بدھ کی صبح، انڈین گجرات کے علاقے رن آف کچھ میں دھولاویرا گاؤں کے قریب لوگوں نے ایک نامعلوم نوجوان مرد اور لڑکی کو دیکھا جو جلد ہی پولیس کی حراست میں تھے۔ تفتیش کے دوران، پولیس کو ابتدائی طور پر معلوم ہوا کہ دونوں نے ’محبت کی خاطر‘ پاکستان چھوڑ دیا تھا اور ’پناہ‘ کے لیے انڈیا آئے تھے۔

بدھ کی صبح، انڈین گجرات کے علاقے رن آف کچھ میں دھولاویرا گاؤں کے قریب لوگوں نے ایک نامعلوم نوجوان مرد اور لڑکی کو دیکھا جو جلد ہی پولیس کی حراست میں تھے۔
تفتیش کے دوران، پولیس کو ابتدائی طور پر معلوم ہوا کہ دونوں نے ’محبت کی خاطر‘ پاکستان چھوڑ دیا تھا اور ’پناہ‘ کے لیے انڈیا آئے تھے۔
ان کے نام اور شناخت کم سنی کی وجہ سے ظاہر نہیں کیے جا رہے۔ یہ لڑکا اور لڑکی، جن کے مطابق ان کی تقریباً 16 سال عمر ہے، انڈیا-پاکستان سرحد عبور کرتے ہوئے، صحرائے کچھ میں تین دن کے سفر کے بعد یہاں پہنچے تھے۔
یہ تھرپارکر سے کیوں بھاگے؟
فی الحال، پولیس نے ان کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں کیا ہے اور ان سے پوچھ گچھ کر رہی ہے، لیکن حکام کا کہنا ہے کہ نوجوان جوڑے کو آنے والے دنوں میں انٹیلی جنس ڈیپارٹمنٹ سمیت انڈیا کی مختلف ایجنسیوں سے پوچھ گچھ کا سامنا کرنا پڑے گا۔
بی بی سی گجراتی پاکستان سے آنے والے لڑکے اور لڑکی کی شناخت ظاہر نہیں کر سکتا کیونکہ وہ نابالغ ہیں۔
کچھ (مشرقی) پولیس کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) ساگر باگمار نے بی بی سی گجراتی کو بتایا کہ ان کے پاس کوئی دستاویزی ثبوت نہیں ہے، لیکن ان کا کہنا ہے کہ ان کی عمریں 16 سال ہیں۔
ایس پی ساگر باگمار نے کہا کہ ’ان دونوں کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان کے ضلع تھرپارکر کے ایک گاؤں کے رہائشی ہیں اور ان کا تعلق بھیل برادری سے ہے۔ یہ گاؤں پاکستان کی طرف بین الاقوامی سرحد سے تقریباً دس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ابتدائی پوچھ گچھ کے دوران انھوں نے بتایا کہ وہ ایک دوسرے سے پیار کرتے تھے لیکن لڑکی کے گھر والوں کو یہ رشتہ منظور نہیں تھا۔ اس معاملے پر لڑکے کے گھر والوں اور لڑکی کے گھر والوں کے درمیان لڑائی بھی ہوئی تھی۔ خاندان والوں کی جانب سے ان کا رشتہ منظور نہ ہونے پر انھوں نے انڈیا فرار ہونے کا فیصلہ کیا اور تین چار دن پہلے اپنے گاؤں سے بھاگ گئے۔‘
اگرچہ پاکستان سے لوگ اپنا راستہ بھول کر سرحد عبور کر کے کچھ پہنچنے کے واقعات ہر سال پیش آتے ہیں۔ لیکن ایس پی نے کہا کہ اس معاملے میں ایسا نہیں ہوا۔
ایس پی ساگر باگمارے نے مزید کہا کہ ’اپنے گاؤں سے فرار ہونے کے بعد یہ دونوں خود انڈین سرحد کی طرف بڑھے، ان کا کہنا ہے کہ وہ انڈیا نہیں پہنچے کیونکہ وہ راستہ بھول گئے تھے، لیکن وہ انڈیا آنا چاہتے تھے اور اسی وجہ سے وہ سرحد پار کرکے کچھ پہنچے۔‘
بارڈر سیکیورٹی فورسجوڑے نے صحرا کیسے عبور کیا؟
بی بی سی سے مزید بات کرتے ہوئے ایس پی ساگر باگمار نے کہا کہ جوڑے نے سرحد عبور کی اور صحرا کو عبور کرتے ہوئے سرحد سے 40 کلومیٹر دور خدیر پہنچے۔
اس کے باوجود کہ اس وقت رن آف کچھ کا وسیع علاقہ گزشتہ ماہ ہونے والی شدید بارشوں کی وجہ سے سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے، یہدونوں کس طرح صحرا کے مشرقی ساحل پر واقع جزیرے خدیر تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔
ایس پی کا کہنا ہے کہ ’تفتیش کے دوران انھوں نے بتایا کہ جب وہ اپنے گاؤں سے نکلے تو اُنھوں نے اپنے ساتھ پینے کا پانی اور کھانا لے لیا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ صحرا میں سیلاب آنے کی وجہ سے انھیں پانی میں کچھ دور تک تیرنا پڑا۔‘
’ان کی حراست کے بعد، ہم نے ان کا طبی معائنہ کرایا ہے اور ڈاکٹروں نے یہ رائے بھی دی ہے کہ ان کو اپنے سفر کے دوران تیرنا پڑا ہوگا۔‘
خدیر جزیرے پر پہنچنے کے بعد جب یہ دونوں رتن پار گاؤں کے مضافات میں داخل ہوئے تو بدھ کی صبح تقریباً 11 بجے رتن پار کے کچھ لوگوں کی نظر ان پر پڑی۔
ایس پی نے کہا کہ ’چونکہ لڑکا اورلڑکی سندھی بول رہے تھے، رتن پار کے لوگوں نے سمجھ لیا کہ یہ مقامی نہیں ہیں۔‘
ساگر باگمار نے کہا، ’مقامی لوگوں نے پولیس کو ان کی موجودگی کی اطلاع دی۔ اس کے بعد ہمارے تھانے کے اہلکار وہاں پہنچے۔ ابتدائی پوچھ گچھ کے دوران لڑکے اور لڑکی نے بتایا کہ وہ پاکستان کے ضلع تھرپارکر سے تعلق رکھتے ہیں۔‘
اب کیا ہو گا؟
تھرپارکر انڈیا اور پاکستان کی سرحد کے قریب واقع ہےویزا کے بغیر انڈیا میں داخل ہونا فارنرز ایکٹ 1946 کے تحت ایک جرم ہے اور اگر عدالت میں یہ جرم ثابت ہو جائے تو اس جرم کی سزا پانچ سال تک قید یا پانچ لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں ہو سکتیہے۔
لیکن ایس پی نے بی بی سی گجراتی کو بتایا کہ کچھ (ایسٹ) پولیس نے ابھی تک ان کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں کیا ہے۔
انھوں نے کہا، ’فی الحال، پولیس سٹیشن میں ایک کیس درج کیا گیا ہے اور لڑکے اور لڑکی کو پوچھ گچھ کے لیے لے جایا گیا ہے، ابتدائی پوچھ گچھ کے بعد، ہم انھیں تفتیشی مرکز کے حوالے کریں گے تاکہ انڈیا کی مختلف ایجنسیاں ان سے پوچھ گچھ کرسکیں۔‘
پاکستانی شہری جو سرحد پار کر کے کچھ میں داخل ہوتے ہیں، کو جرم کا الزام عائد کرنے سے پہلے، کچھ کے ضلعی ہیڈکوارٹر بھج میں مشترکہ تفتیشی مرکز میں حراست میں لیا جاتا ہے۔
اگر انھیں عدالت کی طرف سے سزا سنائی جاتی ہے تو انہیں عموماً کچھ یا جام نگر کی جیلوں میں رکھا جاتا ہے اور سزا پوری کرنے کے بعد انھیں دوبارہ مشترکہ تفتیشی مرکز میں رکھا جاتا ہے اور پاکستان کی جانب سے ایسے شخص کی شہریت کی تصدیق کے بعد اس شخص کو واپس پاکستان بھیج دیا جاتا ہے۔
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ حالیہ برسوں میں انڈیا کے دو افراد نے پاکستان میں رہنے والی خواتین سے ملنے کے لیے بین الاقوامی سرحد عبور کر کے کچھ جانے کی کوشش کی لیکن دونوں پکڑے گئے۔
سنہ 2024 میں، جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے ملتان میں رہنے والی ایک خاتون سے ملنے کے لیے کچھ سرحد عبور کرنے کی کوشش کی لیکن پولیس نے اسے کچھ کے مغربی علاقے میں سرحد پر واقع گاؤں کھوڈا سے پکڑ لیا۔
اسی طرح، 2020 میں، ریاست مہاراشٹر کے ضلع عثمان آباد سے تعلق رکھنے والے ایک کالج کے طالب علم نے پاکستان میں رہنے والی اپنی گرل فرینڈ سے ملنے کے لیے سرحد پار کرنے کے ارادے سے مہاراشٹر سے رن آف کچھ تک موٹر سائیکل پر سفر کیا۔ لیکن جب وہ بین الاقوامی سرحد سے تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر دور تھا تو سرحد کی حفاظت پر مامور انڈین بارڈر سکیورٹی فورس کے جوانوں نے اسے پکڑ لیا۔