جلالپور پیر والا: سیلاب سے متاثرہ حاملہ خواتین کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور

image
دریائے چناب اور ستلج کے طوفانی ریلوں نے سرِدست صوبہ پنجاب کے کئی اضلاع کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔

ملتان کی تحصیل جلالپور پیر والا میں 18 سے زائد دیہات پانی میں ڈوب چکے ہیں جبکہ ہزاروں لوگ خیمہ بستیوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔

ان خیمہ بستیوں میں مردوں کے علاوہ خواتین اور بچوں کی بھی بڑی تعداد موجود ہے۔ متعدد خیموں میں خواتین حمل سے بھی گزر رہی ہیں جبکہ کئی خواتین دیگر بیماریوں سے بھی متاثر ہیں۔

جلالپور پیر والا میں قائم ایک خیمہ بستی میں چند روز قبل صبح کے وقت ایک بچی کی پیدائش بھی ہوئی۔ اس بچی کا نام عائشہ رکھا گیا۔ یہ دیہاڑی دار مزدور اصغر علی کی 12 ویں اولاد ہے۔

اصغر علی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میرا ایک کنال پر محیط گھر سیلاب میں ڈوب گیا ہے اور میری ساری جمع پونجی پانی میں بہہ گئی ہے۔‘

اصغر علی کی دو بیویاں ہیں۔ ایک بیوی جلالپور پیروالا میں خیمے میں قیام پذیر ہیں جبکہ دوسری علی پور میں مقیم ہیں، جہاں اگلے چھ دنوں میں بچے کی ولادت کی امید ہے۔ یوں یہ ان کی 13 ویں اولاد ہو گی جن میں اب تک چار بیٹے اور آٹھ بیٹیاں شامل ہیں۔

ڈاکٹر صائمہ جلالپور پیر والا کی ایک فری ڈسپنسری میں خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’اس خیمہ بستی میں 10 خواتین حمل سے گزر رہی ہیں۔ انہیں ملٹی وٹامنز، آئرن، معقول ڈائٹ اور دودھ کی ضرورت ہے۔ جلد کی بیماریاں عام ہیں اور خواتین کمزور بھی ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ بچی صحت مند پیدا ہوئی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک نارمل ڈیلیوری تھی لیکن ویکسینیشن کے لیے ٹی ایچ کیو ہسپتال ریفر کیا گیا۔ یہاں خواتین کے لیے دودھ اور دیگر چیزیں دستیاب ہیں لیکن صفائی کا مناسب بندوبست ہونا چاہیے تاکہ زچہ و بچہ کو انفیکشن نہ ہو۔‘

اردو نیوز کی ٹیم نے ملتان، جلالپور پیروالا کے دعا چوک پر قائم خیمہ بستیوں کا دورہ کیا۔ یہاں 148 خیموں میں 1100 سے زائد لوگ مقیم ہیں جن میں 300 تک خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔

جلالپور پیروالا کے دعا چوک پر قائم خیمہ بستیوں میں 300 تک خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ (فوٹو: اردو نیوز)

پنجاب میں حالیہ سیلاب سنہ 1988 کے بعد سب سے شدید بتایا جا رہا ہے۔ پی ڈی ایم اے کے مطابق صوبے بھر میں 26 اضلاع متاثر ہوئے ہیں جن میں ملتان سرفہرست ہے۔ جلالپور پیر والا میں ہی 100 سے زائد بستیاں زیرِآب ہیں جہاں ریسکیو آپریشنز اب بھی جاری ہیں۔

پی ڈی ایم اے کے مطابق 74 ہزار سے زائد لوگ خیموں میں رہنے پر مجبور ہیں جبکہ ہلاکتوں کی تعداد 63 تک پہنچ چکی ہے۔

ماڈل نجی خیمہ بستیوں میں کلینک، سکول، مسجد اور مدرسہ بھی قائم ہے۔ مرد و خواتین کے لیے الگ الگ باتھ رومز اور فری ڈسپنسری کی سہولت بھی موجود ہے لیکن مجموعی طور پر بنیادی سہولیات کی کمی نے خواتین کی زندگی کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔

جلالپور پیر والا میں موجود ایک رضاکار طحہٰ منیب نے بتایا کہ ’یہاں روزانہ کی بنیاد پر 40 سے 50 خواتین کا علاج جاری ہے۔ ڈاکٹرز جو بھی تجویز کرتے ہیں ہم بروقت مہیا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک بچی کی پیدائش ہوئی ہے اور مزید خواتین حمل سے گزر رہی ہیں۔‘

خیمہ بستیوں میں موجود ان خواتین کی کہانیاں تقریباً ایک جیسی ہیں اور ان کے مسائل بھی یکساں ہیں۔

پنجاب میں حالیہ سیلاب سنہ 1988 کے بعد سب سے شدید بتایا جا رہا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

زیور مائی خان بیلہ شہنی سے تعلق رکھتی ہیں۔ انہوں نے اپنے حالات سے متعلق بتایا کہ ’ہمیں کئی لوگوں نے بتایا کہ سیلاب آ رہا ہے لیکن ہم سوچ رہے تھے کہ نہیں آئے گا، اس لیے جب سیلاب آیا تو ہم پھنس گئے۔ پھر ہم بڑی مشکل سے نکلے۔ کشتی والے چھ ہزار روپے فی کس مانگ رہے تھے۔ اب یہاں خیمہ بستی میں آئے ہیں تو زیادہ تر خواتین میں شوگر، ملیریا، بلڈ پریشر اور گردے کی بیماریاں عام ہیں۔‘

ڈاکٹر صائمہ کے مطابق ’خواتین کو دوائیاں تو دی جاتی ہیں لیکن پانی کی کمی ہے۔ زیادہ تر خواتین وقت پر نہاتی نہیں ہیں جس کی وجہ سے انفیکشنز ہو رہے ہیں۔‘

17 سالہ شازیہ کی ابھی ایک برس قبل شادی ہوئی تھی۔ حالیہ سیلاب کے باعث ان کا گھر ڈوب گیا تو وہ خیمہ بستی میں پناہ لینے پر مجبور ہوئیں۔ وہ بھی آٹھ ماہ کے حمل سے گزر رہی ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’ہمارا سارا سامان ڈوب گیا ہے۔ خیمے میں گرمی بہت ہے۔ میرے شوہر مزدور ہیں اور ہمارے پاس پیسے ختم ہو گئے ہیں۔ چیک اَپ کے لیے ہسپتال نہیں جا پاتے۔‘

اقرا بی بی ایک خیمے میں اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ نڈھال بیٹھی ہوئی ہیں۔ ان کا اپنا ذاتی مکان سیلابی ریلے کی زد میں آ گیا ہے۔

ڈاکٹر صائمہ کے مطابق ’خواتین کو دوائیاں تو دی جاتی ہیں لیکن پانی کی کمی ہے۔ (فوٹو: اردو نیوز)

وہ کہتی ہیں کہ ’میں کئی دنوں سے بیمار ہوں۔ ہم ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں، ادویات بھی مل جاتی ہیں لیکن اب تک طبیعت ٹھیک نہیں ہوئی۔‘

ڈاکٹر صائمہ کہتی ہیں کہ ’حاملہ خواتین کھلے آسمان تلے زندگی گزار رہی ہیں جس کی وجہ سے بیماریاں مزید بڑھ رہی ہیں۔ ان کے لیے خصوصی ڈائٹ، وٹامنز اور صفائی کے انتظامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ ورنہ صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔‘


News Source   News Source Text

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US