ایرانی فضائی اڈوں پر اچانک بمباری 22ستمبر 1970 کو ایران پر عراق کے مکمل حملے کا حصہ تھی۔ اس دن 190 عراقی لڑاکا طیاروں کے بڑے پیمانے پر فضائی حملوں کے ساتھ ساتھ ، عراقی فوج نے ایران کی سرحدوں پر تین مقامات سے حملہ کیا۔
ایرانی فضائیہ کے F-4 لڑاکا طیاروں کی مشق21 ستمبر 1980 کی دوپہر لگ بھگ دو بجے پائلٹ کرنل فریدون ایزدستا ایک چھوٹے سے سویلین طیارے میں اصفہان کے ایک انتظامی مشن سے واپس آ رہے تھے۔ وہ محوِ پرواز تھے جب انھیں تہران کے قریب مہرآباد ہوائی اڈے پر عراقی فضائیہ کے اچانک حملے کی اطلاع ملی۔
کرنل ایزدستا کا کہنا ہے کہ کنٹرول ٹاور نے انھیں حملے کی اطلاع دی اور انھیں مہر آباد ہوائی اڈے کے قریب نہ جانے کی ہدایت کی گئی۔
لیکن کرنل ایزدستا کی طرف سے اسی ایئرپورٹ پر لینڈنگ کیے جانے پر اصرار کیا گیا جس پر مہرآباد کنٹرول ٹاور نے انھیں بتایا کہ ’وہ اپنے رسک پر وہاں اُتر سکتے ہیں۔‘
کرنل ایزدستا نے بی بی سی فارسی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’میں لینڈنگ کے آخری مرحلے میں تھا جب میں نے مہرآباد ایئرپورٹ کے رن وے کے جنوبی حصے میں ٹرانسپورٹ طیاروں کے ریمپ پر بم پھٹتے ہوئے دیکھے۔‘
اِسی دوران ہمدان کے نوژہ ایئر بیس پر پائلٹ کرنل جلیل رضائی سمیت سینیئر افسران کا ایک گروپ آپریشن روم میں صورتحال کا جائزہ لینے میں مصروف تھا۔
کرنل رضائی کا کہنا ہے کہ جنگ کے باضابطہ آغاز سے قبل عراقی فوج نے ایران کے سرحدی دیہاتوں پر توپ خانے سے حملے کیا تھا لیکن تہران کے اعلیٰ حکام نے مکمل جنگ کے امکان کے بارے میں فوج کے انتباہ کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔
کرنل رضائی نے بی بی سی فارسی کو بتایا کہ ’تقریبا دو سے ڈھائی بجے کے دوران ایک زوردار دھماکہ ہوا اور ہوائی اڈے کے اوپر سے گزرنے والے طیاروں کی گھن گرج سنائی دی۔ہم نے افسوس سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، کیونکہ یہ سب وہی ہو رہا تھا جس کی ہم نے پیش گوئی کی تھی اور جس کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا تھا۔‘
کرنل رضائی کے مطابق نوژہ بیس پر رن وے کے آخری سرے پر بم گِرا اور تکنیکی عملے نے ایک گھنٹے میں اس کی مرمت کر کے ہوائی اڈے کو فعال کر دیا۔
ایرانی فضائی اڈوں پر عراقی فضائیہ کی جانب سے اچانک بمباری 22ستمبر 1970 کو ایران پر عراق کے مکمل حملے کا حصہ تھی۔
اُس دن 190 عراقی لڑاکا طیاروں نے بڑے پیمانے پر فضائی حملوں کے ساتھ ساتھ، عراق کی زمینی فوج نے ایران کی سرحدوں پر تین مقامات سے حملہ کیا۔
انقلابِ ایران کے دوران کچھ سینیئر کمانڈروں کی پھانسی، افسران اور نان کمیشنڈ افسران کی وسیع پیمانے پر برطرفی اور ایران پر چھائی غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے ایرانی فوج جنگ کے آغاز سے پہلے انتشار کی حالت میں تھی۔
