’اتحادی ہیں، غلام نہیں‘ کا نعرہ اور پی ٹی آئی کا تحریکِ عدم اعتماد لانے کا مشورہ: کیا حکمران اتحاد کو واقعی کوئی خطرہ ہے؟

کیا پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان سیاسی جھگڑا محض پوائنٹ سکورنگ کی حد تک ہے یہ واقعی اس کے تناظر میں وفاق میں حکمران اتحاد کے مستقبل کو کوئی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے؟
تصویر
Getty Images
کیا یہ سیاسی جھگڑا محض پوائنٹ سکورنگ کی حد تک ہے یا اس کے تناظر میں وفاق میں حکمران اتحاد کے مستقبل کو کوئی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے؟

پاکستان کی سیاست میں ایک طویل وقفے کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان ایک بار پھر صوبائیت جیسے موضوع پر تلخ بیانات اور ’اُنگلی توڑنے‘ جیسے تند و تیز جملوں کے بعد جو تناؤ اور کشیدگی کی صورتحال پیدا ہوئی ہے، اُسے کم کرنے کے لیے کوششیں تیز ہو گئی ہیں۔

وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت پر گذشتہ شب وفاقی حکومت کا وفد صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کے لیے اسلام آباد سے نواب شاہ پہنچا۔ اس حکومتی وفد کی قیادت نائب وزیرِ خارج اسحاق ڈار کر رہے تھے اور وزیر داخلہ محسن نقوی بھی اُن کے ساتھ تھے۔ ایوان صدر کا کہنا ہے کہ اس ملاقات میں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں پر بات کی گئی اور پاکستان میں سیاسی اور سکیورٹی کی صورتحال کا بھی جائزہ لیا گیا۔

چند روز قبل صدر آصف علی زرداری نے وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کو کراچی طلب کیا اور اطلاعات کے مطابق اُنھیں دونوں جماعتوں کے مابین کشیدگی کم کرنے کا کام سونپا گیا۔ اسی دوران وزیراعظم شہباز شریف نے لاہور میں مسلم لیگ نواز کے صدر نواز شریف سے بھی تفصیلی ملاقات کی ہے۔ اگرچہان دونوں ملاقاتوں کی تفصیلات تو میڈیا کو جاری نہیں کی گئی ہیں لیکن سیاسی تجزیہ کار اور مبصرین انھیں حالیہ سیاسی کشیدگی کے تناظر میں ہی دیکھ رہے ہیں۔

لیکن یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ یہ لڑائی کیسے اور کیونکر شروع ہوئی؟

ن لیگ اور پیپلز پارٹی کا جھگڑا کیا ہے؟

دونوں بڑی جماعتوں کے رہنماؤں کے درمیان اِس حالیہ تلخی کا آغاز پنجاب میں سیلاب متاثرین کی امداد کے لیے عالمی امداد کی اپیل کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کے مطالبے سے ہوا جو سیاسی مبصرین کے مطابق اب بڑھتے بڑھتے پنجاب اور سندھ کی لڑائی میں بدلتی نظر آ رہی ہے۔

پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز نے اِسی تناظر میں حالیہ عرصے میں بہت سے ایسے بیانات دیے ہیں جو پیپلز پارٹی کو ناصرف کافی ناگوار گزرے ہیں بلکہ اس پر اُن سے ’معافی‘ کا مطالبہ بھی کیا گیا، جسے انھوں نے رد کیا۔

ایسے میں سندھ کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کا دعویٰ ہے کہ مریم نواز کی تنقید کا محور درحقیقت سندھ حکومت نہیں بلکہ وفاق میں شہباز شریف کی حکومت ہے اور یہ کہ وہ شہباز شریف کی وفاقی حکومت کو ’کمزور کرنے کی سوچی سمجھی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔‘

ایسے میں پاکستان تحریک انصاف نے پیپلز پارٹی کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اس معاملے پر بیان بازی سے ایک قدم آگے بڑھیں اور وفاق میں ’وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائیں۔‘ ایسا کرنے کی صورت میں پی ٹی آئی نے پیپلز پارٹی کو اپنی سپورٹ کا یقین بھی دلایا ہے۔

ایسے میں یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا یہ سیاسی جھگڑا محض پوائنٹ سکورنگ کی حد تک ہے اور کیا واقعی اس کے تناظر میں وفاق میں حکمران اتحاد کے مستقبل کو کوئی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے؟

دونوں جماعتوں سے تعلق رکھنے والی سینیئر سیاست دان اور سیاسی مبصرین اس صورتحال کو ملک میں سیاسی استحکام کے لیے منفی ضرور قرار دے رہے ہیں لیکن اُن کے خیال میں یہ معاملہ مستقبل میں حکمران اتحاد کے لیے خطرہ نہیں ہے۔

