ایرانی حملوں میں شاہد ڈرنز نے اپنی بڑی تعداد کے سبب ایک بڑا کردار ادا کیا تھا۔ یہ نہ صرف سستے تھے، بلکہ انتہائی سُست بھی تھے جن کی رفتار صرف 180 کلومیٹر فی گھنٹہ تھی۔
یہ 13 اپریل 2024 کی رات تھی جب دہائیوں پر محیط کشیدگی کے بعد ایران نے پہلی مرتبہ اسرائیل پر براہ راست حملہ کیا۔
اسرائیل نے اس برس اپریل میں ہی دمشق میں ایرانی قونصل خانے کی ایک عمارت پر حملہ کیا تھا جس میں پاسدارانِ انقلاب کے سینیئر اہلکار بھی ہلاک ہوئے تھے۔ ایران نے کہا تھا کہ 13 اپریل کو اسرائیل پر کیے گئے ڈرون اور میزائل حملے دمشق سفارتخانے پر حملے کے بدلے میں کیے گئے تھے۔
ایران نے اس آپریشن کو ’وعدہ صادق‘ کا نام دیا تھا اورخبردار کیا تھا کہ اسرائیل پر اس کے حملے کا مقصد جانی نقصان پہنچانا نہیں بلکہ اپنی جوابی حملے کی صلاحیت کا مظاہرہ کرنا تھا۔
کچھ ایرانی میزائل یقیناً اسرائیل میں اپنے اہداف کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہوئے تھے لیکن عسکری اعتبار سے یہ آپریشن زیادہ کامیاب نہیں ہوا تھا۔
ایرانی حملوں کو ناکام بنانے میں صرف اسرائیل کے فضائی دفاعی نظام نے ہی اپنا کردار نہیں ادا کیا تھا بلکہ امریکی پائلٹس نے اسرئیلی پائلٹس کے ساتھ مل کر اس رات خصوصاً ایرانی ڈرونز کے خلاف ملک کے دفاع میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
امریکی سینٹرل کمانڈ (سینٹکوم) کے مطابق امریکی فورسز نے اس رات 80 زیادہ ایرانی ڈرونز اور چھ بیلسٹک میزائلوں کو تباہ کیا تھا۔
امریکی فضائیہ نے اپنے یوٹیوب چینل پر ’ڈینجرس گیم‘ (خطرناک کھیل) نامی ایک ڈاکیومنٹری ریلیز کی ہے جس میں ایف 15 ای سٹرائیک ایگل کے پائلٹس کی زبانی اس رات کا قصہ بیان کیا ہے۔
ٹاور 22 پر ڈرون حملے میں تین امریکی اہلکار ہلاک ہوئے تھےڈاکیومینٹری ’ڈینجرس گیم‘ میں اس رات ہونے والے واقعات کو امریکی فوج کے نطریے سے بیان کیا گیا ہے اور متعدد اوقات میں اس 36 منٹ پر محیط فلم میں پروپیگنڈا کے رنگ بھی آتے ہیں۔
تاہم اس ڈاکیومینٹری میں ایرانی حملے کے عسکری اور سائیکولوجیکل اثرات کو بھی بیان کیا گیا ہے کہ اس رات امریکی فورسز کو کس قسم کے دباؤ اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
اُردن میں ’ٹاور 22‘ پر حملہ
13 اپریل 2024 کو اسرائیل پر ایرانی حملے کو سمجھے سے پہلے ان واقعات کو سمجھنا ضروری ہے جو اس حملے سے کچھ مہینوں پہلے رونما ہوئے تھے: 7 اکتوبر کو حماس کا اسرائیل پر حملہ، غزہ میں جنگ کی ابتدا اور دیگر محاذوں پر جاری کشیدگی۔
اسی دوران حزب اللہ نے بھی شمالی اسرائیل پر حملے کیے اور یمن کے حوثی بھی میزائل داغتے رہے۔ اس کے بعد یکم اپریل 2024 کو دمشق میں ایرانی سفارتخانے پر اسرائیلی حملے میں پاسدارانِ اسلامی کی قدس فورس کے سینیئر افسر محمد رضا زاہدی سمیت متعدد افراد ہلاک ہو گئے۔ ایران نے اسے اپنی خودمختاری پر حملہ قرار دیا تھا اور جوابی ردِ عمل دینے کا وعدہ بھی کیا تھا۔
