پاکستان میں ہوائی سفر ایک لازمی حصہ بن چکا ہے اور اب تو کئی مقامی ائیرلائنز کی آمد نے مسابقت کا ماحول پیدا کر دیا ہے۔اندرون ملک اور بین الاقوامی پروازوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے ساتھ ہر سال لاکھوں مسافر آسمانوں کی طرف اڑان بھرتے ہیں مگر تاخیر، منسوخیوں، سامان کی گمشدگی یا حادثات جیسی مشکلات کا بھی انہیں مسلسل سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ایسے حالات میں آپ کے پاس قانونی حقوق موجود ہیں جو آپ کو مالی، جسمانی اور نفسیاتی نقصان سے بچا سکتے ہیں؟یہ حقوق نہ صرف آپ کی محنت کی کمائی کی حفاظت کرتے ہیں بلکہ ائیرلائنز کو بھی ذمہ دار بناتے ہیں۔ آج ہم پاکستان میں ہوائی مسافروں کے حقوق کی تفصیلات پر بات کریں گے، جو تین بنیادی قانونی ستونوں پر قائم ہیں۔ پہلا ستون ہے سول ایوی ایشن اتھارٹی کا قانون ’ہوائی نقل و حمل تحفظ صارف حکم‘ ہے جو 2002 میں جاری ہوا اور اس میں تاخیر یا منسوخی کی صورت میں مسافر کو کھانا، رہائش، متبادل پرواز یا مکمل رقم کی واپسی کی ضمانت دی گئی ہے۔یہ حکم خاص طور پر اندرون ملک پروازوں پر نافذ ہے اور ائیرلائنز کو مسافروں کی سہولت یقینی بنانے کا پابند کرتا ہے۔دوسرا ستون ’ہوائی نقل و حمل قانون 2012‘ ہے جس کے ذریعے پاکستان نے ’مونٹریال معاہدہ 1999‘ کو اپنایا۔ یہ معاہدہ تاخیر، سامان کے نقصان یا حادثاتی صورتوں میں ائیرلائنز کی مالی ذمہ داریوں کی حد مقرر کرتا ہے جو عالمی معیار پر مبنی ہے۔تیسرا ’پاکستان سول ایوی ایشن قانون 2023‘ ہے جو ریگولیٹر کو جرمانے، چارہ جوئی اور لائسنس کی معطلی جیسے سخت اقدامات کی اجازت دیتا ہے۔ یہ قانون نہ صرف مسافروں کے تحفظ کو مضبوط کرتا ہے بلکہ ائیرلائنز کی کارکردگی کو بھی بہتر بنانے پر زور دیتا ہے۔ان قوانین کی روشنی میں اگر آپ کی پرواز 2 سے 4 گھنٹے تاخیر کا شکار ہو تو ائیرلائن کو فوری طور پر کھانے پینے کی سہولت، مواصلاتی ذرائع (جیسے فون یا انٹرنیٹ) اور مناسب انتظار کی جگہ فراہم کرنا ہو گی۔پانچ گھنٹے سے زیادہ تاخیر کی صورت میں مسافر کو اختیار ہے کہ وہ پرواز منسوخ کر کے ٹکٹ کی مکمل رقم واپس لے لے بغیر کسی سوال کے۔ تاخیر یا منسوخی سے ہونے والا مالی نقصان جیسے ہوٹل کا خرچہ یا کاروباری نقصان۔ ’مونٹریال معاہدے‘ کی حدود کے تحت اس کا دعویٰ کیا جا سکتا ہے۔تازہ ترین اپ ڈیٹ کے مطابق یہ حد 6303 خصوصی ڈرائنگ رائٹس تک ہے جو موجودہ شرح تبادلہ پر تقریباً 8 لاکھ پاکستانی روپے بنتی ہے۔ ایک مثال کے طور پر لاہور سے کراچی کی پرواز میں تاخیر کی وجہ سے ایک کاروباری شخص کا میٹنگ کا نقصان ہوا تو وہ اسے عدالت میں ثابت کر کے معاوضہ حاصل کر سکتا ہے۔
بروقت آمد و رفت کی کیٹیگری میں ومی ایئرلائنز پی آئی اے تیسری پوزیشن پر ہے (فائل فوٹو: ایوی ایشن ویک)
یہ حقوق صرف کاغذوں تک محدود نہیں، ان کا اطلاق روزمرہ کی زندگی میں ہوتا ہے مگر زیادہ تر مسافر ان سے ناواقف ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ائیرلائنز ان کا فائدہ اٹھاتی ہیں۔ سی اے اے کی حالیہ رپورٹس بتاتی ہیں کہ 2024 میں ہزاروں شکایات درج ہوئیں مگر صرف 30 فیصد کا حل نکلا۔ اس لیے آگاہی ہی سب سے بڑا ہتھیار ہے۔
