جاپان کی حکمران جماعت لبرل ڈیموکریٹک پارٹی (ایل ڈی پی) نے 64 برس کی سانائے تکائچی کو اپنا نیا سربراہ منتخب کرلیا ہے۔ اس انتخاب کا مطلب یہ ہے کہ اب ان کے ملک کے نئے وزیراعظم بننے کے امکان روشن ہو گئے ہیں۔ وہ جاپان کی پہلی خاتون وزیراعظم ہوں گی۔

جاپان کی حکمران جماعت لبرل ڈیموکریٹک پارٹی (ایل ڈی پی) نے 64 برس کی سانائے تکائچی کو اپنا نیا سربراہ منتخب کرلیا ہے۔ اس انتخاب کا مطلب یہ ہے کہ اب ان کے ملک کے نئے وزیراعظم بننے کے امکان روشن ہو گئے ہیں۔ وہ جاپان کی پہلی خاتون وزیراعظم ہوں گی۔
توقع ہے کہ پارلیمنٹ ان کی بطور وزیر اعظم 15 اکتوبر کو توثیق کرے گی۔
وہ ایک سابقہ ٹی وی اینکر ہیں اور ماضی میں ایک میوزک بینڈ میں ڈرمز بجاتی تھیں۔ انھوں نے سنہ 1993 میں جاپانی سیاست میں قدم رکھا اور بطور آزاد اُمیدوار ایوانِ زیریں کی نشست جیتی۔
وہ اس جماعت کی پہلی خاتون سربراہ منتخب ہوئی ہیں جو سکینڈلز کی زد میں ہے اور اس وقت ووٹرز کا اعتماد حاصل کرنے کی تگ دو میں ہے۔

وہ سنہ 1961 میں نارا پریفیکچر میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد ایک آفس ورکر اور والدہ پولیس افسر تھیں۔ ان کی زندگی میں سیاست کہیں دور دور تک نہیں تھی۔
ہیوی میٹل ڈرمر کے طور پر وہ بہت سی ڈرم سٹکس ہاتھ میں رکھتی تھیں کیونکہ وہ شدید ’ڈرمنگ‘ کے دوران انھیں توڑ دیتی تھیں۔ وہ ایک سکوبا غوطہ خور اور کاروں کی بھی شوقین تھیں۔ ان کی پسندیدہ ’ٹویوٹا سپرا‘ اب نارا میوزیم میں نمائش کے لیے رکھی گئی ہے۔
سیاست میں آنے سے پہلے، سانائے تکائچی نے مختصر عرصے کے لیے ٹی وی میزبان کے طور پر کام کیا۔
انھیں سیاست میں دلچسپی سنہ 1980 کی دہائی میں اس وقت پیدا ہوئی جب امریکہ اور جاپان میں تجارتی تناؤ عروج پر تھا۔
جاپان کے بارے میں امریکی تصورات کو سمجھنے کے لیے پرعزم، سانائے تکائچی نے ڈیموکریٹ پیٹریسیا شروڈر کے دفتر میں کام کیا، جو کہ جاپانی حکمرانوں کی نقاد تھیں۔
سانائے تکائچی نے امریکیوں کو جاپانی، چینی اور کوریائی زبانوں اور کھانوں کو ملاتے ہوئے دیکھا۔ انھوں نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ جاپان کو اکثر چین اور جنوبی کوریا جیسے ممالک کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
انھوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ ’جب تک جاپان اپنا دفاع خود نہیں کرے گا تو پھر ایسے میں اس کی قسمت ہمیشہ امریکہ کے رحم و کرم پر ہی رہے گی۔‘

