبل میں تنخواہیں، پنشنز، ٹیکسز اور یوٹیلیٹی بلز بھی براہِ راست ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر منتقل کیے جائیں گے تاکہ نقدی کے استعمال کو بتدریج کم کیا جا سکے۔‘
سٹیٹ بینک کے حکام کا کہنا ہے کہ ’راست‘ فوری اور کم لاگت ڈیجیٹل ادائیگیوں کا پلیٹ فارم ہے جو سیکنڈز میں بینک اور موبائل والٹ کے درمیان رقوم منتقل کرتا ہے جبکہ ’بُونا‘ سرحد پار ادائیگیوں کا ایک نظام ہے جو عرب مانیٹری فنڈ نے مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے ممالک کے لیے متعارف کرایا ہے۔ دونوں کو جوڑنے سے اوورسیز پاکستانیوں کو محفوظ اور براہِ راست چینل مل جائے گا جس سے حوالہ یا دیگر غیررسمی ذرائع پر انحصار کم ہو گا۔
پاکستان میں ڈیجیٹل اکانومی کی توسیع کے لیے طویل المدتی منصوبے پر عمل کیا جا رہا ہے (فائل فوٹو: اے پی پی)
پاکستان میں اس وقت ترسیلات زر کے لیے ویسٹرن یونین، منی گرام، بینکنگ چینلز اور روایتی حوالہ ہنڈی جیسے ذرائع استعمال ہوتے ہیں۔ اگرچہ ویسٹرن یونین اور منی گرام جیسی سروسز تیزی سے رقوم پہنچاتی ہیں لیکن ان پر فیس زیادہ لگتی ہے اور دور دراز علاقوں میں رسائی محدود ہوتی ہے۔
دوسری طرف حوالہ اور ہنڈی سستے اور سہولت والے مگر غیرقانونی طریقے ہیں جن کی وجہ سے نہ صرف حکومت کو زرمبادلہ کا نقصان ہوتا ہے بلکہ صارفین کے لیے فراڈ اور رقم ضائع ہونے کے خدشات بھی رہتے ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ راست اور بُونا کو آپس میں منسلک کرنے سے ان تمام مسائل کا حل ممکن ہے کیونکہ یہ محفوظ، قانونی اور کم خرچ راستہ ہے جس سے ترسیلات زر کا حجم شفاف طریقے سے قومی معیشت کا حصہ بن سکے گا۔
اس حوالے سے وزیر مملکت برائے خزانہ بلال کیانی نے اردو نیوز کو بتایا کہ مرچنٹس سے ڈیجیٹل ٹرانزیکشنز پر حکومت 0.5 فیصد فیس وصول نہیں کرے گی بلکہ اس کا بوجھ خود برداشت کرے گی۔ یہ اقدام پاکستان کو دیگر ترقی پذیر ممالک پر سبقت دلاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک مربوط ڈیجیٹل پیمنٹس ایکو سسٹم متعارف کرانے جا رہا ہے جو عوامی سطح پر مالی شمولیت کو فروغ دے گا۔ اس مقصد کے لیے قانون سازی کی جائے گی تاکہ ڈیجیٹل نظام مزید مستحکم اور پائیدار بنیادوں پر قائم ہو۔
سٹیٹ بینک حکام نے بتایا ہے کہ اس وقت پاکستان میں 22 کروڑ 60 لاکھ بینک اکاؤنٹس موجود ہیں جن میں سے 9 کروڑ 60 لاکھ یونیک اکاؤنٹس ہیں۔ ملک میں 19 ہزار بینک برانچز اور 20 ہزار اے ٹی ایمز فعال ہیں جبکہ 9500 مرچنٹس اور 8 لاکھ 50 ہزار کیو آر مرچنٹس رجسٹرڈ ہیں۔ صارفین کو کیش لیس ٹرانزیکشنز پر کوئی اضافی چارج ادا نہیں کرنا پڑے گا جس سے زیادہ سے زیادہ لوگ اس نظام کو اپنانے کی طرف راغب ہوں گے۔
ترجمان سٹیٹ بینک نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’راست‘ اور ’بونا‘ کو اس لیے منسلک کیا جا رہا ہے کہ عرب خطے اور پاکستان کے درمیان ترسیلات زر کی منتقلی باضابطہ چینلز سے آسانی سے ہو سکے۔ اس اقدام سے افراد کے علاوہ کاروباری اداروں کو بھی فائدہ ہوگا کیونکہ نہ صرف فوری، محفوظ اور سستی سرحد پار ادائیگیاں ہو سکیں گی بلکہ عرب ممالک اور پاکستان کے درمیان معاشی، مالی اور سرمایہ کاری روابط بھی مضبوط ہوں گے۔