لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک آئی ایس آئی کے سربراہ کے علاوہ قومی سلامتی کے مشیر کے عہدے پر بھی فائز ہیں۔
پاکستان کی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک کو رواں مہینے اپنے عہدے سے ریٹائر ہونا تھا تاہم عسکری ذرائع نے بی بی سی اردو کو تصدیق کی ہے کہ وہ اپنے عہدوں پر کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔
عسکری ذرائع کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک ’اپنے موجودہ عہدوں پر کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘
خیال رہے لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک آئی ایس آئی کے سربراہ کے علاوہ قومی سلامتی کے مشیر کے عہدے پر بھی فائز ہیں۔
پاکستانی حکومت یا فوج کی جانب سے تاحال سرکاری سطح پر ان کی مدت ملازمت میں توسیع دینے کی تصدیق یا تردید نہیں کی گئی ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک نے گذشتہ برس 30 ستمبر کو بطور آئی ایس آئی کے سربراہ اپنا عہدہ سنبھالا تھا۔ ان سے قبل لیفٹینٹ جنرل (ریٹائرڈ) ندیم انجم اس عہدے پر فائز تھے۔ انھیں بھی نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ نے مدت ملازمت میں توسیع دی تھی۔
لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک کون ہیں؟
لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک کا تعلق ایک عسکری خاندان سے ہے اور ان کے والد لیفٹیننٹ جنرل (ر) جنرل غلام محمد ملک 90 کی دہائی کے اوائل میں راولپنڈی کے کور کمانڈر رہ چکے ہیں۔
خیال رہے کہ یہ وہی زمانہ تھا جب اس وقت کی وزیراعظم بینظیر بھٹو کے خلاف ایک ناکام فوجی بغاوت ہوئی تھی جس پر میجر جنرل ظہیر الاسلام عباسی، بریگیڈیئر مستنصر باللہ سمیت متعدد افسران کا فیلڈ جنرل کورٹ مارشل بھی ہوا تھا۔
پاکستان آرمی کی بلوچ رجمنٹ سے تعلق رکھنے والے لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک نے پاکستان ملٹری اکیڈمی سے اعزازی شمشیر کے ساتھ اپنی تعلیم مکمل کی تھی۔ وہ امریکہ کے فورٹ لیون ورتھ آرمی کالج کے علاوہ برطانیہ کے رائل کالج آف ڈیفنس سٹڈیز سے بھی فارغ التحصیل ہیں۔
یہ وہی برطانوی کالج ہے جہاں سے پاکستان کی برّی فوج کے سابق سربراہان پرویز مشرف، اشفاق کیانی اور راحیل شریف بھی کورس کر چکے ہیں۔
انھیں بلوچستان کے امور پر دسترس رکھنے والے افسر کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اپنے عسکری کریئر میں انھوں نے دالبندین میں 41 ویں انفنٹری ڈویژن کی کمان کے علاوہ وزیرستان میں انفنٹری بریگیڈ کی کمان بھی سنبھالی۔ اس کے علاوہ وہ نیشنل ڈیفینس یونیورسٹی میں ’وار ونگ‘ کے چیف انسٹرکٹر اور کمانڈ اینڈ سٹاف کالج کوئٹہ میں بھی بطور انسٹرکٹر تعینات رہ چکے ہیں۔
ڈی جی آئی ایس آئی فورٹ لیون ورتھ آرمی کالج کے علاوہ برطانیہ کے رائل کالج آف ڈیفنس سٹڈیز سے بھی فارغ التحصیل ہیںعاصم ملک ڈائریکٹر ملٹری آپریشنز کے عہدے پر بھی کام کر چکے ہیں اور بطور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی تعیناتی سے قبل وہ ایڈجوٹنٹ جنرل کے عہدے پر کام کر رہے تھے۔
یہ ادارہ پاکستان کی فوج میں ڈسپلن اور ویلفیئر کا ذمہ دار ہے۔ سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹینٹ جنرل (ر) فیض حمید کے کورٹ مارشل سمیت گذشتہ چند برس میں پاکستانی فوج کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسران کے خلاف ڈسپلن کی خلاف ورزی اور اس طرح کے جو دیگر معاملات سامنے آئے ان کی تحقیقات ایڈووکیٹ جنرل کے ماتحت جج ایڈجوٹنٹ جنرل برانچ نے ہی کی۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایک سابق فوجی افسر کا کہنا تھا کہ ’یہ ضروری نہیں کہ ایڈجوٹنٹ جنرل ہی تمام معاملات دیکھے۔ ہمارے سامنے ایسے متعدد معاملات موجود ہیں جہاں فوج کی اعلیٰ قیادت براہ راست جج ایڈووکیٹ جنرل سے رابطہ کرتی ہے اور ایسی صورت میں عام طور پر ایڈجوٹنٹ جنرل مداخلت نہیں کرتے۔ اس لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ لیفٹننٹ جنرل عاصم ملک نے ان تمام، خاص طور پر سیاسی معاملات کی، نگرانی خود ہی کی ہو۔ یہ ممکن بھی ہے اور ہو سکتا ہے کہ ایسا نہ ہوا ہو۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پاکستانی فوج کے ایک افسر نے بتایا کہ لیفٹینٹ جنرل عاصم ملک فوج میں ایک بااصول اور ڈسپلن کے پابند لیکن اہلکاروں اور شہدا کے لواحقین کے تئیں ہمدرد افسر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔
ان کے مطابق ’جہاں ایک طرف وہ ایک نظم و ضبط کے پابند افسر کے طور پر جانے جاتے ہیں، وہیں انھیں ایک ہمدرد شخصیت بھی سمجھا جاتا ہے۔ وہ بطور ایڈجوٹنٹ جنرل ریٹائرڈ فوجی اہلکاروں اور شہدا کے اہلخانہ سے متعلق معاملات میں نرمی اختیار کرتے رہے ہیں جبکہ ایسے معاملات میں جہاں مسئلہ ادارہ جاتی اور انضباطی شکایت کی بجائے انسانی غلطی کا رہا ہو، انھوں نے اہلکاروں کو ریلیف بھی دیا ہے۔‘
عاصم ملک نے گذشتہ سال پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کاری لانے کے لیے بنائے گئے منصوبے ’ایس آئی ایف سی‘ کے تحت ملک میں زرعی اصلاحات کے لیے ’گرین انیشیئیٹو‘ پروگرام کی منصوبہ بندی کی اور بحیثیت ایڈجوٹنٹ جنرل اس کے منتظم رہے ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایک فوجی افسر کا کہنا تھا کہ ’جدید زرعی سکیم اور ایس آئی ایف سی کے زیرِ انتظام مختلف منصوبوں کی منصوبہ بندی اور اس پر عملدرآمد میں جنرل عاصم ملک کا کردار بہت اہم رہا ہے۔ وہ گرین انیشیئیٹو منصوبوں پر عملدرآمد کے ابتدائی مراحل میں اس کی نگرانی کر رہے تھے اور سٹریٹجک فارمنگ کے منصوبے میں بھی ان کا مرکزی کردار تھا۔‘