امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ امن معاہدے کے پہلے مرحلے پر اتفاق رائے ہو چکا ہے۔ حالیہ معاہدے کے بارے میں ہم اب تک کیا جانتے ہیں اور کون سے عوامل پر ابہام موجود ہے؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ امن معاہدے کے پہلے مرحلے پر اتفاق رائے ہو چکا ہے۔ یہ پیش رفت دو سال قبل سات اکتوبر کو اسرائیل کے خلاف حماس کے حملے سے شروع ہونے والی تباہ کن جنگ کے بعد سامنے آئی ہے۔
سات اکتوبر کو حماس کے حملے میں 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ 251 یرغمال بنا لیے گئے تھے۔ اسرائیل کی کارروائیوں میں اب تک 67183 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں 20 ہزار سے زیادہ بچے بھی شامل ہیں۔
حالیہ معاہدے کے بارے میں ہم اب تک کیا جانتے ہیں اور کون سے عوامل پر ابہام موجود ہے؟
کیا اعلان کیا گیا ہے؟
مصر میں ہونے والے مذاکرات کے بعد امریکی صدر نے اعلان کیا کہ اس کا مطلب ہے کہ تمام یرغمالی جلد رہا ہو جائیں گے اور اسرائیل اپنے فوجی واپس بلا لے گا۔
ٹرمپ نے ان اقدامات کو تادیر قائم رہنے والے امن کی جانب پہلا قدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’تمام پارٹیوں کے ساتھ برابری کا سلوک ہو گا۔‘
اسرائیلی وزیر اعظم نے اسے ملک کے لیے ’عظیم دن‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت جمعرات کو اس معاہدے کی منظوری پر غور کرے گی تاکہ ’تمام یرغمالیوں کو گھر واپس لایا جا سکے۔‘ حماس کی جانب سے بھی اس اعلان کی تصدیق کرتے ہوئے کہا گیا کہ ’اس سے غزہ میں جنگ کا خاتمہ ہو گا، قابض فوج کا مکمل انخلا یقینی ہو گا اور انسانی امداد کی فراہمی ہو سکے گی، قیدیوں کا تبادلہ ہو سکے گا۔‘
مذاکرات کے دوران اسرائیل اور حماس کے نمائندوں کے درمیان براہ راست بات چیت نہیں ہوئی بلکہ مصر، قطر اور ترکی کے ثالثوں سمیت مشرق وسطی کے لیے ٹرمپ کے ایلچی سٹیو وٹکواف اور ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر نے کردار ادا کیا۔
مصر، قطر اور ترکی کے ثالثوں سمیت مشرق وسطی کے لیے ٹرمپ کے ایلچی سٹیو وٹکواف اور ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر نے کردار ادا کیااب کیا ہو گا؟
اسرائیل حکومت جمعرات کو معاہدے پر ووٹ کرے گی۔ اگر اس معاہدے کی منظوری ہو جاتی ہے تو اسرائیل کو متفقہ ٹائم لائن کے مطابق غزہ سے اپنی فوج واپس بلانی ہو گی۔ سی بی ایس نیوز، جو امریکہ میں بی بی سی کا پارٹنر ادارہ ہے، سے بات کرتے ہوئے وائٹ ہاؤس کے سینئر افسر نے اس کی تصدیق کی۔
ان کے مطابق انخلا 24 گھنٹے کے اندر شروع ہونا ہے جس کے بعد 72 گھنٹے کے اندر حماس کو ان یرغمالیوں کو رہا کرنا ہو گا جو ابھی تک زندہ ہیں۔ وائٹ ہاؤس کے افسر کے مطابق رہائی کا عمل سوموار کو شروع ہونے کی توقع ہے۔
ہم کیا نہیں جانتے؟
اب تک صدر ٹرمپ کے 20 نکاتی منصوبے کے پہلے مرحلے کا اعلان ہوا ہے جسے اسرائیل نے قبول کیا ہے اور حماس نے بھی اتفاق کیا ہے۔ تاہم اس اعلان میں چند متنازع امور پر بات نہیں ہوئی جن پر دونوں فریقین میں اتفاق نہیں ہو سکا۔
ان میں سے سب سے اہم حماس کا غیر مسلح ہونا ہے جو ٹرمپ کے منصوبے کا اہم نکتہ بھی ہے۔ حماس نے اس سے قبل ہتھیار ترک کرنے سے انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ ایسا صرف اس وقت ہو گا جب ایک فلسطینی ریاست قائم ہو جائے گی۔
