لداخ میں مظاہروں کے بعد معروف سماجی کارکن سونم وانگ چک گرفتار، کرفیو برقرار

image
انڈین پولیس نے جمعے کو معروف سماجی کارکن سونم وانگچک کو لداخ کے ہمالیائی علاقے میں پرتشدد مظاہرے کرنے پر حراست میں لے لیا ہے جن میں کم از کم پانچ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

ان پرتشدد مظاہروں کے بعد کرفیو نافذ کر دیا گیا تھا جو تاحال برقرار ہے۔

چین اور پاکستان کی سرحد سے متصل کم آبادی والے علاقے لداخ میں سیاسی خودمختاری کا مطالبہ کرنے والے مظاہرے بدھ کو اس وقت پرتشدد ہو گئے جب سکیورٹی فورسز نے فائرنگ کی۔

فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق نئی دہلی نے بدامنی کا الزام وانگچک کی ’اشتعال انگیز تقاریر‘ پر لگایا جو لداخ کے لیے مکمل وفاقی ریاست یا اس کی قبائلی برادریوں، زمین اور ماحول کے لیے آئینی تحفظات کا مطالبہ کرتے ہوئے بھوک ہڑتال کر رہے تھے۔

اپیکس باڈی لیہہ کے وکیل مصطفی حاجی نے بتایا کہ وانگچک کو جمعے کو ان کے گاؤں اولی ٹوکپو سے پولیس نے ’اٹھایا۔‘ انہوں نے کہا کہ ’ابھی تک ان کے خلاف الزامات معلوم نہیں ہیں۔‘

59 سالہ وانگچک ایک انجینیئر ہیں ہمالیہ میں پانی کے تحفظ کے منصوبوں کے لیے سب سے مشہور ہیں۔

انہیں 2018 میں اپنے ماحولیاتی کام اور لداخ میں مقامی سکولنگ کی اصلاح میں تعاون کے لیے باوقار رامون میگسیسے ایوارڈ ملا۔

وانگچک کو گذشتہ سال دہلی پولیس نے ایک احتجاجی مارچ کے دوران مختصر طور پر حراست میں لیا تھا۔

انڈین حکام نے جمعرات کو اس کے غیر منافع بخش غیرملکی فنڈنگ ​​لائسنس کو منسوخ کر دیا تھا۔

مودی کی حکومت نے 2019 میں لداخ کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر سے الگ کر کے دونوں پر براہ راست حکمرانی مسلط کر دی تھی۔

انڈین فوج کی لداخ میں بڑی تعداد میں موجودگی ہے جس میں چین کے ساتھ متنازع سرحدی علاقے شامل ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

نئی دہلی نے ابھی تک لداخ کو انڈیا کے آئین کے ’چھٹے شیڈول‘ میں شامل کرنے کا اپنا وعدہ پورا کرنا ہے جو لوگوں کو اپنے قوانین اور پالیسیاں بنانے کی اجازت دیتا ہے۔

انڈین فوج کی لداخ میں بڑی تعداد میں موجودگی ہے جس میں چین کے ساتھ متنازع سرحدی علاقے شامل ہیں۔

2020 میں دونوں ممالک کے فوجیوں میں جھڑپ ہوئی تھی جس میں کم از کم 20 اندین اور چار چینی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔

 


News Source   News Source Text

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US