جنوبی پنجاب اور سیاسی کشیدگی

پیپلز پارٹی
Getty Images
قمر زمان کائرہ: ’حکومتی اتحاد میں جب دراڑ پرتی ہے تو اپوزیشن جماعتیں اسے ہوا دیتی ہیں اور تحریک انصاف بھی یہی کر رہی ہے‘

اگر اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں صوبہ پنجاب کے جنوبی اضلاع میں مسلم لیگ نواز کا ووٹ بینک پنجاب کے دیگر اضلاع کے مقابلے میں کچھ کم ہے اور ماضی میں پاکستان پیپلز پارٹی یہاں سے الیکشن میں کامیاب ہوتی رہی ہے۔

حالیہ تنازع کی ابتدا بھی جنوبی پنجاب سے اُس وقت ہوئی جب پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے جنوبی پنجاب کا دورہ کیا اور سیلاب زدہ عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے پنجاب حکومت کو کچھ مشورے دیے۔

تاہم وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے اس نوعیت کے مشوروں کو ’سیلاب پر سیاست‘ کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما قمر الزمان کائرہ کا کہنا ہے کہ ’مریم نواز پنجاب کی وزیراعلیٰ ضرور ہیں لیکن انھیں سمجھنا ہو گا کہ پنجاب میں اور بھی سیاسی جماعتیں موجود ہیں اور اُن کا بھی یہاں ووٹ بینک ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’بلاول نے بحیثیت سیاسی جماعت کے رہنما کے پنجاب کو کچھ مشورے دیے مگر مریم نواز نے اس کا جواب تند و تیز جملوں سے دیا اور سندھ پر الزام تراشی شروع کر دی۔‘

انھوں نے الزام عائد کیا کہ ’مریم نواز سیاسی حمایت یا مقبولیت کے مطلوبہ نتائج نہ ملنے کے سبب اب صوبائیت پر بات کر رہی ہیں۔‘ انھوں نے اس صورتحال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے ملکی سیاست میں اتحاد اور استحکام کے لیے ’منفی‘ قرار دیا ہے تاہم اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’تلخی اگر لہجے اور جملے کے بعد تعلقات تک پہنچ جائے تو پھر یہ مستقبل میں کوئی بھی شکل اختیار کر سکتی ہے۔‘

دوسری جانب وزیراعظم کے خصوصی مشیر برائے پارلیمانی اُمور رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کا جنوبی پنجاب کے حوالے سے جو رویہ رہا ہے وہ سب کو معلوم ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ’پیپلز پارٹی کے جنوبی پنجاب کے بارے میں جو معاملات ہیں، اُنھیں ہم بہتر سمجھتے ہیں۔ جب پنجاب کو پانی چوری کا طعنہ دیا جاتا ہے، جب یہ کہا جاتا ہے کہ پانی کہاں ہے جو نہریں نکالی جائیں اور پھر سیلاب پورے پنجاب کو ڈبو دیتا ہے، تو جواب تو دینا پڑے گا۔‘

رانا ثنا اللہ کا مزید کہنا تھا کہ حالیہ کشیدگی کا آغاز بلاول بھٹو کی تنقید پر مریم نواز کے جواب سے شروع ہوا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ دونوں پارٹی کے مرکزی رہنما ضرور ہیں لیکن دونوں جماعتوں میں فیصلہ سازی کا اختیار نواز شریف اور آصف زرداری کے پاس ہے اور اسی لیے، اُن کے مطابق، یہ کشیدگی صرف یہیں تک ہی محدود ہے۔

کیا یہ لڑائی نواز شریف اور آصف علی زرداری کے درمیان ہے؟

دونوں جماعتوں کے مابین جو تلخی شروع ہوئی اُس کی گونج حالیہ دنوں میں پارلیمان میں بھی سُنائی دی اور رواں ہفتے منگل کے روز پیپلز پارٹی نے احتجاجاً دونوں ایوانوں سے بائیکات کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ اتحادی ہیں، غلام نہیں۔‘

مگر کیا اس تلخی کے اثرات وفاقی حکومت تک آ سکتے ہیں؟ اس بارے میں رانا ثنا اللہ نے کہا کہ مریم نواز صرف پنجاب کی وزیر اعلیٰ ہی نہیں بلکہ وہ پارٹی کی لیڈر بھی اور بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔ ’اب جب بات اوپر سے شروع ہوئی ہے تو پھر جماعت کے دوسرے رہنما بھی اس راستے کی پیروی کرتے ہوئے پریس کانفرنس کر رہے ہیں۔‘

تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’فی الحال یہ لڑائی صرف یہیں تک محدود ہے اور جس دن زرداری صاحب اور نواز شریف کے درمیان رابطہ ہو گیا، یہ ساری تلخی بھی ختم ہو جائے گی۔‘

اس سوال کے جواب میں کہ کیا مریم اور بلاول نواز شریف اور زرداری صاحب کے آشیرباد سے یہ سب کر رہے ہیں؟ رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ’ہرگز نہیں۔ وہ ایسا اپنی رائے کی بنیاد پر نہیں بلکہ معلومات کی بنیاد پر کہہ رہے ہیں۔‘

تصویر
Getty Images
رانا ثنا اللہ: ’پارٹی میں نواز شریف کا فیصلہ ہمیشہ حتمیٰ رہا ہے اور مریم نواز اور وزیراعظم شہباز شریف ان کے فیصلوں کو تسلیم کرتے ہیں‘

پیپلز پارٹی کو تحریک عدم اعتماد لانا کا مشورہ، کیا حکمران اتحاد کو کوئی خطرہ ہے؟

پاکستان تحریک انصاف نے حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے پر تعاون کی یقین دہانی کروائی ہے لیکن سیاسی مبصرین اور دونوں جماعتوں کے قائدین کے خیال میں مستقبل میں تحریک عدم اعتماد آنے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔

پیپلز پارٹی کے رہنما قمر الزامان کائرہ کا کہنا ہے کہ ’حکومتی اتحاد میں جب دراڑ پرتی ہے تو اپوزیشن جماعتیں اسے ہوا دیتی ہیں اور تحریک انصاف بھی یہی کر رہی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’الفاظ اور رویے دونوں تلخ ہو گئے ہیں، اگر آگے چل کر تعلقات میں بھی تلخی آ گئی تو کوئی بھی صورتحال ہو سکتی ہے۔‘

قمر الزمان کا ئرہ نے کہا کہ صدر زرداری نے محسن نقوی کو اگر معاملات کو بہتر کرنے کی ہدایت دی ہے تو یہ خوش آئند بات ہے۔

وزیراعظم کے سیاسی مشیر رانا ثنا اللہکا کہنا ہے کہ ’اس وقت جو ملک میں سسٹم چل رہا ہے اس میں مسلم لیگ نواز کے ساتھ ساتھ پاکستان پیپلز پارٹی بھی اس کی بینفشری ہے۔‘ اُن کے بقول ’اس نظام میں پیپلز پارٹی خود سٹیک ہولڈر ہے اور بظاہر حکومت گرانے سے انھیں کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔‘

سیاسی مبصر احمر بلال محبوب کا کہنا ہے کہ ’ان دونوں جماعتوں کو ایک ساتھ بیٹھا کر سیاسی استحکام پیدا کیا گیا ہے اور اگر یہ استحکام بنانے والے حلقے اگر سسٹم میں تحریک انصاف کے لیے کچھ جگہ بنانا چاہیں تو پھر کچھ آگے پیچھے ہو سکتا، لیکن اُس کا امکان فی الحال دکھائی نہیں دیتا۔‘

یاد رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی رکنِ قومی اسمبلی پلوشہ خان نے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ مریم نواز کی تنقید کا ہدف داراصل وزیراعظم شہباز شریف ہیں اور وہ آپس کی لڑائی میں اتحادی جماعت پیپلز پارٹی کو درمیان میں لا کر وفاق کے لیے خطرہ پیدا کر رہی ہیں۔

لیکن قمر الزمان کائرہ کا کہنا ہے کہ ’آپس میں کچھ اختلافات ضرور ہو سکتے ہیں لیکن پنجاب حکومت وفاق میں شہباز شریف کی حکومت کو کیوں نقصان پہنچائے گی؟‘

دوسری جانب رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ ’وفاق اور پنجاب میں کوئی تنازع نہیں ہے، پارٹی میں نواز شریف کا فیصلہ ہمیشہ حتمیٰ رہا ہے اور مریم نواز اور وزیراعظم شہباز شریف ان کے فیصلوں کو تسلیم کرتے ہیں۔ آپس کے اختلافات کی باتوں میں کوئی سچائی نہیں ہے۔‘

احمد بلال محبوب اس بات سے متفق نہیں ہیں کہ پنجاب حکومت وفاق کو نقصان پہنچانا چاہتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ وفاق میں شہباز شریف کے علاوہ اگر کوئی وزیراعظم ہو گا تو پنجاب حکومت کے خطرہ بڑھ جائے گا۔

احمد بلال کے مطابق وفاق اور صوبے میں معمولی اختلاف ضرور ہو سکتا ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ کوئی بڑی تبدیلی آ جائے گی۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US