غزہ کا مستقبل بھی غیر واضح ہے۔ ٹرمپ کے 20 نکات کے مطابق حماس کا اس مستقبل میں کوئی کردار نہیں ہو گا اور یہ تجویز کیا گیا تھا کہ غزہ کے معاملات ایک غیر سیاسی ٹیکنوکریٹ فلسطینی کمیٹی دیکھے گی اور بعد میں اسے فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کر دیا جائے گا۔
گزشتہ ہفتے نتن یاہو نے فلسطینی اتھارٹی کو ملوث کرنے کی مخالفت کی تھی اگرچہ کہ انھوں نے ٹرمپ کے منصوبے کو قبول کیا تھا۔
یاد رہے کہ اسرائیلی حکومت میں موجود دائیں بازو کے سخت گیر قوم پرست غزہ میں یہودی آبادکاری کی حامی ہیں اور توقع ہے کہ وہ بھی اس نکتے کو رد کریں گے۔ حماس نے کہا ہے کہ وہ غزہ میں کسی قسم کا کردار جاری رکھنے کی توقع رکھتی ہے۔
اس کے علاوہ فلسطینی ذرائع کے مطابق بدھ کی رات تک حماس کو ان فلسطینی قیدیوں کی حتمی فہرست بھی موصول نہیں ہوئی تھی جنھیں اسرائیل اپنے یرغمالیوں کے بدلے میں رہا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
غزہ کا مستقبل بھی غیر واضح ہے۔ ٹرمپ کے 20 نکات کے مطابق حماس کا اس مستقبل میں کوئی کردار نہیں ہو گا20 نکاتی منصوبے کے تحت عمر قید کی سزا پانے والے 250 قیدیوں کے علاوہ ان 1700 غزہ کے باسیوں کو بھی رہا کیا جائے گا جنھیں سات اکتوبر کے بعد سے قید کیا گیا۔
اعلان پر اب تک کیا ردعمل آیا ہے؟
اسرائیلی یرغمالیوں کے عزیزواقارب نے اس معاہدے کا خیر مقدم کیا ہے۔ علی شارابی، جن کی اہلیہ اور بچے ہلاک جبکہ ان کے بھائی کی لاش حماس کے پاس ہے، نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ بہت خوشی کی بات ہے، سب کو گھر واپس آتا دیکھنے کا انتظار ہے۔
اسرائیلی یرغمالی نمرود کوہن کی والدہ نے لکھا کہ میرے بچے، تم گھر آ رہے ہو۔
غزہ میں اس اعلان کے بعد جشن شروع ہو گیا۔ خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق خان یونس کے رہائشی عبدالمجید نے کہا کہ خدا کا شکر ہے کہ جنگ بندی ہوئی، قتل و غارت کا اختتام ہوا۔
غزہ میں اس اعلان کے بعد جشن شروع ہو گیاانھوں نے کہا کہ ’صرف میں خوش نہیں، غزی کی پٹی میں سب خوش ہیں، سب عرب لوگ، پوری دنیا جنگ بندی پر خوش ہے۔‘
دوسری جانب عالمی رہنماوں نے زور دیا ہے کہ فریقین معاہدے کی پاسداری کریں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریز نے کہا کہ اقوام متحدہ معاہدے پر عملدرآمد میں معاونت کرے گی اور انسانی امداد کی فراہمی اور تعمیر نو میں بھی کردار ادا کرے گی۔
برطانوی وزیر اعظم نے بھی اس اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ پوری دنیا کے لیے اچھی خبر ہے خصوصی طور پر یرغمالیوں، ان کے اہلخانہ، غزہ کے عام شہریوں کے لیے جو گزشتہ دو سال سے ناقابل تصور کرب سے گزر رہے تھے۔‘
آسٹریلیا کے وزیر اعظم انتھونی البنیز نے بھی اس معاہدے کو امن کی جانب ضرروی قدم قرار دیا اور تمام فریقین سے کہا کہ وہ معاہدے کی پاسداری کریں۔ دوسری جانب امریکہ میں اراکین اسمبلی نے محتاط انداز میں بات کی۔
ڈیموکریٹ پارٹی کے سینیٹر کرس کونز نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ ’یہ پہلا قدم ہے اور تمام فریقین کو چاہیے کہ اس جنگ کے خاتمے کے لیے اس پر عمل کریں۔‘
رشدی ابولوف اور لوسی میننگ کی اضافی رپورٹنگ کے ساتھ