کشمیر میں ہڑتال کا دوسرا روز، مظاہرین کا مظفرآباد کی جانب لانگ مارچ کا اعلان

image

پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں پیر کو شروع ہونے والے احتجاجی مظاہرے منگل کو دوسرے روز بھی جاری رہے اور تمام شہروں میں کاروباری مراکز بند اور پبلک ٹرانسپورٹ بھی معطل رہی۔

اس کے علاوہ تمام اضلاع میں نجی تعلیمی ادارے بھی بند ہیں جبکہ سرکاری دفاتر میں حاضری نہ ہونے کے برابر ہے۔

ان مظاہروں کو منظم کرنے والے پلیٹ فارم جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے منگل کو اپنے اگلے لائحہ عمل کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’تمام اضلاع سے مظاہرین بدھ کو دارالحکومت مظفرآباد کی جانب لانگ مارچ کریں گے۔‘

یہ اعلان عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنما شوکت نواز میر نے مظاہرین سے خطاب میں کیا اور بعد میں ایک آڈیو پیغام بھی اپنے آفیشل فیس بُک پیج سے جاری کیا۔

منگل کو دارالحکومت مظفرآباد، راولاکوٹ، باغ، کوٹلی، بھمبھر، میرپور، نیلم ویلی، ڈڈیال سمیت دیگر شہروں میں بڑی تعداد میں مظاہرین سڑکوں پر نکلے اور انہوں نے مختلف اضلاع کو آپس میں ملانے والے مقامات پر دھرنے دیے۔

کشمیر کے پونچھ ڈویژن کو پنجاب سے ملانے سے والے آزاد پتن پُل پر بڑی تعداد میں مظاہرین جمع ہیں جبکہ مظفرآباد کو خیبر پختونخوا سے ملانے والے مقام برارکوٹ میں بھی مظاہرین بڑی تعداد میں پہنچ گئے ہیں۔

مقامی صحافیوں کے مطابق منگل کو مظفرآباد شہر کے علاقوں چھتر دومیل، بینک روڈ اور بیلہ نور شاہ میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان وقفوں وقفوں سے جھڑپیں بھی ہوئیں۔ پولیس نے آنسو گیس کی شلینگ کر کے مظاہرین کو منتشر کیا۔

عوامی ایکشن کمیٹی نے اپنے مطالبات منظور نہ ہونے اور گذشتہ برس دسمبر میں ہونے والے معاہدے کے تمام نکات پر عمل درآمد نہ ہونے کے خلاف 29 ستمبر کو ریاست گیر شٹرڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کی کال دی تھی۔

ہڑتال سے چار دن قبل 25 ستمبر کو پاکستان کی وفاقی حکومت کے نمائندے وزیر امور کشمیر امیر مقام اور وزیر پارلیمانی امور ڈاکٹر طارق فضل چوہدری عوامی ایکشن کمیٹی کے نمائندوں کے ساتھ مذاکرات کرنے دارالحکومت مظفرآباد گئے تھے۔

مظفرآباد میں اسلام آباد کے نمائندوں اور جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے ارکان کے درمیان طویل مذاکرات بے نتیجہ ختم ہو گئے تھے جس کے بعد مظاہرین کے نمائندوں نے 29 ستمبر کی ہڑتال کی کال برقرار رکھنے کا اعلان کیا تھا۔

پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں آزاد پتن پُل اور برارکوٹ میں مظاہرین بڑی تعداد میں جمع ہیں (فوٹو: سکرین گریب)

ہڑتال سے ایک روز قبل کشمیر کے تمام علاقوں میں موبائل فون اور ہر طرح کی انٹرنیٹ سروس بند کر دی گئی تھی جو کہ تاحال معطل ہے۔

ہڑتال کے پہلے دن عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنما شوکت نواز میر نے دوپہر ساڑھے 12 بجے مظاہرین کو نیلم پُل کے قریب کے جمع ہونے کی ہدایت کی تھی۔

جب مظاہرین نیلم پُل کے قریب جمع ہو رہے تھے تو اسی دوران ایک سیاسی جماعت مسلم  کانفرنس کی ’امن ریلی‘ وہاں سے گزری۔

