خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ کے علاقے داموڑئی میں 12 سالہ شادی شدہ بچی عائشہ (فرضی نام) نے مبینہ طور پر زہریلی دوا کھا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا ہے۔پولیس حکام کے مطابق بچی کی شادی تقریباً چھ ماہ قبل اپنے 10 سالہ کزن سے ہوئی تھی جو کہ قانون کے مطابق غیرقانونی امر ہے۔بچی 27 ستمبر کو اپنے میکے سے واپس سسرال آئی تھی۔ اولندر تھانے کے سٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) علی حسین نے اردو نیوز کو بتایا کہ یہ واقعہ داموڑئی میں پیش آیا جو اولندر تھانے کی حدود میں واقع ہے۔ان کے مطابق 27 ستمبر کو دوپہر کے وقت بچی کی طبیعت اچانک خراب ہوئی۔ پولیس روزنامچے کے مطابق ’اس وقت گھر والے کھانا کھا رہے تھے کہ اچانک شور شرابہ ہوا۔ بچی کا جسم کانپ رہا تھا۔ اسے الٹیاں اور دست شروع ہوئے اور کچھ ہی دیر بعد وہ فوت ہو گئی۔‘داموڑئی چوکی پر موجود انچارج قریب اللہ نے اطلاع ملتے ہی ایس ایچ او اولندر کو مطلع کیا۔ پولیس جائے وقوعہ پر پہنچی تو متوفیہ تب تک زندگی کی بازی ہار چکی تھی۔ پولیس کے پہنچنے پر متوفیہ کی والدہ نے لاش پوسٹ مارٹم کے لیے دینے سے انکار کیا۔ تاہم پولیس نے لاش کو ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرہسپتال الپوری منتقل کیا جہاں پوسٹ مارٹم کے لیے نمونے حاصل کیے گئے۔ایس ایچ او علی حسین اس حوالے سے بتاتے ہیں کہ ’مقامی ہسپتال کے ڈاکٹروں نے بتایا ہے کہ بچی کے جسم پر تشدد کے کوئی نشانات نہیں ملے البتہ زہریلے مادے کی علامات پائی گئیں۔‘
ایس ایچ او علی حسین بتاتے ہیں کہ ’خاندان کا موقف ہے کہ شادی باہمی رضامندی سے ہوئی تھی (فائل فوٹو: اے ایف پی)
ان کے مطابق بچی کے جسم سے نمونے حاصل کر کے پشاور بھیج دیے گئے ہیں اور میڈیکل رپورٹس کے آنے کے بعد موت کی اصل وجہ معلوم ہو سکے گی کہ آیا یہ خودکشی تھی یا منصوبے کے تحت بچی کو قتل کیا گیا ہے۔
ان کے مطابق رپورٹس آنے میں 10 سے 15 دن لگ سکتے ہیں۔ ’دفعہ 176 ضابطہ فوجداری (سی آر پی سی) کے تحت تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں اور تین تفتیشی ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں جو اس معاملے کی شفاف تحقیقات کر رہی ہیں۔ افسران بالا خصوصاً ڈی ایس پی سرکل الپوری احسان اللہ خان اور ڈی پی او شانگلہ شاہ حسن خان کی جانب سے ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ اس معاملے کو خصوصی توجہ دی جائے اور تمام ذمہ داران کو قانون کے کٹہرے میں لایا کھڑا کیا جائے۔‘پولیس کے مطابق بچی دو روز قبل اپنے میکے کاڑئی شاہ پور آئی تھی۔ پولیس کو گھر والوں نے بتایا ہے کہ بچی نے خود زہریلا مادہ کھایا لیکن حتمی نتیجہ رپورٹس کے بعد ہی سامنے آئے گا۔ ایس ایچ او علی حسین بتاتے ہیں کہ ’خاندان کا موقف ہے کہ شادی باہمی رضامندی سے ہوئی تھی لیکن پولیس نے واضح کیا کہ نابالغ بچوں کی شادی قانون کے تحت جرم ہے۔‘
ایس ایچ او نے کہا کہ بچی اور لڑکے کے والدین کو بھی گرفتار کیا جائے گا اور انصاف کو یقینی بنایا جائے گا (فوٹو: کے پی پولیس)
ایس ایچ او نے بتایا کہ ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹر سے مشاورت کے بعد نکاح پڑھانے والے مولوی (نکاح رجسٹرار)، جرگے کے شرکا اور شادی کی تقریب میں شریک افراد کے خلاف قانونی کارروائی ہوسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بچی اور لڑکے کے والدین کو بھی گرفتار کیا جائے گا اور انصاف کو یقینی بنایا جائے گا۔ اس سلسلے میں چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ کے تحت بھی کارروائی کی جا رہی ہے۔
شانگلہ کے علاقے برسیوڑ میں یہ واقعہ پیش آیا ہے جو کوہستان کے قریب ایک دور دراز علاقہ ہے جہاں زیادہ تر لوگوں کو قانون کا علم نہیں اور وہ اپنی روایات کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایس ایچ او علی حسین کے بقول ’مقامی لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کی اولاد ہے اور وہ اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں چاہتے لیکن پاکستان کے قانون کے تحت نابالغ کی شادی جرم ہے اور اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔‘