کوئٹہ: لاشوں کی حوالگی کے لیے رقم لینے کا معاملہ، فلاحی تنظیم کا رضاکار ذمہ دار قرار

image
کوئٹہ میں ایک خودکش بم دھماکے میں مرنے والے باپ بیٹے کی لاشوں کے بدلے لواحقین سے پیسے لینے کے تنازعے نے نئے سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ حکومت نے واقعے کا ذمہ دار فلاحی تنظیم کے رضاکار کو قرار دے دیا۔

فلاحی تنظیم نے رضاکار کو ملازمت سے فارغ کردیا ہے جبکہ رضاکار کا کہنا ہے کہ وہ بے قصور ہیں اور حکومتی کمزوریوں کی سزا انہیں دی گئی ہے۔

30 ستمبر کو کوئٹہ کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں ایف سی ہیڈکوارٹرز پر خودکش حملے میں 11 افراد جان سے گئے تھے۔ ان میں ایک غریب گھرانے کے راہ گیر حاجی نور محمد اور ان کے 21 سال کے بیٹے صابر خان بھی شامل تھے۔ 

ان کے بھائی نیاز محمد بڑیچ اور رشتہ دار محمد ظریف بڑیچ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ انہیں اپنے پیاروں کی لاشوں کی حوالگی کے بدلے سول ہسپتال میں 16 ہزار روپے لیے گئے۔ رقم  نہ ہونے کی وجہ سے انہیں رشتہ داروں سے چندہ کر کے بندوبست کرنا پڑا۔‘

لواحقین کی اس شکایت پر صوبائی وزیر صحت نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ سول ہسپتال کوئٹہ کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر عبدالہادی کاکڑ نے منگل کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ ’لواحقین کی شکایت پر قائم انکوائری کمیٹی نے تحقیقات مکمل کر لی ہیں۔‘

ان کے مطابق ’لواحقین کو بلا کر ان کے سامنے ہسپتال کے عملے، پولیس اور ریسکیو اہلکاروں کی شناخت پریڈ کرائی گئی۔ اس دوران یہ بات ثابت ہوئی کہ رقم واقعی لی گئی، تاہم یہ کام ہسپتال یا پولیس کے کسی ملازم نے نہیں بلکہ ایک نجی فلاحی تنظیم کے رضاکار نے کیا۔

ڈاکٹر عبدالہادی کا کہنا تھا کہ ’متعلقہ رضاکار کے خلاف اس کی تنظیم کو شکایت بھیج دی گئی ہے جبکہ سول ہسپتال میں اس فلاحی ادارے کی سرگرمیاں معطل کر کے ان کا کاؤنٹر ختم کردیا گیا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’اب نئے ایس او پیز کے بغیر انہیں دوبارہ کام کی اجازت نہیں دی جائے گی تاکہ مستقبل میں ایسا واقعہ دوبارہ پیش نہ آئے۔‘

ایم ایس کے مطابق ’حکومت نے میتوں کے لیے تابوت اور ایمبولینسز کا انتظام سرکاری اخراجات پر کیا تھا۔‘

دوسری جانب فلاحی تنظیم کے ترجمان نے کراچی سے ٹیلی فون پر گفتگو میں بتایا کہ ’متعلقہ رضاکار اس وقت ڈیوٹی پر نہیں تھا اور تنظیم کو اطلاع دیے بغیر ہسپتال پہنچا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’رضاکار کے اس اقدام سے تنظیم کی ساکھ کو نقصان پہنچا اور اسی لیے اسے ملازمت سے برطرف کردیا گیا ہے۔‘

ترجمان کے مطابق ’تنظیم ملک بھر میں سانحات اور آفات کے دوران مفت ایمبولینس اور تجہیز و تکفین کی خدمات فراہم کرتی ہے جبکہ عام دنوں میں بھی انتہائی کم قیمت پر مریضوں کی منتقلی کی سہولت دیتی ہے۔‘

تاہم الزام کی زد میں آنے والے رضاکار محمد عارف نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ گذشتہ 20 برس سے سول ہسپتال میں لاشوں کی تجہیز و تکفین کا کام رضاکارانہ طور پر انجام دیتے آرہے ہیں۔‘

ان کے بقول ’ہسپتال میں لاوارث لاشیں اکثر کئی روز تک پڑی رہتی ہیں اور حالت خراب ہو جاتی ہے۔ دھماکوں میں مرنے والوں کی لاشیں بھی زیادہ تر سلامت نہیں ہوتیں جن کے قریب جانے سے عملہ بھی کتراتا ہے۔‘