مسلم کانفرنس نے عوامی ایکشن کمیٹی کے احتجاج سے دو دن قبل شہر میں امن ریلی کے نام سے جلوس نکالنےکا اعلان کیا تھا۔

شہری کی ہلاکت کا واقعہ کیسے پیش آیا؟

ایک عینی شاہد سبیل احمد کے مطابق ’اسی دوران امن ریلی کے شرکا اور عوامی ایکشن کمیٹی کے مظاہرین کے درمیان تصادم ہوا اور اور فائرنگ کی گئی۔‘

جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے اس واقعےکے بعد دعویٰ کیا تھا کہ ’امن ریلی‘ کے شرکا کی فائرنگ سے ان کے ایک درجن سے زائد کارکن زخمی ہوئے جبکہ ایک کارکن کی جان چلی گئی۔

تاہم سرکاری سطح پر اس ہلاکت کی کئی گھنٹے تک تصدیق نہیں کی گئی اور نہ ہی اس بارے میں کوئی بیان جاری کیا گیا۔

عوامی ایکشن کمیٹی کے مرکزی رہنما شوکت نواز میر نے پیر کی شام لال چوک اپر اڈا میں جمع سینکڑوں مظاہرین سے خطاب میں سکیورٹی حکام کو اس حملے اور فائرنگ کا ذمہ دار قرار دیا۔

منگل کو مظفرآباد شہر میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان وقفوں وقفوں سے جھڑپیں بھی ہوئیں (فوٹو: سکرین گریب)

انہوں نے مزید کہا کہ ’وہ مقتول سدھیر کی لاش کے ساتھ اس وقت تک دھرنا جاری رکھیں گے جب تک اس واقعے کی ایف آئی آر درج نہیں کر لی جاتی۔‘

بعدازاں پیر اور منگل کی درمیانی شب دیر گئے مظفرآباد کے تھانہ صدر میں شہری، محمد سدھیر کے قتل کی ایف آئی آر درج کر لی گئی اور اس میں مسلم کانفرنس کے مقامی رہنما ثاقب مجید، ان کے بھائیوں سکندر مجید، محسن مجید، یاسر مجید بیٹے سرخیل مجید اور چند رشتہ داروں سمیت متعدد افراد کو نامزد کیا گیا۔

افہام تفہیم سے معاملات حل کریں: وزیر امور کشمیر

پیر ہی کی شام کو اسلام آباد میں وزیر امور کشمیر امیر مقام نے ایک پریس کانفرنس میں جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی سے ہونے والے مذاکرات کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ’دو مطالبات پر ڈیڈلاک ہوا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’پاکستان میں مقیم کشمیری مہاجرین کی اسمبلی میں 12 نشستوں اور اشرافیہ کی مراعات کا خاتمہ آئینی ترمیم یا کابینہ کی منظوری سے ہی ہو سکتا ہے۔‘

’اس کے لیے عوامی ایکشن کمیٹی کو الیکشن لڑ کر اسمبلی میں آنا چاہیے تاکہ وہ اپنی خواہش کے مطابق آئینی ترامیم کروا سکے۔ اس کے علاوہ ہم نے عوامی ایکشن کمیٹی کے تمام مطالبات مان لیے تھے۔‘

انہوں نے بات چیت پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہم اب بھی عوامی ایکشن کمیٹی سے کہتے ہیں کہ وہ کشمیریوں کو مشکل میں ڈالنے کے بجائے افہام تفہیم سے معاملات حل کرے۔‘

  پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کی حکومت کی جانب سے گذشتہ دو دن سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا (فوٹو: سکرین گریب)

تاہم حیرت انگیز طور پر ماضی کے برعکس پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کی حکومت کی جانب سے گذشتہ دو دن سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔

منگل کی شام کشمیر کے تین وزرا فیصل ممتاز راٹھور، چوہدری قاسم مجید اور دیوان علی چغتاتی کی ایک ویڈیو صحافیوں کو بھیجی گئی۔