جنگ کے باضابطہ آغاز سے چند ماہ قبل ہی تقریباً 100 فوجی افسران کو بھی بغاوت کی منصوبہ بندی میں ملوث ہونے کے الزام میں پھانسی دی گئی تھی، اور ان افسران میں تقریباً 20پائلٹ بھی شامل تھے۔
ایران کا مہرآباد ایئرپورٹ عراق کے ابتدائی فضائی حملے کے بعد ایرانی فضائیہ کا عراقی فوج سے انتقام
اس وقت کے عراق کے صدر صدام حسین کا خیال تھا کہ ایرانی فوج میں افراتفری اور پاسداران انقلاب کی ناتجربہ کاری کی وجہ سے وہ ایران کو جلد شکست دے سکتے ہیں۔
عراق میں صدام حسین کی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد امریکی فوجیوں کے ہاتھ لگنے والی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ صدام کا خیال تھا کہ وہ ایک یا دو ہفتوں کے اندر اندر ’ایران کا چہرہ خوزستان کے کیچڑ میں دفن کر دیں گے‘ تاکہ تہران کو اِن کے مطالبات کو ماننے پر مجبور کیا جا سکے۔
مہرآباد ہوائی اڈے پر بمباری کے فوراً بعد کرنل ایزدستا کو کئی دیگر سینیئر پائلٹوں کے ہمراہ ایرانی فضائیہ کے ہیڈ کوارٹر طلب کیا گیا تاکہ جوابی کارروائی سے متعلق فیصلہ کیا جا سکے۔
کرنل ایزدستا کے مطابق حملے کے 45 منٹ سے بھی کم وقت میں ایرانی حکام نے تیسرے فائٹر بیس (نوژہ) اور چھٹے فائٹر بیس (بوشھر) کو فعال کرنے کا حکم دیا گیا تھا، اور ہر اڈے سے چار ایف فور فینٹم طیاروں کو پہلے سے طے شدہ اہداف پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی۔
اگرچہ ایرانی فوج اور بالخصوص فضائیہ منتشر تھی مگر ایرانی فضائیہ شاہ کے زمانے سے ہی ممکنہ عراقی حملے کا مقابلہ کرنے کے لیے کسی حد تک تیار تھی۔
کرنل ایزدستا کے مطابق ’زاگرس پلان‘ جیسے منصوبے تیار کیے گئے تھے تاکہ اس بات کا تعیّن کیا جا سکے کہ حملے کی صورت میں عراق میں کن اہداف کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
کرنل ایزدستا کے مطابق اس منصوبے پر انقلاب ایران کے بعد نظر ثانی کی گئی تھی اور اسے ’البرز منصوبہ‘ کے نام دیا گیا تھا۔
کمانڈ ہیڈ کوارٹر کی کال کے بعد نوژہ بیس کے کمانڈر نے کرنل رضائی کو اپنے مشن سے آگاہ کیا۔
کرنل رضائی نے کہا کہ ’بیس پلان میں، میں 12 طیاروں کا سربراہ تھا۔ لیکن یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ عراق کے ہر فضائیہ کے اڈے پر چار طیاروں سے حملہ کیا جائے۔‘
عراق کے صوبے واسط میں واقع کوت بیس پر حملہ کیا گیا جس پر باضابطہ طور پر جنگ شروع ہونے کے تین گھنٹے بعد عراق نے بمباری کی تھی۔
بوشہر کے اڈے سے ایف فور لڑاکا طیاروں نے عراق کے بصرہ میں واقع شعیبیہ اڈے کو بھی نشانہ بنایا۔
ان حملوں میں دونوں اڈوں کو شدید نقصان پہنچا تھا ، لیکن ایرانی فضائیہ کا مرکزی حملہ ابھی تک نہیں ہوا تھا۔
’آپریشن کمان 99‘
عراق کی جانب سے حملے کے تین گھنٹے کے بعد کرنل جلیل رضائی کی سربراہی میں ایرانی فضائیہ نے عراق کے کُت بیس پر بڑا حملہ کیا اب وہ موقع تھا جب کرنل ایزدستا اور ایرانی ایئر فورس ہیڈ کوارٹرز کے دیگر سینیئر کمانڈر عراق پر وسیع تر حملے کی تیاری کر رہے تھے۔
