وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے انسانی سمگلنگ میں ملوث 143 سمگلرز کی فہرست پر مبنی ’ریڈ بُک‘ جاری کر دی ہے۔ ریڈ بک میں سات خواتین انسانی سمگلرز بھی شامل ہیں جن کے خلاف ملک کے مختلف علاقوں میں درجنوں مقدمات درج ہیں۔
فہرست میں انسانی سمگلنگ میں ملوث میاں بیوی بھی شامل ہیں جن کے خلاف 216 مقدمت قائم ہیں۔
ریڈ بُک 2025 کے مطابق مجموعی طور پر ان سمگلرز کے خلاف سینکڑوں مقدمات مختلف قوانین کے تحت درج ہیں جن میں امیگریشن آرڈیننس 1979، انسدادِ انسانی سمگلنگ و ٹریفکنگ ایکٹ 2018، پاکستان پینل کوڈ اور دیگر قوانین شامل ہیں۔
یہ فہرست ان 143 سمگلرز اور ٹریفکرز پر مشتمل ہے جو ملک کے اندر اور بیرون ملک سب سے زیادہ مطلوب قرار دیے گئے ہیں۔ ان ملزمان کے خلاف سینکڑوں مقدمات مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں اور ایف آئی اے کے مطابق ان کی گرفتاری انسانی سمگلنگ کے بڑے نیٹ ورکس کو توڑنے کے لیے کلیدی اہمیت رکھتی ہے۔
اس فہرست کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اس میں سات خواتین بھی شامل ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی سمگلنگ کا یہ مکروہ دھندہ محض کسی ایک جنس تک محدود نہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ ایف آئی اے نے ریڈ بُک جاری کی ہو بلکہ یہ سلسلہ پہلی بار 2005 میں شروع کیا گیا تھا تاکہ ایسے تمام ملزمان کا ریکارڈ محفوظ کیا جا سکے جو انسانی سمگلنگ کے مقدمات میں نامزد تھے مگر قانون کی گرفت سے باہر تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ فہرست ایک مستقل روایت بن گئی اور اب ہر دو سے تین سال بعد نئی ریڈ بک جاری کی جاتی ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق ریڈ بک 2025 میں کل 143 ملزمان کے نام شامل ہیں۔ پنجاب انسانی سمگلنگ کا سب سے بڑا گڑھ قرار دیا جا رہا ہے جہاں گوجرانوالہ زون سے سب سے زیادہ 70 ملزمان شامل ہیں۔ لاہور زون میں 14، فیصل آباد زون میں 13 اور ملتان زون میں تین ملزمان اس فہرست میں موجود ہیں۔ اسلام آباد زون میں 25، کراچی میں 10، بلوچستان میں ایک جبکہ خیبرپختونخوا کے پشاور اور کوہاٹ زونز میں مجموعی طور پر سات ملزمان کا اندراج کیا گیا ہے۔
ایف آئی اے کے مطابق پچھلی ریڈ بک یعنی 2023 میں شامل ایک 156 ملزمان میں سے 51 کو گرفتار کیا گیا تھا جبکہ ایک شخص کو زونل دفتر کی سفارش پر فہرست سے خارج کر دیا گیا۔ رواں برس 39 نئے ملزمان کو فہرست میں شامل کیا گیا ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ انسانی سمگلنگ کا یہ کاروبار اب بھی پوری شدت کے ساتھ موجود ہے۔
پاکستان سے انسانی سمگلرز ایران کی سرحد کا راستہ کا استعمال کر تے ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
اس فہرست میں سب سے زیادہ مقدمات لاہور زون سے تعلق رکھنے والے اسیم محمود ملک اور ان کی اہلیہ زوبیہ رباب ملک کے خلاف درج ہیں۔ دونوں پر الزام ہے کہ انہوں نے جعلی ویزے اور دستاویزات فراہم کر کے شہریوں کو یورپ کے مختلف ممالک بھیجنے کے نام پر خطیر رقوم وصول کیں۔ ایف آئی اے کے مطابق ان کے خلاف 216 مقدمات درج ہیں جو اس فہرست میں کسی بھی ملزم کے خلاف سب سے زیادہ ہیں۔ یہ دونوں اس وقت بیرون ملک روپوش بتائے جاتے ہیں اور انٹرپول کے ریڈ نوٹس کے ذریعے ان کی گرفتاری کی کوششیں جاری ہیں۔
ریڈ بک میں شامل خواتین سمگلرز
زوبیہ رباب ملک (لاہور زون)
زوبیہ رباب ملک سب سے زیادہ مقدمات میں نامزد خاتون ہیں۔ ان کے خلاف 216 مقدمات درج ہیں جن میں تازہ ترین کیس 2018 کا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے شوہر اسیم محمود ملک کے ساتھ مل کر انسانی اسمگلنگ کا سب سے بڑا نیٹ ورک چلایا۔ ان مقدمات میں شہریوں کو یورپ اور دیگر ممالک بھیجنے کے نام پر رقوم بٹورنے کے الزامات شامل ہیں۔ ان کے پاس برطانوی پاسپورٹ بھی رہا ہے اور ایف آئی اے کے مطابق وہ اب برطانیہ میں روپوش ہیں۔ ان کے خلاف انٹرپول کے ریڈ نوٹس بھی جاری ہو چکے ہیں۔