اسی برس جنوری میں اردن میں ’ٹاور 22‘ پر ایک ڈرون حملے میں تین امریکی فوجی اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔
’ڈینجرس گیم‘ میں 494 فائٹر سکواڈرن سے تعلق رکھنے والے میجر بنیامین آئرش کوفی کہتے ہیں کہ ’ٹاور 22 پر حملے کے بعد ہمارے لیے سب کچھ پرسنل ہو چکا تھا۔ ان (امریکی فوجی اہلکاروں) کی اموات ہمارے لیے ایک بڑا دھچکا تھا۔‘
’ہمیں معلوم تھا کہ ہم سب کو جلد ہی ہمارے پارٹنرز کے دفاع کے لیے طلب کیا جائے گا۔‘
جب ایرانی شاہد ڈرونز ایک ’مشکل‘ بن گئے
ایرانی حملوں میں شاہد ڈرنز نے اپنی بڑی تعداد کے سبب ایک بڑا کردار ادا کیا تھا۔ یہ نہ صرف سستے تھے، بلکہ انتہائی سُست بھی تھے جن کی رفتار صرف 180 کلومیٹر فی گھنٹہ تھی۔
ڈاکیومینڑی میں سابق مرین ایلکس ہولنگز کہتے ہیں کہ شاہد ڈرون کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ ’سستے ہیں اور بڑی تعداد میں بنائے جاتے ہیں۔‘
ایلکس کہتے ہیں کہ یہ ڈرون مخالف دفاعی نظام کو تھکا سکتے ہیں اور اپنی سست رفتار کے سبب ایک ’مشکل‘ بن جاتے ہیں کیونکہ مخالف ریڈار اور دفاعی نظام کو برق رفتار اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے ڈیزائن کیا جاتا ہے۔
ایلکس مزید وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ شاہد 136 ڈرونز ریڈار پر کسی کار کی طرح نظر آتے ہیں کیونکہ انتہائی نچلی اُڑان کے سبب انھیں زمین پر موجود کوئی شہ بھی سمجھا جا سکتا ہے۔
انھوں نے مزید بتایا کہ ایسے میں ہدف کو ڈھونڈنا اور اس کی درست شناخت کرنا مشکل عمل بن جاتا ہے۔
ڈاکیومینٹری میں شامل کیے گئے انٹرویوز کے مطابق ان لمحات میں ویپنز سسٹم افسران کا کردار انتہائی اہم ہو جاتا ہے۔ ایک جہاز میں موجود کیپٹن سونک نے اس وقت ایرانی ڈرونز کی شناخت کرنے کے لیے ٹارگٹنگ پوڈ کا انتہائی ماہرانہ استعمال کیا، جسے زمین پر موجود اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
یہ ایک غیرمعمولی عمل تھا لیکن اس صورتحال میں انتہائی فائدہ مند ثابت ہوا۔
اس صورتحال میں پائلٹس نے ذہنی دباؤ کو کم کرنے کے لیے ریڈیو پر گفتگو محدود کر دی۔ اس رات متعدد مرتبہ ایک مختصر جملہ سُنائی دیا: ’ڈرون وہاں ہے۔‘
سٹیک نائٹ سے فاکس تھری تک: نامعلوم اڈے پر عام سی رات
’ڈینجرس گیم‘ کا آغاز ایک نامعلوم اڈے اور عام سی رات سے ہوتا ہے۔ انٹرویو کیے گئے افراد کے مطابق 13 اپریل 2024 کی رات کے ابتدائی گھنٹے دیگر راتوں جیسے ہی تھے: شفٹس تبدیل ہو رہی تھیں، رپورٹس کا تبادلہ ہو رہا تھا، لڑاکا طیارے ایک اونچی جگہ پر خاموش مگر تیار کھڑے تھے۔
وہ سنیچر کی ’سٹیک نائٹ‘ تھی۔ سٹیک سے مراد خاموشی سے مشاہدہ کرنا ہوتا ہے۔
پائلٹس رات کا کھانا کھا چکے تھے اور پورچ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ انھیں اندازہ بھی نہیں تھا کہ اگلے ہی گھنٹے وہ اپنے کیریئر کی سب سے بڑی محاذ آرائی کا حصہ ہوں گے۔