کرنل ایزدستا کے مطابق رات کے وقت تمام ایرانی ونگز کو حملے کے لیے تیار کیا گیا تھا تاکہ ’آپریشن کمان 99‘ کے تحت بڑے حملے کا آغاز کیا جا سکے۔
اُن کے مطابق ’آپریشن کمان 99‘ کے تحت 250سے زائد ایرانی فوجی طیاروں نے عراق پر حملہ آور ہونا تھا۔
ان ایرانی طیاروں نے مہرآباد، تبریز، نوژہ، وحدتی، دزفول، بوشھر، بندر عباس، اصفہان اور شیراز کے اڈوں سے اڑان بھری۔
کرنل رضائی کے مطابق ان میں سے 144 لڑاکا طیارے عراقی فضائی حدود میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے۔
اُس دن کرنل رضائی نے کوت اڈے پر ایک بڑے حملے میں 12 فینٹمز کی قیادت کی۔
باقی ماندہ ایرانی پائلٹوں نے بغداد میں بین الاقوامی ہوائی اڈے اور راشد بیس کے ساتھ ساتھ کرکوک، موصل، بصرہ اور عراق کے دیگر علاقوں میں بھی اہداف پر حملہ کیا۔
ان میں سے کچھ طیارے عراقی علاقے میں ایک ہزار کلومیٹر تک اندر داخل ہو گئے۔ اسی دوران ایرانی سرحدی علاقوں میں عراقی فضائیہ کے ریڈار اور مواصلاتی تنصیبات پر بھی حملہ کیا گیا۔
کرنل ایزدست عراق کے ساتھ جنگ میں ایران کی اہم ترین فضائی کارروائیوں کے منصوبہ سازوں میں سے ایک تھےایران میں 1979 کے اسلامی انقلاب سے قبل ایرانی فضائیہ خطے کی اعلیٰ فضائیہ میں سے ایک شمار ہوتی تھی۔
اس وقت ایران کے پاس 79 جدید ایف 14 لڑاکا طیارے، تقریبا 170 ایف فور فینٹم طیارے اور اتنی ہی تعداد میں ایف فائیو لڑاکا طیارے تھے۔
انقلاب سے قبل ایران نے 100 سے زائد ایف 16 لڑاکا طیاروں کا آرڈر دیا تھا لیکن انقلاب کے بعد یہ آرڈر منسوخ کر دیا گیا اور تیار کردہ طیارے ایران کے بجائے اسرائیل کو فروخت کر دیے گئے۔
کرنل ایزدستا کے مطابق جنگ کے آغاز میں ایرانی فضائیہ کی صلاحیتیں اِس کے عروج کا صرف 20 فیصد تھیں۔
تاہم جنگ میں ایران کی فضائی برتری کو قائم کرنے میں ’آپریشن کمان 99‘کا اہم کردار تھا۔
کرنل ایزدستا نے کہا کہ ’ہم 24گھنٹوں سے بھی کم عرصے میں اپنے ملک کے آسمانوں میں فضائی برتری حاصل کرنے میں کامیاب رہے، اور یہ فضائی برتری پوری جنگ کے دوران ایران کے ہاتھ میں رہی۔‘
کرنل رضائی کے مطابق جنگ کے آغاز میں عراق کے پاس ایران کے مقابلے میں 50 لڑاکا طیارے زیادہ تھے لیکن ایرانی فضائیہ کو جس چیز نے ممتاز کیا وہ ایرانی پائلٹوں کی مہارت اور حکمت عملی کا بہترین استعمال تھا۔
جنگ کے دوران ایرانی طیاروں کو پہنچنے والے نقصان اور امریکی پابندیوں کی وجہ سے فاضل پرزوں کی قلت کے باوجود اور عراق کے زیادہ جدید فرانسیسی طیاروں سے لیس ہونے کے باوجود یہ فائدہ ایران کے ہاتھ میں رہا۔
لیکن جنگ کے بعد کے سالوں میں میزائل اور ڈرون کی صلاحیتوں میں نمایاں پیشرفت کے باوجود ایرانی فضائیہ کی جنگی صلاحیت کبھی بھی جنگ سے پہلے کی سطح پر واپس نہیں آئیں۔
اسرائیل کے ساتھ حالیہ 12 روزہ جنگ میں جدید فضائیہ اور موثر فضائی دفاع کی کمی واضح طور پر محسوس کی گئی۔