اس ویڈیو میں فیصل راٹھور عوامی ایکشن کمیٹی کو مذاکرات کی دعوت دیتے سُنے جا سکتے، تاہم محکمہ اطلاعات یا کسی اور سرکاری پلیٹ فارم سے اس ویڈیو کی تصدیق نہیں ہو سکی۔

انٹرنیٹ کے لیے ’ڈیڑھ گھنٹے کا سفر‘

انٹرنیٹ اور ٹیلی فون سروسز کی بندش کی وجہ سے کشمیر کے صحافیوں کو کافی مشکلات کا سامنا ہے۔ پیر کو کچھ مقامی صحافیوں کو خبریں فائل کرنے کے لیے کشمیر کی حدود سے نکل کر پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقوں میں جانا پڑا اور دوسرے روز بھی انہیں کئی کلومیٹر کا سفر کرنا پڑا۔

اردو نیوز نے سینیئر صحافی امیر الدین مغل سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ مظفرآباد سے مانسہرہ پہنچے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’پہلے مظفرآباد کے قریب واقع خیبر پختوںخوا کے شہر گڑھی حبیب اللہ میں انٹرنیٹ بحال تھا اور صحافی وہاں جا کر ویڈیو اور خبریں اپنے اداروں کو بھیجتے تھے۔‘

 انٹرنیٹ سروسز کی بندش کی وجہ سے صحافیوں کو طویل سفر طے کر کے خیبر پختونخوا جانا پڑا (فائل فوٹو: شٹرسٹاک)

’حکام نے منگل کو احتجاج کے دوسرے دن وہاں بھی انٹرنیٹ بند کر دیا، لہٰذا ہمیں تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کا سفر کر کے مانسہرہ آنا پڑا۔‘

کشمیر کی حکومت کا اس صورت حال پر کیا موقف ہے؟ اس سوال کے جواب میں امیر الدین مغل نے کہا کہ ’مواصلاتی رابطے بند ہونے کی وجہ سے کسی سرکاری عہدے دار سے رابطہ نہیں ہو رہا، کسی چیز کی سرکاری سطح پر تصدیق نہیں ہو پا رہی اور نہ سرکاری افسران کچھ بتا رہے ہیں۔‘

’دو دن سے اخبارات نہیں شائع ہوئے‘

پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے محکمہ اطلاعات کے فیس بُک پیج ’ڈی جی پی آر اے اے جے کے ڈیجٹیل‘ پر بھی 28 ستمبر کے بعد کوئی خبر یا حکومتی موقف نشر نہیں کیا گیا۔

صحافی امیر الدین مغل نے مزید بتایا کہ ’کشمیر میں گذشتہ دو دن سے کوئی بھی اخبار شائع نہیں ہوا اور نہ ہی وہ اخبار کشمیر میں پہنچ سکے ہیں جو راولپنڈی میں پرنٹ ہوتے ہیں۔‘

راولپنڈی، اسلام آباد اور برطانیہ میں احتجاج

ہڑتال کے پہلے روز یعنی پیر کو راولپنڈی پریس کلب کے سامنے مظاہرین جب احتجاج کے لیے پہچے تو انہیں پولیس نے روک دیا تھا۔ 

پیر کی شام نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے سامنے احتجاج کے لیے جانے والے مظاہرین میں سے کچھ افراد کو اسلام آباد پولیس نے گرفتار کر لیا، تاہم رات کو انہیں رہا کر دیا گیا۔

پیر ہی کو برطانیہ کے شہروں لندن، برمنگھم اور بریڈفورڈ میں کشمیری کمیونٹی نے احتجاجی مظاہرے کیے۔ 

اس موقعے پر کشمیری مظاہرین نے بریڈفورڈ میں پاکستانی قونصل خانے کے عہدے داروں کو ایک میمورنڈم بھی پیش کیا جس میں انہوں نے انٹرنیٹ سروسز کی بحالی اور احتجاج سے قبل کشمیر میں بھیجی گئی فورسز کو واپس بلانے کا مطالبہ کیا۔


News Source   News Source Text

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US