انھوں نے 1992 میں اپنے پہلے پارلیمانی الیکشن میں آزاد حیثیت سے حصہ لیا مگر کامیاب نہ ہو سکیں۔ مگر وہ پرعزم رہیں۔ ایک سال بعد آزادانہ حیثیت میں رکن اسمبلی منتخب ہو کر انھوں نے سنہ 1996 میں ایل ڈی پی میں شمولیت اختیار کر لی۔ اس کے بعد سے وہ 10 بار رکن اسمبلی منتخب ہوئی ہیں۔
انتخابی سیاست میں انھیں صرف ایک بار شکست ہوئی۔ اور پارٹی کی متحرک قدامت پسند آوازوں میں سے ایک کے طور پر شہرت حاصل کی۔
وہ اعلیٰ حکومتی عہدوں پر بھی فائز رہ چکی ہیں جن میں وزیر برائے اقتصادی تحفظ، تجارت و صنعت، داخلہ اور مواصلات شامل ہیں۔
سنہ2021 میں سانائے تکائچی نے پہلی بار ایل پی ڈی کی قیادت کی دوڑ میں حصہ لیا لیکن وہ سابق وزیراعظم فومیو کشیدا سے جیت نہ سکیں۔ انھوں نے سنہ 2024 میں دوبارہ دوڑ میں شامل ہوئیں اور اس بار ووٹنگ کے پہلے مرحلے میں وہ سرفہرست رہیں مگر بالآخر جاپان کے وزیراعظم بننے والے شیگیرو ایشیبا سے ہار گئیں۔
رواں برس اپنی تیسری کوشش میں، انھیں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ پارلیمنٹ نے ان کی تقرری کی توثیق کر دی ہے، یوں ان کی جاپان کی پہلی خاتون وزیر اعظم بننے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔
انھوں نے اپنی حالیہ مہم میں سکول کے بچوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’میرا مقصد آئرن لیڈی بننا ہے۔‘
سانائے تکائچی ایک قدامت پسند رہنما ہیں جنھوں نے طویل عرصے سے شادی کے بعد بھی خواتین کو اپنے نام کو برقرار رکھنے کی اجازت دینے والے قانون کی مخالفت کی ہے۔ انھوں نے اصرار کیا کہ اس سے روایت کو نقصان پہنچتا ہے یعنی خواتین اپنے نام کے ساتھ اپنے شوہر کے نام کا اضافہ کریں۔ وہ ہم جنس شادیوں کے بھی خلاف ہیں۔
تاہم وہ حال ہی میں اپنے مؤقف میں قدرے نرمی لائی ہیں۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران انھوں نے بچوں کی نگہداشت کی خدمات فراہم کرنے والی کمپنیوں کی فیس پر ٹیکس میں چھوٹ دینے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
ان کے خاندانی اور ذاتی تجربات ان کی پالیسی کی بنیاد ہیں۔ ان کی تجاویز میں خواتین کی صحت کے لیے ہسپتال کی خدمات کو بڑھانا، گھریلو معاون کارکنوں کی زیادہ فلاح اور جاپان کے عمر رسیدہ معاشرے کے لیے دیکھ بھال کے اختیارات کو بہتر بنانا شامل ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’میں نے ذاتی طور پر اپنی زندگی میں تین بار نرسنگ اور ’کیئر گیونگ‘ یعنی دیکھ بھال کے نظام کا مشاہدہ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میرا عزم مزید مضبوط ہوا ہے کہ ان لوگوں کے لیے کچھ کرنا ہے تاکہ وہ اپنا کام جاری رکھ سکیں اور اپنا کریئر نہ چھوڑیں۔‘
سابق وزیر اعظم شینزو آبے کی سوچ سے متاثرہ سانائے تکائچی نے عوامی اخراجات اور سستے قرضوں کے معاشی وژن کو بحال کرنے کا عہد کیا ہے۔
وہ متنازع ’یاسوکونی شرائن‘ پر باقاعدگی سے جاتی ہیں۔ یہ جگہ جاپان کی جنگ میں مرنے والوں بشمول سزا یافتہ جنگی مجرموں کے اعزاز میں تعمیر کی گئی ہے۔
انھوں نے ملک کی سیلف ڈیفنس فورسز پر آئینی پابندی ہٹانے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ اس وقت جاپان کی فوج پر جنگی صلاحیت حاصل کرنے کی پابندی عائد ہے۔

سنہ 1955 میں اپنے قیام کے بعد سے ایل ڈی پی کا جاپانی سیاست پر غلبہ ہے، مگر اب یہ ایک سست معیشت، معمر افراد کی تعداد میں اضافے اور سماجی بے چینی کی وجہ سے اپنی ساکھ کھو رہی ہے۔
سانائے تکائچی کا تعلق ایل ڈی پی کے دائیں بازو سے ہے اور ان کے انتخاب سے ایل ڈی پی قدامت پسند ووٹروں کا اعتماد دوبارہ حاصل کرنے کی امید کر رہی ہے جو انتہائی دائیں بازو کی ’سنسیتو‘ پارٹی کی طرف چلے گئے ہیں۔
سنسیتو اب ’سب سے پہلے جاپان‘ کے نعرے پر سیاست کر رہی ہے۔
حال ہی میں قدامت پسند ووٹروں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے، ایک نشست سے اپنی انتخابی طاقت 15 نشستوں تک بڑھا لی ہے۔ ایل ڈی پی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اپنی اکثریت کھو چکی ہے۔
سانائے تکائچی نے پہلے مرحلے میں ووٹنگ جیتنے کے بعد ایک تقریر میں خود اس بات کو تسلیم کیا اور کہا کہ ’ہمیں اپنے پرانے حامیوں، قدامت پسندوں اور پارٹی کے اراکین کی طرف سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔‘
ان کے مطابق ’ایل ڈی پی کو جاپان کے حال اور مستقبل کی خاطر تبدیل ہونا چاہیے۔ ہم ہمیشہ قومی مفاد کو ترجیح دیں گے اور توازن کے احساس کے ساتھ ملک کو سنبھالیں گے۔‘