گجرات کے علاقے جلال پور جٹاں کے نواحی گاؤں میں رات کے وقت پیش آنے والے ایک دل دہلا دینے والے واقعے میں نامعلوم افراد نے ایک کسان کی بھینس پر حملہ کر کے اس کی دونوں ٹانگیں کاٹ دیں۔مظلوم جانور کی حالتِ زار اور اس کے مالک کی بے بسی نے ہر دیکھنے والے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ یہ واقعہ محض ایک جانور پر ظلم نہیں، بلکہ معاشرے میں پنپتی اس بیمار سوچ کا عکاس ہے جو حسد، بغض، نفرت اور انتقام جیسے جذبات سے جنم لیتی ہے۔بھینس کے مالک نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہی میری زندگی کا سہارا تھی، اسی کے دودھ سے گھر کا خرچ چلتا تھا۔ اب ہم بالکل خالی ہاتھ رہ گئے ہیں۔ میں نے اپنی زندگی میں ایسا ظلم کبھی نہیں دیکھا۔ یہ میری محنت کا سرمایہ اور بچوں کے رزق کا ذریعہ تھی۔ اب ہم کہاں جائیں؟‘
پولیس کے مطابق واقعے کی تفتیش جاری ہے۔ مقدمہ درج کر کے شواہد اکھٹے کیے جا رہے ہیں اور ملزمان کو قانون کے کٹہرے میں لانے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔
جانوروں کو انتقام میں نشانہ بنانے کے بڑھتے واقعاتیہ پہلا واقعہ نہیں۔ چند روز قبل اسلام آباد کے علاقے بنی گالہ میں ایک ڈیری فارمر کی بھینسوں کو مخالفین نے مبینہ طور پر زہر دے دیا تھا، جس کے نتیجے میں 24 گھنٹوں کے اندر 10 بھینسیں مر گئیں۔ مالک کے مطابق ان جانوروں کی قیمت 70 سے 80 لاکھ روپے کے درمیان تھی، اور ساتھ ہی دودھ کی فروخت سے چلنے والا کاروبار بھی تباہ ہو گیا۔اسی طرح گزشتہ سال گجرات کے ایک اور گاؤں میں بیرونِ ملک مقیم ایک خاندان کے 22 گھوڑوں کو زہر دے کر مار دیا گیا۔ واقعے کا محرک بھی مبینہ طور پر حسد اور خاندانی دشمنی تھی۔ایسے واقعات ایک سنگین سوال کھڑا کرتے ہیں کہ کیا انسان اتنی گہری نفسیاتی الجھن میں جا سکتا ہے کہ اپنے مخالف کو براہِ راست نقصان نہ پہنچا سکے تو اس کی املاک یا بے زبان جانوروں کو نشانہ بنائے؟ماہرِ نفسیات ڈاکٹر سعدیہ حسین کے مطابق یہ رویے اس وقت سامنے آتے ہیں جب انسان کی برداشت اور صبر کی صلاحیت کمزور ہو جائے۔ ’جب کوئی مخالف کو براہِ راست نقصان نہیں پہنچا سکتا تو اپنی بھڑاس کمزور اور بے زبان مخلوق پر نکالتا ہے۔‘
ماہرین کے مطابق جب کوئی مخالف کو براہِ راست نقصان نہیں پہنچا سکتا تو اپنی بھڑاس کمزور اور بے زبان مخلوق پر نکالتا ہے۔ (فوٹو: ایکس)
ان کے مطابق یہ رویہ دراصل ایک نفسیاتی بیماری ہے، جو وقت کے ساتھ شدت اختیار کرتی ہے۔
معروف سماجی ماہر پروفیسر آصف محمود اسے ’غلط جگہ انتقام قرار دیتے ہیں۔’ہمارے دیہی معاشروں میں زمین کے جھگڑے، خاندانی دشمنیاں اور سماجی مقابلہ بازی صدیوں سے موجود ہیں۔ اکثر اوقات لوگ مخالف کو نیچا دکھانے کے لیے اس کے جانوروں یا کمائی کے ذرائع کو نشانہ بناتے ہیں تاکہ مالی اور جذباتی نقصان دونوں پہنچے۔‘بین الاقوامی تحقیق کے مطابق حسد انسان کو نہ صرف دوسروں کی مدد سے روکتا ہے بلکہ انہیں نقصان پہنچانے کی طرف بھی مائل کرتا ہے، خاص طور پر جب براہِ راست بدلہ لینا ممکن نہ ہو۔ماہرین کے مطابق حسد کی دو اقسام ہیں، ایک جو مثبت مسابقت پیدا کرتی ہے اور دوسری، جو نفرت اور تباہی کی طرف لے جاتی ہے۔جب ضبطِ نفس کمزور ہو تو منفی حسد حاوی ہو جاتا ہے اور یہی وہ مقام ہوتا ہے جہاں یہ جذبات عملی تشدد میں بدل جاتے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات ہمیں سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ اگر معاشرے میں برداشت، انصاف اور ذہنی سکون کو فروغ نہ دیا گیا تو یہ خطرناک رویے مزید پھیلیں گے۔بے زبان جانوروں پر ظلم صرف قانونی جرم نہیں بلکہ ایک سماجی اور نفسیاتی المیہ ہے، جس کا علاج صرف سزاؤں سے نہیں، بلکہ شعور، تربیت اور انسانی رویوں کی اصلاح سے ممکن ہے۔