پاکستان کی ڈومیسٹک ایئرلائنز کی موجودہ رینکنگپاکستان میں دیگر قوانین کی طرح ’ہوائی مسافروں‘ کے تحفظ کے قوانین بھی موجود تو ہیں لیکن ان کا استعمال بھی شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔پاکستان ایئرپورٹس اتھارٹی نے حال ہی میں ایئرلائنز کی جنوری سے جون 2025 تک کی کارکردگی کی رینکنگ جاری کی ہے جو بروقت آمدوروفت اور پرواز منسوخیوں کی بنیاد پر تیار کی گئی۔اس ریکنگ میں اندرون ملک پروازوں کی کارکردگی کو ماپا گیا جو مسافروں کے لیے ایک اہم رہنما ہے۔بروقت آمدوروفت کی کیٹیگری میں ایئر سیال کا پہلا نمبر ہے جس کی کارکردگی 66.85 فیصد رہی۔ دوسرے نمبر پر 59.79 فیصد کے ساتھ فلائی جناح ہے جبکہ قومی ایئرلائنز پی آئی اے تیسری پوزیشن پر ہے اور اس کی ریکنگ 54.84 فیصد ہے۔اس کا مطلب ہے کہ ایئر سیال کی پروازیں سب سے کم تاخیر کا شکار ہوئیں۔اسی طرح پرواز منسوخیوں میں کمی کی کیٹیگری میں فلائی جناح سرفہرست ہے جس کی پرواز کی باقاعدگی 95.46 فیصد رہی۔ دوسرے نمبر پر ایئر سیال اور تیسرے پر پی آئی اے ہے۔
اگر ایئرلائن کارروائی نہ کرے تو پھر سول ایوی ایشن اتھارٹی کو شکایت درج کروائی جا سکتی ہے (فائل فوٹو: شٹرسٹاک)
یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ فلائی جناح نے منسوخیوں کو انتہائی کم رکھا جو مسافروں کو غیر یقینی صورتحال سے بچاتا ہے۔ اس رپورٹ سے واضح ہوتا ہے کہ نئی ائیرلائنز جیسے ایئر سیال اور فلائی جناح روایتی اداروں سے آگے نکل رہی ہیں جو صارف کے تحفظ کے لیے خوش آئند ہے۔
سامان گم ہو جائے یا تاخیر سے ملے تو کیا کرنا چاہیے؟ہوائی سفر کا ایک بڑا چیلنج سامان کی گمشدگی یا تاخیر ہے۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی کے اعداد و شمار کے مطابق 2024 میں ہزاروں بیگ گم ہوئے جن میں سے 20 فیصد مستقل طور پر واپس نہ آ سکے۔تاہم اس وقت رائج قوانین کے مطابق بین الاقوامی پروازوں میں اگر سامان خراب ہو جائے تو سات دن کے اندر اور تاخیر سے ملنے پر 21 دن کے اندر شکایت درج کرنا ہوتی ہے۔ اگر سامان مکمل طور پر لاپتا ہو تو دو سال کے اندر عدالت میں مقدمہ دائر کیا جا سکتا ہے۔ ایئرلائن کی ذمہ داری کی مالی حد فی مسافر 1519 خصوصی ڈرائنگ رائٹس ہے جو تقریباً 2 لاکھ روپے بنتی ہے۔اندرون ملک پروازوں میں معاملہ قدرے مختلف ہے۔ یہاں نقصان کی شرح عموماً سامان کے وزن کے حساب سے طے ہوتی ہے یعنی فی کلو گرام 17 خصوصی ڈرائنگ رائٹس۔ ایئرپورٹ پر فوری طور پر پروپرٹی ارگولرٹی رپورٹ فارم (پی آئی آر فارم) بھرنا ضروری ہے جو آپ کا قانونی دستاویزی ثبوت بن جاتا ہے۔اگر ایئرلائن فوری کارروائی نہ کرے تو پھر سول ایوی ایشن اتھارٹی کی ویب سائٹ پر آن لائن شکایت درج کروائی جا سکتی ہے۔ اسی طرح اگر کسی مسافر نے سامان کی ویلیو کی انشورنس کروائی ہے تو وہ دوہری حفاظت کے زمرے میں آئے گا۔
پاکستان سول ایوی ایشن قانون 2023 کے تحت ایک خود مختار ’ہوائی حفاظت تحقیقات بورڈ‘ قائم کیا گیا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
حادثے کی صورت میں یا زخمی ہونے پر ایئرلائن کتنی ذمہ دار ہے؟
فضائی حادثات کی بات کریں تو یہ سب سے سنگین صورتحال ہے مگر پاکستان میں قوانین اسے خودکار ذمہ داری (سٹرکٹ لائبیلیٹی) کا درجہ دیتے ہیں۔ یعنی اگر حادثہ جہاز پر سوار ہونے، پرواز کے دوران یا لینڈنگ کے وقت ہو تو ایئرلائن کو بغیر کسی ثبوت کے ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے اور ہرجانے کی حد تقریباً ایک لاکھ 51 ہزار 880 خصوصی ڈرائنگ رائٹس تک ہے جو 2 کروڑ روپے سے زائد بن سکتی ہے۔اس حد سے آگے جانے کے لیے متاثرہ فریق کو ثابت کرنا ہو گا کہ حادثہ ایئرلائن کی غفلت سے ہوا جیسے دیکھ بھال کی کمی یا عملے کی غلطی۔پاکستان سول ایوی ایشن قانون 2023 کے تحت ایک خود مختار ’ہوائی حفاظت تحقیقات بورڈ‘ قائم کیا گیا ہے جو حادثات کی غیر جانب دارانہ تفتیش کرتا ہے۔ اس بورڈ کی رپورٹس عدالتوں میں کلیدی ثبوت بنتی ہیں۔ مثال کے طور پر سنہ 2020 کے کراچی حادثے میں متاثرین کو معاوضہ دینے کا حکم دیا گیا جو مونٹریال معاہدے کی بنیاد پر تھا۔زخمی ہونے کی صورت میں طبی اخراجات، نقصان شدہ آمدنی اور نفسیاتی تکلیف کا دعویٰ بھی ممکن ہے۔یورپ اور پاکستان: صارفین کے تحفظ میں زمین آسمان کا فرقعالمی سطح پر دیکھیں تو یورپ کے ’یورپی یونین 261 ضابطہ‘ کو مسافروں کے حقوق کا سنہری معیار سمجھا جاتا ہے۔ اس کے تحت اگر پرواز تین گھنٹے سے زیادہ تاخیر کرے تو مسافر کو ’250 سے 600 یورو‘ تک فوری معاوضہ مل جاتا ہے، بغیر کسی شرط کے۔یہ ضابطہ تمام یورپ سے باہر والی ہوائی کمپنیوں کو بھی مجبور کرتا ہے کہ وہ تاخیر پر 600 یورو ادا کریں چاہے وجہ موسم ہو یا تکنیکی خرابی۔ یورپ میں شکایات کا حل 90 فیصد کیسز میں 30 دنوں میں نکل جاتا ہے جبکہ پاکستان میں اس عمل میں مہینوں لگ سکتے ہیں۔
یورپ کے ’یورپی یونین 261 ضابطہ‘ کو مسافروں کے حقوق کا سنہری معیار سمجھا جاتا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں ایسا فلیٹ معاوضہ نظام نہیں یہاں صرف سہولیات، ریفنڈ یا متبادل پرواز کی ضمانت ہے۔ نقد معاوضہ تب ملتا ہے جب مسافر کو ’سوار ہونے سے انکار‘ (ڈینائیڈ بورڈنگ) کا سامنا ہو جس میں ٹکٹ کے 50 فیصد کرایہ ادا کرنا پڑتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق یورپی قوانین کی وجہ سے ایئرلائنز کی تاخیر 20 فیصد کم ہوئی ہے جبکہ پاکستان میں یہ شرح ابھی 40 فیصد سے زائد ہے۔ فرق نفاذ میں ہے۔ یورپ میں جرمانے لاکھوں یورو تک ہوتے ہیں جبکہ پاکستان میں سول ایوی ایشن اتھارٹی نے 2024 میں صرف چند ملین روپے کے جرمانے کیے۔ایئرلائنز کو کیا سزائیں ہو سکتی ہیں؟حقوق کی خلاف ورزی کی صورت میں خاموشی درست راستہ نہیں ہے۔ سب سے پہلے ایئرلائن کے کسٹمر سروس ڈیسک پر تحریری شکایت درج کریں۔ اگر حل نہ ملے تو ’سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ڈائریکٹر ہوائی نقل و حمل‘ کے دفتر میں آن لائن یا تحریری طور پر رابطہ کریں۔ سول ایوی ایشن انکوائری شروع کرتی ہے اور 60 دنوں میں فیصلہ سناتی ہے۔ ماضی میں تاخیر اور سروس کی خلاف ورزیوں پر ایئرلائنز کو لاکھوں روپے کے جرمانے ہوئے جیسے 2023 میں پی آئی اے کو 50 لاکھ روپے کا جرمانہ بھی کیا گیا۔اسی طرح ایسی کئی مثالیں بھی موجود ہیں کہ مسافروں براہ راست عدالتوں میں کیس دائر کیے اور عدالتوں نے سول ایوی ایشن کے ذریعے ایئرلائنز سے ادائیگی کو یقینی بنایا۔