جب فلائٹ کمانڈر نے ریڈیو پر ہمیں کہا ’دوبارہ ایسا مت کرنا‘
سب سے پہلے ’لائن ون‘ کی صدا لگائی گئی، پھر ’لائن ٹو‘ کی اور پھر دیگر پائلٹس کے نام پکارے گئے، اسی طرح پُرسکون ماحول ہنگامی حالات میں بدل گیا۔
میجر بنیامین آئرش کوفی بھی ایک ایف 15 جہاز کے پائلٹ تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے پچھلے اندازے غلط ثابت ہوئے تھے: ’جس پیمانے پر ہم نے خطرناک دشمن حملے کا تصور کیا تھا، وہ صرف اصل حملے کا 10 سے 20 فیصد تھا۔‘
جلد ہی ایف 15 طیاروں کی پہلی کھیپ رات کی تاریکی میں اُڑان بھرتی ہے۔ ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ ریڈار کی سکرینیں ایرانی ڈرونز سے بھر گئیں۔
اس کے بعد فائر کرنے کے احکامات جاری ہوئے اور ’فوکس تھری‘ کے اعلانات کیے گئے جس کا مطلب تھا کہ میزائل فائر کرنے والے ریڈار متحرک ہو گئے ہیں۔
بنیامین کوفی کہتے ہیں: ’میں نے پہلا فائر کیا اور جو میزائل میں نے تیار کیا تھا وہ ریلیز ہو گیا۔ اس سے آسمان روشن ہوگیا۔ میرے نائٹ وژن کیمرے پر اچانک روشنی ہو گئی تھی۔‘
’وہ حیران کن منظر تھا کیونکہ میں نے پہلی مرتبہ امرام میزائل حقیقی صورتحال میں فائر کیا تھا۔‘
ڈاکیومینٹری میں ایک پائلٹ نے بتایا کہ ’میں بیان بھی نہیں کر سکتا کہ یہ مشن کتنا خطرناک تھا۔ کبھی میں صرف زمین سے ایک ہزار فُٹ اوپر پرواز کر رہا تھا جبکہ اُڑان بھرنے کی محفوظ سطح چار ہزار فُٹ تھی۔‘
یہ پائلٹ کہتے ہیں کہ جب میزائل ختم ہو گئے تو ان کی ٹیم کے ایک رُکن نے ایرانی شاہد ڈرون کو لیزر گائیڈڈ میزائل سے نشانہ بنانے کی کوشش کی۔
’ہم نے ڈرون پر بم گِرا دیا اور اسے لیزر کے ذریعے راہ دکھانے کی کوشش کی۔ پہلے پہل تو ایسا لگا جیسا یہ پینترا کام کر گیا ہے، ایک بڑا دھماکا ہوا اور ہم خوش ہو گئے۔ لیکن اگلے ہی لمحے ہمیں وہ ڈرون دوبارہ نظر آیا۔‘
’فلائٹ کمانڈر نے ریڈیو پر ہمیں فوراً کہا 'دوبارہ ایسا مت کرنا۔‘
’مجھے 13 کی گنتی پر پہنچ کر رُکنا پڑا کیونکہ میزائل بہت تیزی سے آر رہے تھے‘
ڈاکیومینٹری میں پائلٹس کا کہنا تھا کہ جیسے ہی انھوں نے اپنے آخری میزائل فائر کیے اور طیارے ری فیولنگ کے لیے اڈے تک پہنچے کے لیے تیار ہوئے انھوں نے اس تصادم کا ایک اور حصہ دیکھا: آسمان پر ایرانی بیلسٹک میزائل۔
ایک پائلٹ کا کہنا ہے کہ مشرقی سمت میں ’آسمان نارنجی روشنیوں سے روشن ہو گیا۔ میں نے اس وقت میزائل گننا شروع کیے۔ مجھے 13 کی گنتی پر پہنچ کر رُکنا پڑا کیونکہ یہ میزائل اتنی تیزی سے آر رہے تھے کہ انھیں گننا ممکن نہیں تھا۔‘
اسرائیلی دفاعی نظام ایرانی حملے کے وقت متحرک نظر آ رہا ہےاس وقت اسرائیل کے دفاعی نظام آئرن ڈوم، ڈیوڈز سلنگ اور امریکی نیول سسٹمز بھی حرکت میں آ رہے تھے۔
ان میزائلوں کو انتہائی اونچائی پر تباہ کیا جا رہا تھا، جس سے ایک ایسا منظر بن گیا تھا جو کہ پائلٹس کے لیے حیران کن بھی تھا اور خوفناک بھی۔
آسمان پر میزائل تباہ ہو رہے تھے، ان کے ٹکڑے زمین پر بارش کی طرح برس رہے تھے۔
