گنڈا پور کی وہ کہانی جو انہیں لے ڈوبی، اجمل جامی کا کالم

image
کہانی ہے دراز زلفوں اور دبنگ مونچھوں والے گرج دار گنڈا پور کی، وہی گنڈا پور جنہیں گیارہ اضلاع کی پولیس بھی نہ پکڑ سکی، وہی جو اپنے مشہور نعروں اور دعووں کی وجہ سے ہمیشہ خبروں میں رہے۔

وہی جنہیں اصلی اور خالص شہد سے خاص رغبت ہے۔ ان کی پارٹی کے لیے آنیاں جانیاں ہوں یا دبنگ اندازِ سیاست، کھلے عام دھمکیاں ہوں یا خطرناک بیانیے کا بوجھ اُٹھانے پر ملکہ، کپتان کی قربت ہو یا ان کے اہل خانہ کا آشیر باد۔

وہی جو اَن گنت جملہ خصوصیات کے کارن تمام صفیں کراس کرتے ہوئے 2024 کے چناؤ کے بعد خیبر پختونخوا کی وزارتِ اعلی کے لیے کپتان کی فرسٹ چوائس ٹھہرے۔

انہیں مان ہو گیا کہ کپتان ان پر گہرا عتماد کرتے ہیں۔ پارٹی رینکس اینڈ فائل میں جلد ہی گنڈا پور کی دھاک بیٹھنے لگ گئی۔ گنڈا پور کی پہنچ بھی دور تک ہو نکلی تھی۔ رابطے اور دعوے ان کی شناخت بنتے چلے گئے۔ ضابطے کب ٹوٹے اسی کا دھیان ہی نہ رہا۔

اڈیالہ رام کیا تو اڈیالہ کی قربت والی جگہوں کو رام کرنا اگلا مشن ہوتا تھا، وہاں سے اُٹھے تو کابینہ اور پارٹی عہدیداران کو شانت کرنا، اگلے ہی لمحے پشاور کی عسکری پہچان تک باہمی ربط کو یقینی بنانا اور پھر بذریعہ نقوی سرکار وفاق کے ساتھ سمبندھ کو قائم  و دائم رکھنا صرف گنڈا پور کا ہی کمال تھا۔

آپ ان سے لاکھ اختلاف کیجیے لیکن وہ اس ہیوی ڈیوٹی میں کچھ عرصہ تو واقعی کامیاب رہے۔ مسئلہ تب ہونا شروع ہوا جب تمام گھروں کے سامنے کیے گئے دعوے اور وعدے ایفا ہونے میں کسر نظر آنے لگی۔

ظاہر ہے شمال کے ساتھ ساتھ بیک وقت جنوب کو اسی سمت میں لا کھڑا کرنا تو ممکن نہیں لہذا کہانیاں تراشی گئیں۔ کہانی کا سکرپٹ جا بجا اُلجھتا رہا۔

اُلجھن پڑی تو مشورے بھی اُلجھ گئے کہ دل کسی ایک جگہ تھوڑی اٹکا تھا۔ جہاں جہاں اس کا ٹھکانہ تو وہاں وہاں سے مشورہ بھی الگ الگ ہی تھا۔ ایسے میں سب گھر رام کرنے کی تمام کوششیں آہستہ آہستہ اپنا نقش کھوتی چلی گئیں۔

علی امین گنڈا پور 2024 کے چناؤ کے بعد خیبر پختونخوا کی وزارتِ اعلی کے لیے کپتان کی فرسٹ چوائس ٹھہرے (فوٹو: اے ایف پی)

فیصلہ تو چند ہفتے قبل ہی ہو چکا تھا۔ وجہ سادہ سی تھی۔ کپتان نے گیئر بدل لیا تھا۔ فاسٹ موشن حرکت میں تھی۔ بیانیہ تند و تیز ہوتا چلا جا رہا تھا۔ مقتدرہ کے ساتھ گنڈا پور کا ربط اور اس کے نتیجے میں پیش رفت بھی مطلوبہ نتائج دینے سے قاصر ہو رہی تھی۔ بارہ مصالحوں پر مبنی فاسٹ موشن بیانیہ ایسا تھا کہ حاضر سروس وزیراعلیٰ اس کا بوجھ اٹھانے سے چاہتے ہوئے بھی ناکام ہو رہے تھے۔