انعم حسیب (لاہور زون)
انعم حسیب کے خلاف 2016 اور 2019 میں سات مقدمات درج ہوئے۔ یہ مقدمات جعلی ویزوں اور بیرون ملک بھیجنے کے بہانے شہریوں کو لوٹنے سے متعلق ہیں۔ ایف آئی اے کے ریکارڈ کے مطابق انعم حسیب نے کئی متاثرین سے لاکھوں روپے وصول کیے لیکن کسی کو قانونی طریقے سے باہر نہ بھیج سکیں۔ وہ لاہور کے علاقے سمن آباد کی رہائشی ہیں اور تاحال روپوش ہیں۔
فریال خالد عباسی (اسلام آباد زون)
فریال خالد عباسی کے خلاف 2017 اور 2018 میں درج مقدمات موجود ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ وہ اسلام آباد اور لاہور سے تعلق رکھنے والے شہریوں کو یورپ بھیجنے کے لیے جعلی دستاویزات فراہم کرتی رہیں۔ ان کے خلاف کم از کم پانچ مقدمات درج ہیں۔ ایف آئی اے کے مطابق وہ ایک منظم گروہ کا حصہ ہیں جو اسلام آباد میں سرگرم رہا۔
پاکستان سے مسیحی کمیونٹی کی خواتین کی چین سمگلنگ کے کسیز بھی سامنے آئے تھے۔ فائل فوٹو: اے پی
نادیہ نایاب شیخ (اسلام آباد زون)
نادیہ نایاب شیخ کے خلاف کئی مقدمات درج ہیں جن میں 2015 اور 2017 کے نمایاں کیسز شامل ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ وہ بیرون ملک نوکریاں دلانے کے بہانے شہریوں سے بھاری رقوم لیتی رہیں۔ ایف آئی اے کے مطابق ان مقدمات میں متاثرین کی تعداد درجنوں میں ہے اور ان کے خلاف کل چھ مقدمات درج ہیں۔
نسرین انجم (اسلام آباد زون)
عبدالرحمان کی اہلیہ نسرین انجم کے خلاف کم از کم چار مقدمات درج ہیں جن میں 2016 اور 2018 کے کیسز شامل ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ وہ خلیجی ممالک بھیجنے کے لیے جعلی ایجنسی کے ذریعے رقوم بٹورتی رہیں۔ ایف آئی اے کے مطابق ان کے متاثرین زیادہ تر راولپنڈی اور اسلام آباد کے نواحی علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
رفعت ماہا (اسلام آباد زون)
رفعت ماہا کے خلاف ایف آئی اے اسلام آباد نے 2019 اور 2020 میں مقدمات درج کیے۔ ان مقدمات میں ان پر دستاویزات میں جعل سازی اور شہریوں کو غیر قانونی طور پر یورپ بھیجنے کے الزامات لگے۔ ان کے خلاف کل پانچ مقدمات موجود ہیں اور ایف آئی اے نے انہیں خطرناک سمگلرز کی فہرست میں شامل کیا ہے۔
ناہید کوثر (راولپنڈی زون)
محمد رشید کی اہلیہ ناہید کوثر کا تعلق ٹیکسلا سے ہے۔ ان کے خلاف 2015 سے 2019 کے درمیان کم از کم چھ مقدمات درج ہوئے۔ ان پر الزام ہے کہ وہ ویزہ اور نوکری دلانے کے وعدوں پر شہریوں سے لاکھوں روپے بٹورتی رہیں اور کسی کو قانونی طریقے سے بیرون ملک نہ بھیج سکیں۔ ایف آئی اے کے مطابق ان کے متاثرین زیادہ تر پنجاب کے شمالی اضلاع سے تھے۔
نادیہ نایاب شیخ کے خلاف کئی مقدمات درج ہیں جن میں 2015 اور 2017 کے نمایاں کیسز شامل ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
ایف آئی اے کی رپورٹ کے مطابق خواتین زیادہ تر اپنے شوہروں یا قریبی رشتہ داروں کے ساتھ مل کر اس دھندے میں شامل ہوتی ہیں۔ کئی کیسز میں یہ بات سامنے آئی کہ شوہر یا بھائی پہلے سے انسانی سمگلنگ کے نیٹ ورک میں سرگرم تھے اور خواتین ان کے ساتھ مل کر شہریوں کو قائل کرنے یا مالی معاملات سنبھالنے کا کردار ادا کرتی رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے خلاف درج مقدمات زیادہ تر دھوکہ دہی، جعلی کاغذات اور غیر قانونی ویزہ فراہمی جیسے جرائم پر مبنی ہیں۔ متاثرہ شہریوں کی بڑی تعداد نے بیان دیا ہے کہ خواتین ایجنٹس پر بھروسہ زیادہ آسان تھا، اور اسی اعتماد کو دھوکہ دہی میں بدل دیا گیا۔
گزشتہ برسوں کی کارروائیوں کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ریڈ بک 2023 میں شامل ملزمان میں سے اکیاون کو گرفتار کیا گیا، جن میں سب سے زیادہ تعداد گوجرانوالہ اور لاہور زون سے تھی۔ اسلام آباد اور کراچی زون میں بھی نمایاں گرفتاریاں ہوئیں۔ تاہم بڑی تعداد اب بھی بیرون ملک روپوش ہے اور ایف آئی اے کے مطابق انہیں پکڑنے کے لیے انٹرپول اور خلیجی ریاستوں سے مدد لی جا رہی ہے۔