انڈین شہری پری دھی اپادھیا امریکہ میں کمپوٹر سائنس سکالرشپ حاصل کرنے کے بعد اپنا سامان باندھ رہی تھیں کہ صدر دونلڈ ٹرمپ کی ایچ ون بی ویزے کے خلاف کریک ڈاؤن کی خبروں نے ان کے خاندان کو یہ ارادہ ترک کرنے پر مجبور کر دیا۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق 18 سالہ پری دھی کے والد رودر پرتاپ نے بتایا کہ ’تارکین وطن کے خلاف صدر ٹرمپ کے نہ ختم ہونے والے اقدامات ہمیں مجبور کر رہے ہیں کہ ہم اپنی بیٹی کے لیے دوسرے ممالک پر غور کریں۔‘
پری دھی اپادھیا اُن ہزاروں انڈین شہریوں میں شامل ہیں جن کے لیے اعلیٰ امریکی تعلیم، منافع بخش کیریئر، بہتر معیارِ زندگی اور سماجی ترقی کے خواب اب ویزا پابندیوں اور غیر یقینی پالیسیوں کے باعث دم توڑ رہے ہیں۔
انڈیا کی ریاست اترپردیش کے شہر لکھنؤ سے 13 ہزار کلو میٹر دور ڈیلاس (ٹیکساس) میں کمپیوٹر سائنس میں ماسٹرز کرنے والے ایک انڈین طالب علم 80 ہزار ڈالر کے مقروض ہیں اور اپنے مستقبل کے بارے میں غیریقینی کا شکار ہیں۔نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے کہا کہ ’فی الحال میرا واحد مقصد ہے کہ ڈگری مکمل کروں، انٹرن شپ تلاش کروں، اور قرض اتارنے کی کوشش کروں۔‘
اب نوجوان انڈین طلبہ امریکہ میں اعلیٰ تعلیم اور کیریئر بنانے کے منصوبے پر نظرِ ثانی کر رہے ہیں (فوٹو: روئٹرز)
طالب علم نے مزید کہا کہ ’میں کینیڈا یا یورپ چلا جاؤں گا، کہیں بھی جہاں واقعی ہماری قدر ہو۔‘
امریکی حکومت کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ انڈیا پچھلے سال ایچ ون بی ویزوں سے سب سے زیادہ مستفید ہونے والا ملک تھا جہاں 71 فیصد ویزے منظور ہوئے جبکہ چین 11.7 فیصد منظور شدہ ویزوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر تھا۔وہ غیر ملکی طلبہ جو امریکی یونیورسٹیوں سے گریجویٹ ہوتے ہیں، عام طور پر آپشنل پریکٹیکل ٹریننگ پروگرام کے ذریعے کام کا تجربہ حاصل کرتے ہیں اور پھر ایچ ون بی ویزا حاصل کرتے ہیں۔لیکن اب نوجوان انڈین طلبہ امریکہ میں اعلیٰ تعلیم اور کیریئر بنانے کے منصوبے پر نظرِ ثانی کر رہے ہیں اور اُن دیگر ممالک کو اپنی منزل بنانے پر غور کر رہے ہیں جو تارکین کے لیے زیادہ موافق ہیں۔آئی ڈی پی ایجوکیشن سے وابستہ پیوش کمار نے کہا کہ کئی طلبہ اور والدین اب ’ویٹ اینڈ واچ‘ کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں اور برطانیہ، آسٹریلیا، آئرلینڈ، اور نیوزی لینڈ جیسے متبادل پر غور کر رہے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے گذشتہ ہفتے سکِلڈ ورکرز کے لیے ویزا فیس ایک لاکھ ڈالر سالانہ مقرر کی تھی (فوٹو: اے ایف پی)
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ ہفتے ایک حکم نامے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت ایچ ون بی ویزے یعنی اعلیٰ مہارت رکھنے والے غیر ملکی کارکنوں کے لیے سالانہ ایک لاکھ ڈالر ویزا فیس لازمی ہو گی۔
ایچ ون بی ویزا کمپنیوں کو خصوصی مہارتوں کے حامل غیر ملکی کارکنوں جیسے کہ سائنسدانوں، انجینیئرز اور کمپیوٹر پروگرامرز وغیرہ کو سپانسر کرنے کی اجازت دیتا ہے۔اس ویزے کے تحت یہ غیر ملکی کارکن امریکہ میں ابتدائی طور پر تین سال کے لیے کام کر سکتے ہیں تاہم اس مدت کو چھ سال تک بڑھایا جا سکتا ہے۔امریکہ ایک لاٹری سسٹم کے تحت ہر سال 85 ہزار ایچ ون بی ویزے دیتا ہے جس میں انڈیا کے وصول کنندگان کا تقریباً تین چوتھائی حصہ ہے۔بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں انڈین کارکنوں پر انحصار کرتی ہیں جو یا تو امریکہ منتقل ہوتے ہیں یا دونوں ممالک میں آتے جاتے ہیں۔