اس وقت ایک افسر نے ریڈیو پر کہا: ’میں اس وقت یہاں نہیں رہنا چاہتا۔‘
لیکن وہاں سے نکلنے کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ پائلٹس ایک ’شارپنیل (میزائل کے ٹکڑے) کی چھتری تلے موجود تھے اور انھیں اس ملبے سے نکلنے کے لیے بہت مہارت دکھانی پڑی۔‘
ریڈ الرٹ اور فارمولہ ون ریس جیسا ماحول
اس وقت بیس پر بھی ریڈ الرٹ جاری کر دیا گیا جس کا مطلب تھا کہ سب افراد کو محفوظ مقام پر منتقل کیے جانا تھا۔
تاہم ’ووڈو‘ نامی فلائٹ کمانڈر نے ریڈیو نیٹ ورک پر اعلان کیا کہ: ’ریڈ الرٹ کا مطلب یہ ہے کہ جہازوں کو میزائلوں سے لیس کریں، جہازوں کو آڑائیں اور پھر محفوظ مقام پر جائیں۔‘
ڈاکیومینٹری میں موجود پائلٹس اس ماحول کو ’فارمولہ ون ریس‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔
اس وقت تکنیکی ٹیم نے غیرمعمولی ماحول میں جہازوں میں ایندھن بھرا، میزائل نصب کیے اور انجنوں کا معائنہ کیا۔
اس ٹیم کے ایک اہلکار کا کہنا تھا کہ ’اس رات میں نے پہلی مرتبہ ایسا آپریشن دیکھا۔‘
یہ تمام عمل صرف 32 منٹ میں مکمل کیا گیا تھا جبکہ عام طور پر صرف جہاز میں ایندھن بھرنے میں اتنا وقت لگتا ہے۔
تباہ شدہ ایرانی میزائلزمین پر موجود سکیورٹی اہلکار بھی ایسے ہی ماحول کی گواہی دیتے ہیں۔ ایک اہلکار نے ایک پائلٹ کو اس وقت کہا کہ: ’اگر تمھیں کچھ ہو گیا تو میں تمھیں جہاز سے باہر نہیں نکالوں گا۔‘
بغیر اجازت لینڈنگ اور ’ہدف کو نشانہ بنانے کے لیے ایک منٹ‘
ڈاکیومینٹری میں دکھایا گیا ہے کہ پائلٹ انتہائی پُرخطر ماحول میں اپنی بیس تک واپس آئے تھے۔ ان میں ایسے ہی ایک پائلٹ کا کہنا ہے کہ کنٹرول ٹاور سے کوئی جواب نہیں دیا جا رہا تھا، نیٹ ورکس مصروف تھے اور ان کی رہنمائی کرنے والا کوئی نہیں تھا۔
اس کے بعد وہ اور ان کے ساتھی پائلٹ اپنی ذمہ داری پر بغیر اجازت کے رن وے پر اُتر گئے۔
اس وقت آپریشنز روم سے ایک آواز آئی: ’حملہ ہونے میں ایک گھنٹہ رہ گیا ہے۔ ہم بات نہیں کر سکتے۔‘
اس کے بعد اچانک خاموشی چھا گئی اور کوئی وضاحت نہیں دی گئی۔
پائلٹ کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت بس انتظار ہی کر سکتے تھے۔
ایک پائلٹ نے کہا کہ ’یہ وہ ماحول تھا جس کے لیے میں تیار نہیں تھا۔ میں فائر کرنے پر تیار تھا لیکن اس بات کے لیے تیار نہیں تھا کہ میں کم ایندھن کے ساتھ بیس پر آؤں جو پہلے ہی حملوں کی زد میں ہو۔‘
اس کے بعد خطرہ ٹل گیا اور جہاز بیس پر اُتر گئے۔ جب یہ پائلٹس باہر نکلے تو ان کے موبائل فونز پر ان کے اہلخانہ کے پیغامات موجود تھے۔
میڈیا نیٹ ورکس پر اس وقت ہیڈلائنز چل رہی تھیں کہ ’ایران نے اسرائیل پر سب سے بڑا میزائل اور ڈرون حملہ کر دیا ہے۔‘
’ڈینجرس گیم‘ کے اختتامی لمحات میں ایک پائلٹ نے کہا کہ ’جو آٹھ میزائل ہم لے کر گئے تھے، ان میں سے صرف ایک باقی بچا تھا۔ وہ تکنیکی فالٹ کے سبب فائر نہیں کیا جا سکا، وہ ہماری غلطی نہیں تھی۔‘