سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک خبر نے پاکستان بھر میں شہریوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس خبر میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان میں ڈیجیٹل لین دین اب دو گھنٹے کی تاخیر سے ہو گا۔اس اطلاع نے عوامی حلقوں میں بے چینی پیدا کر دی ہے کیوںکہ ڈیجیٹل بینکنگ کو ہمیشہ تیز ترین اور فوری ادائیگی کے نظام کے طور پر جانا جاتا رہا ہے۔کاروباری طبقہ اسے اپنے روزمرہ لین دین کے لیے رکاوٹ قرار دے رہا ہے جبکہ عام صارفین اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ ضرورت کے وقت فوری ادائیگی یا رقم کی ترسیل مشکل ہو جائے گی۔
سوشل میڈیا کے مختلف اکاؤنٹس سے یہ بات سامنے آئے کہ اب ڈیجیٹل ٹرانسفر پر دو گھنٹے کا انتظار لازمی کر دیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا صارفین نے اس خبر کو بارہا شیئر کیا اور یوں چند ہی گھنٹوں میں یہ خبر مختلف پلیٹ فارمز پر وائرل ہو گئی۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کئی صارفین نے سوال اٹھائے کہ اس پالیسی سے کاروباری لین دین متاثر ہو گا۔ جبکہ فیس بک پر کچھ صارفین نے شکایت کی کہ اگر ایسا ہوا تو ای کامرس سے منسلک لوگ مشکل میں پڑ جائیں گے۔واٹس ایپ گروپس میں یہ پیغام اس انداز میں گردش کرنے لگا جیسے یہ کوئی نیا حکم نامہ ہے جو فوری نافذ کر دیا گیا ہے۔’تاخیر ہو گی تو میرا کام کیسے چلے گا؟‘ایک آن لائن بزنس کرنے والے نوجوان سید یحییٰ عدنان نے اس معاملے پر اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ بچوں کے کپڑوں اور کھلونوں کا آن لائن کاروبار کرتے ہیں، ان کے پاس ملک بھر سے آرڈرز آتے ہیں اور وہ کراچی سے ملک کے مختلف حصوں میں سامان بھیجتے ہیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’خریدار کوئی بھی سامان خریدنے پر فوری ادائیگی کرتا ہے۔ تصدیق کا عمل مکمل ہونے کے بعد ہی پارسل بھیجا جاتا ہے، اگر ادائیگی میں تاخیر ہو گی تو میرا کام کیسے چلے گا؟ یہ کیسے پتا چلے گا کہ کس کی پیمنٹ وصول ہو گئی اور کس کی نہیں ہوئی؟‘جوڑیا بازار میں ہول سیل کا کام کرنے والے تاجر امین میمن کے مطابق ان کے کاروبار میں روزانہ درجنوں ڈیجیٹل ادائیگیاں ہوتی ہیں۔ دو گھنٹے کی تاخیر کا مطلب خریدار اور بیچنے والے کے درمیان اعتماد کا فقدان پیدا کرنا ہے۔یہ تاثرات اس بات کا ثبوت ہیں کہ عوام نے اس خبر کو حقیقت سمجھ لیا تھا اور اس کے ممکنہ نتائج پر فکر مند تھے۔سٹیٹ بینک کی وضاحتعوامی خدشات کے پیشِ نظر اردو نیوز نے سٹیٹ بینک آف پاکستان کے شعبہ تعلقات عامہ سے رابطہ کیا۔
ڈیجیٹل بینکنگ کو ہمیشہ تیز ترین اور فوری ادائیگی کے نظام کے طور پر جانا جاتا رہا ہے۔ (فائل فوٹو: فری پک)
شعبہ تعلقات عامہ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’تمام ڈیجیٹل فنڈ ٹرانسفر بدستور فوری بنیاد پر ہو رہی ہے۔ کسی بھی صارف کی بھیجی گئی رقم چند لمحوں میں وصول کنندہ کے اکاؤنٹ میں پہنچ جاتی ہے۔ دو گھنٹے کا کولنگ پیریڈ صرف برانچ لیس بینکنگ والٹس پر لاگو ہے، عام ڈیجیٹل اکاؤنٹس پر نہیں۔‘
برانچ لیس بینکنگ والٹس ہی کیوں؟انہوں نے بتایا کہ ’برانچ لیس بینکنگ والٹس (یعنی موبائل والٹس) وہ اکاؤنٹس ہیں جو عام بینک اکاؤنٹس کے مقابلے میں آسان طریقے سے کھولے جاتے ہیں۔ ان میں سکیورٹی کے تقاضے نسبتاً سادہ ہوتے ہیں، اس لیے جعل سازی کے امکانات بھی زیادہ ہوتے ہیں۔‘’ایسے والٹس میں رقم فورا منتقل ہو جاتی ہے، لیکن اس رقم کو نکالنے یا آن لائن استعمال کرنے سے پہلے دو گھنٹے کا وقت دیا جاتا ہے۔ اس دوران اگر صارف کو شبہ ہو کہ ٹرانسفر مشکوک ہے تو وہ فوری طور پر بینک کو اطلاع دے کر اپنی رقم کو محفوظ بنا سکتا ہے۔‘سٹیٹ بینک نے عوام سے اپیل کی ہے کہ افواہوں پر یقین نہ کریں اور ہمیشہ مستند ذرائع سے معلومات حاصل کریں۔کولنگ پیریڈ کا مقصدیہ پالیسی اپریل 2023 میں متعارف کروائی گئی تھی۔ ترجمان کے مطابق گذشتہ ڈھائی برس میں یہ ایک مؤثر حفاظتی اقدام ثابت ہوا ہے۔ کئی صارفین ایسے ہیں جنہیں اس پالیسی کی بدولت نقصان سے بچایا گیا۔ کسی نے اگر دھوکا دہی سے کسی کے والٹ میں رقم منتقل کی تو دو گھنٹے کے اندر رپورٹ کرنے پر وہ رقم روکی جا سکتی ہے۔ یہ قدم دراصل صارفین کی جمع پونجی کے تحفظ کے لیے اُٹھایا گیا ہے۔
سٹیٹ بینک کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق ’برانچ لیس بینکنگ والٹس وہ اکاؤنٹس ہیں جو عام بینک اکاؤنٹس کے مقابلے میں آسان طریقے سے کھولے جاتے ہیں۔‘ (فائل فوٹو: روئٹرز)
مالیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ دو گھنٹے کا کولنگ پیریڈ رکاوٹ نہیں بلکہ ایک حفاظتی جال ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں ڈیجیٹل فراڈز سے نمٹنے کے لیے اسی نوعیت کے اقدامات کیے جاتے ہیں۔
مالیاتی امور کے ماہر سینیئر صحافی وکیل الرحمٰن کے مطابق پاکستان میں ڈیجیٹل فنڈز ٹرانسفر کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ایسے میں حفاظتی اقدامات نہ ہونے کی صورت میں عوام کے لیے خطرات زیادہ ہو سکتے ہیں۔ وقتی طور پر یہ تاخیر شاید بوجھ لگے لیکن طویل مدت میں یہی پالیسی صارفین کے لیے ایک ڈھال ہے۔