’ہسپتال کی ساری انتظامیہ جانتی ہے کہ یہ مشکل کام میرے علاوہ کوئی نہیں کرتا اس لیے ایسے مواقع پر انتظامیہ خود مجھے بلاتی ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’دھماکے والے دن وہ ڈیوٹی ختم کر کے گھر جا چکے تھے لیکن رات گئے ہسپتال سے فون کر کے بلایا گیا تاکہ شناخت شدہ باپ بیٹے کی میتوں کو صاف اور کفن وغیرہ دے کر لواحقین کے حوالے کیا جا سکے۔

محمد عارف کے مطابق ’دھماکے کے روز حکومت کی جانب سے پانچ تابوت دیے گئے تھے جبکہ اموات اس سے زیادہ تھیں اور پانچوں تابوت دن میں ہی استعمال ہوگئے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’جب وہ رات گئے ہسپتال پہنچے تو اس وقت ہسپتال اور فلاحی تنظیم دونوں کے پاس تابوت موجود نہیں تھے اس لیے تابوت اور کفن کا سامان بازار سے خریدا۔‘

’میری تنخواہ صرف دس ہزار روپے ہے، میں چھ چھ ہزار روپے کے دو تابوت اور تین تین ہزار روپے کے دو کفن، پانچ  پانچ سو روپے کے دو پلاسٹک کور خود نہیں خرید سکتا اس لیے لواحقین سے اخراجات لیے۔‘

محمد عارف کا کہنا تھا کہ ’یہ حکومت کی ذمہ داری تھی کہ وہ تابوت وغیرہ کا انتظام کرتی مگر اپنی ناکامی کا بوجھ فلاحی تنظیم اور مجھ پر ڈال دیا گیا۔‘

ان کے مطابق ’فلاحی تنظیم لاوارث لاشوں کی تجہیز و تکفین تو مفت کرتی ہے لیکن اس عمل میں کئی دن لگ جاتے ہیں اور بعض اوقات لاشیں خراب بھی ہو جاتی ہیں۔‘

محمد عارف نے بتایا کہ ’حکومت شاذونادر ہی تابوت اور کفن فراہم کرتی ہے، اسی لیے جن میتوں کے ورثا موجود ہوں ان سے اخراجات لے کر فوری بندوبست کیا جاتا ہے۔‘

’ہسپتال کی انتظامیہ کو اس بات کا علم ہے کہ اس طریقے کار کے تحت کام ہوتا ہے اور زیادہ واقعات میں لواحقین نے خود ہی اخراجات ادا کیے، لیکن اس واقعے میں چونکہ حکومت پر دباؤ آگیا اس نے ہماری رضاکارانہ خدمات کا پاس بھی نہیں رکھا اور سارے الزامات ہمارے سر ڈال دیے۔‘

متاثرہ خاندان سے تعلق رکھنے والے محمد ظریف بڑیچ نے بتایا کہ ’ابتدا میں ہمیں یہی لگا کہ رقم ہسپتال کے کسی اہلکار نے لی ہے، تاہم بعد میں معلوم ہوا کہ یہ رقم فلاحی تنظیم کے ایک رضاکار نے تابوت کے اخراجات کے لیے لی تھی۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہم تحقیقات سے مطمئن ہیں مگر شکوہ یہ ہے کہ لاشوں کی حوالگی کے وقت کوئی ذمہ دار سرکاری شخص کیوں موجود نہیں تھا؟‘

’کیا حکومت کی یہ ذمہ داری نہیں کہ ایسے سانحات میں متاثرین کی فوری اور باعزت مدد یقینی بنائے؟ اگر اربوں روپے کے سرکاری فنڈز ایسے مواقع پر استعمال نہیں ہوتے تو پھر کہاں خرچ ہوتے ہیں؟‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہسپتال یا حکومت کے کسی ادارے کو چاہیے کہ لاشوں کی باعزت منتقلی اور تجہیز و تکفین  کا انتظام کسی فلاحی تنظیم  کے رحم و کرم پر چھوڑنے کے بجائے خود کرے تاکہ متاثرہ خاندانوں کے ساتھ ناانصافی نہ ہو۔‘

ظریف بڑیچ نے کہا کہ ’ہم نے آواز بھی اسی لے اٹھائی کہ آئندہ کسی کے ساتھ ایسا واقعہ پیش نہ آئے۔ ایسے مواقع پر لوگ صدمے اورغم میں ہوتے ہیں اور انہیں سہارے اور سہولت کی ضرورت ہوتی ہے نہ کہ ایسے رویوں کی جو ان کے زخموں کو مزید گہرا کر دیں۔‘

 


News Source   News Source Text

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US