سونے کی قیمت میں ریکارڈ اضافہ لیکن یہ رجحان کب تک برقرار رہے گا؟

سونے کی قیمتوں میں یہ اضافہ 1970 کی دہائی کے بعد سب سے زیادہ تیزی سے ہونے والا اضافہ ہے جو اپریل سے اب تک تقریباً ایک تہائی بڑھ چکی ہے۔
ان دنوں سونے کی قیمت اپنی ریکارڈ سطح پر ہے اور اس میں اضافے کا امکان نظر آتا ہے
Bloomberg via Getty Images
ان دنوں سونے کی قیمت اپنی ریکارڈ سطح پر ہے

عالمی منڈی میں ایک اونس سونے کی قیمت 4,000 امریکی ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے۔ سرمایہ کار دنیا بھر میں معاشی اور سیاسی غیر یقینی صورتحال کے پیش نظر محفوظ سرمایہ کاری کی تلاش میں سونا خرید رہے ہیں۔

سونے کی قیمتوں میں یہ اضافہ 1970 کی دہائی کے بعد سب سے زیادہ تیزی سے ہونے والا اضافہ ہے جو اپریل سے اب تک تقریباً ایک تہائی بڑھ چکی ہے۔

ماہرین کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجارتی پالیسیوں کے اعلان کے بعد سے عالمی تجارت متاثر ہوئی ہے اور یہ اضافہ اس کا نتیجہ کہا جا سکتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ سرمایہ کاروں کو ایک اور فکر یہ بھی ہے کہ امریکہ میں حکومتی بندش کی وجہ سے اہم معاشی اعداد و شمار جاری نہیں ہو رہے، اور یہ بندش اب دوسرے ہفتے میں داخل ہو چکی ہے۔

سونے کو ایک محفوظ سرمایہ کاری کے طور پر جانا جاتا ہے، جس کی قیمت مالیاتی بحران یا معاشی گراوٹ کے دوران کم ہونے کے بجائے برقرار رہنے یا بڑھنے کی توقع کی جاتی ہے۔

بدھ کی دوپہر ایشیا میں سونے کی سپاٹ قیمت یعنی فوری ترسیل کے لیے مارکیٹ میں اس کی اصل قیمت 4,034 امریکی ڈالر فی اونس سے تجاوز کر گئی۔

سونے کے فیوچرز یعنی مستقبل میں طے شدہ قیمت پر خرید و فروخت کے معاہدے 7 اکتوبر کو اسی سطح پر پہنچ چکے تھے۔ یہ فیوچرز سرمایہ کاروں کے رجحان کی نشاندہی کرتے ہیں۔

سنگاپور کے بینک او سی بی سی کے ماہر کرسٹوفر وونگ کے مطابق امریکہ کی حکومتی بندش سونے کی قیمتوں میں اضافے کی ایک وجہ ہے۔

ماضی میں بھی جب امریکہ میں حکومت بند ہوئی تھی، سرمایہ کاروں نے سونے جیسے محفوظ اثاثوں کی طرف رجوع کیا تھا۔ ٹرمپ کے پہلے دور حکومت میں ایک ماہ کی بندش کے دوران سونے کی قیمت میں تقریباً 4 فیصد اضافہ ہوا تھا۔

تاہم کرسٹوفر وونگ کا کہنا ہے کہ اگر یہ بندش توقع سے پہلے ختم ہو جائے تو سونے کی قیمتوں میں کمی آ سکتی ہے۔

یو او بی بینک کے ماہر ہینگ کون ہاؤ کے مطابق ’گذشتہ ماہ سونے کی قیمتوں میں جو غیر معمولی اضافہ ہوا ہے، وہ تجزیہ کاروں کی توقعات سے کہیں زیادہ ہے۔‘

ان کے مطابق اس اضافے کی ایک وجہ امریکی ڈالر کی قدر میں کمی اور عام سرمایہ کاروں (جنھیں ریٹیل انویسٹرز کہا جاتا ہے) کی بڑھتی ہوئی دلچسپی بھی ہے۔

ہر کوئی سونا خرید کر اس کے سکے یا بسکٹ نہیں رکھتا۔ کچھ سرمایہ کار مالیاتی مصنوعات جیسے کہ گولڈ ای ٹی ایف (ایکسچینج-ٹریڈ فنڈز، ای ٹی ایف) میں سرمایہ کاری کرتے ہیں، جن کے پس پشت سونا ہوتا ہے۔

ورلڈ گولڈ کونسل کے مطابق رواں سال اب تک سونے کے ای ٹی ایف میں ریکارڈ 64 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہو چکی ہے۔