مسئلہ چاہے افغانستان بارے میں کپتان کی اپروچ کا ہو، صوبے میں امن و امان پر رائے کا ہو یا مقبول بیانیے کا بوجھ اٹھانے کا۔ دھرنوں، جلسوں اور اعلانات  سے متاثرہ ورکر سپورٹر آہستہ آہستہ گنڈا پور کی زلفوں کا اسیر ہونے سے انکاری ہوتا جا رہا تھا۔

اڈیالہ میں بیٹھا کپتان بخوبی جانتا تھا کہ اس کی اصل طاقت اس کے ورکرز ہیں، انہیں مسلسل نااُمید اور ناراض رکھنا مشکل تھا۔ رہی سہی کسر ہمشیرہ علیمہ بی بی پر گنڈا پور کے تازہ حملوں نے پوری کر دی۔ گنڈا پور کو یقین تھا کہ اصل ٹھکانوں پر ربط کا واحد ذریعہ اور لیڈر کے اہل خانہ کا اعتماد ہوتے ہوئے انہیں ہٹانا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہوگا۔ مگر ایسا نہ ہوا۔

قائمہ کمیٹیوں سے استعفے ہوں یا مستقبل میں اجلاسوں کے بائیکاٹ کا منصوبہ، سوشل میڈیا پر تیز دھار بیانیہ ہو یا پھر رابطوں سے انکار، ڈٰیل کے تاثر کو زائل کرنا ہو یا پھر یہ اعلان کہ ’جس نے بات کرنا ہو اب جیل آ کر خود بات کرے‘۔ یہ سب اس بات کا ثبوت تھا کہ کپتان گیئر بدل چکا۔

امریکہ سے آئے چند ٹویٹس اور کچھ کاوشیں بھی ثمر آور نہ ہو پائیں لہذا ایسے میں فاسٹ موشن گیئر ہی کپتان کا ہتھیار تھا۔ گنڈا پور اس موشن کی تبدیلی کو سمجھ کر بھی اس کے ساتھ ہم قدم نہ ہو پائے۔

علی امین گنڈا پور کی پہنچ بھی دور تک ہو نکلی تھی، رابطے اور دعوے ان کی شناخت بنتے چلے گئے (فوٹو: اے پی پی)

پشاور جلسہ ہوا تو وہاں انتظامات کی رپورٹ تک پر کپتان برہم تھا۔ کارکنان نے تقریر کے دوران جوتے لہرائے۔ معلوم ہوا کہ پارٹی کے ورکر کی نبض اڈیالہ کے بیانیے کے ساتھ ہے لہذا اب گنڈا پور کی آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل سیریز کا سکرپٹ فلاپ ہو رہا ہے۔

گنڈا پور کہانی میں کوئی نیا ٹوئسٹ یا نیا پلاٹ متعارف کروانے میں دیر کر گئے اور پھر رات گئے اختری بائی فیض آبادی یاد آئیں یعنی بیگم اختر، یعنی وہی لازوال آواز جنہیں ٹھمری، دادڑا ، غزل اور مرثیے کی بے تاج ملکہ کہا جاتا ہے۔ وہی بیگم اختر جن کا انداز نفیس نپا تلا مگر انتہائی درد بھرا تھا، وہی جنہوں نے بھلے وقتوں میں شکیل بدایوانی کی ایک غزل کو گا کر امر کر دیا۔ وہی جنہوں نے صدا دیتے ہوئے کہا کہ؛

کبھی تقدیر کا ماتم کبھی دنیا کا گلہ

منزلِ عشق  میں ہر گام پہ رونا آیا

رہ گئی بات نئی نامزدگی یعنی سہیل خان آفریدی کی تو سمجھ لیجیے کہ  ملکی سیاست  میں سردیوں کی آمد کے باوجود درجہ حرارت بڑھے گا، تحریک انصاف کی سیاست دوسرے گیئر سے سیدھی پانچویں  گیئر میں داخل ہو رہی ہے۔

گیئر پانچواں ہو اورسپیڈ مقررہ حد تجاوز کر جائے تو تصادم یا حادثہ بہرحال ایک خدشے کی صورت میں برقرار رہتا ہے۔ معاملہ فہمی خواب ہوئی۔

 


News Source   News Source Text

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US