قیمتی دھاتوں کے ڈیلر اور سٹوریج فراہم کرنے والی کمپنی سلور بلین کے بانی گریگر گریگرسن کے مطابق گذشتہ ایک سال میں ان کے صارفین کی تعداد دگنی سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔

سرمایہ کار اکثر اپنے سونے کو اس بینک میں رکھتے ہیں جو انھیں محفوظ سٹوریج فراہم کرتے ہیں
Getty Images
سرمایہ کار اکثر اپنے سونے کو اس بینک میں رکھتے ہیں جو انھیں محفوظ سٹوریج فراہم کرتے ہیں

ان کا کہنا ہے کہ ’عالمی معیشت کی غیر یقینی صورت حال کو دیکھتے ہوئے بہت سے سرمایہ کار، بینک اور امیر خاندان اب سونے کو ایک محفوظ سرمایہ کاری سمجھ رہے ہیں۔‘

گریگرسن کے مطابق ’ہمارے زیادہ تر صارفین طویل عرصہ تک سونا اپنے پاس رکھتے ہیں۔‘ انھوں نے وضاحت کی کہ ان کے صارفین کی اکثریت چار سال سے زیادہ عرصہ تک سونا محفوظ رکھتے ہیں۔

لیکن کیا سونے کی قیمت میں اضافہ ہوتا رہے گا؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب لوگ جاننا چاہتے ہیں۔

گریگرسن کہتے ہیں کہ ’کسی نہ کسی وقت پر سونے کی قیمت میں گراوٹ ہو گی لیکن میرا ماننا ہے کہ موجودہ معاشی منظر نامے میں کم از کم اگلے پانچ سال تک کے لیے سونے کی قیمتوں میں اضافے کا رجحان برقرار رہنے کی امید ہے۔‘

جیسا کہ انھوں نے کہا سونے کی قیمت میں اضافے کے ساتھ ساتھ کمی بھی واقع ہوتی رہتی ہے۔ او سی بی سی سے تعلق رکھنے والے مسٹر وونگ کا کہنا ہے کہ ’سونے کی قیمت میں عام طور پر اس وقت کمی ہوتی ہے جب شرح سود میں کمی کی جائے یا پھر بین الاقوامی تنازعات یا سیاسی غیر یقینی میں کمی ہو۔‘

مثال کے طور پر اپریل میں اس وقت سونے کی قیمت میں چھ فیصد تک کمی ہوئی تھی جب ٹرمپ نے جیروم پاول کو ہٹانے کے فیصلے کو ترک کر دیا تھا۔

مسٹر وونگ کا کہنا ہے کہ سونے کو عام طور پر غیر یقینی کے خلاف تحفظ سمجھا جاتا ہے لیکن یہ نقصان بھی دے سکتا ہے۔

یو او بی کے مسٹر ہینگ کا کہنا ہے کہ 2022 میں ایسا ہی ہوا تھا جب سونے کی قیمت فی اونس عالمی منڈی میں دو ہزار ڈالر سے کم ہو کر 1600 ڈالر پر آ گئی تھی جب امریکی مرکزی بینک نے شرح سود کو بڑھا کر افراط زر پر قابو پانے کی کوشش کی جو کورونا کی وبا کے بعد شروع ہوئی تھی۔

ان کے مطابق سونے کی قیمت میں اضافے کے رجحان کو درپیش ایک خطرہ موجودہ وقت میں بھی مہنگائی کی شرح میں اچانک اضافہ ہو سکتا ہے جس کے باعث امریکی بینک شرح سود کو بڑھانے پر مجبور ہو سکتا ہے۔

مسٹر وونگ کے مطابق فی الحال یہ توقع کی جا رہی ہے کہ شرح سود میں کمی کی جائے گی اور اگر ایسا ہوتا ہے تو سونے کی جانب زیادہ لوگ راغب ہوں گے۔

واضح رہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے مرکزی بینک پر دباؤ بڑھا رکھا ہے اور انھوں نے تنقید کی ہے کہ شرح سود کو زیادہ تیزی سے کم نہیں کیا جا رہا۔ انھوں نے گورنر لیزا کک کو بھی ہٹانے کی کوشش کی تھی۔

مسٹر وونگ کا کہنا ہے کہ امریکی صدر کی جانب سے مرکزی بینک کو تنقید کا نشانہ بنانے سے اس بینک پر اعتماد میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔

ایسے ماحول میں سونے میں دلچسپی اور اس کا غیر یقینی معاشی صورت حال میں کردار اور اہم ہو سکتا ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US