بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے پاکستان اور انڈیا کی جنگ میں زیر بحث آنے والے جے ٹین سی کی خریداری کے لیے 15,000 کروڑ روپے سے زیادہ کی قیمت کے 20 چینی ساختہ لڑاکا طیارے خریدنے کا منصوبہ بنایا ہے۔
عبوری حکومت کے مشیر آصف محمود کے مطابق حکومت نے 20 چینی ساختہ J-10CE ملٹی رول لڑاکا طیارے خریدنے کے عمل کا آغاز کیا ہےبنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے 150 ارب ٹکا (2.2 ارب ڈالر) سے زیادہ مالیت کے 20 چینی ساختہ ’جے 10 سی ای‘ لڑاکا طیارے خریدنے کا منصوبہ بنایا ہے۔
اس کا اعلان حال ہی میں بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے مشیر آصف محمود نے سوشل میڈیا پر کیا۔ انھوں نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ حکومت نے 20 چینی ساختہ J-10CE ملٹی رول لڑاکا طیارے خریدنے کے عمل کا آغاز کیا ہے۔
ان کی جانب سے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہ معاہدہ سنہ 2027 تک تکمیل کو پہنچے گا۔
اس حوالے سے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہ جنگی طیارے چینی حکومت کے ساتھ معاہدے کے ذریعے براہ راست یا G2G یعنی گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ طریقہ کار اپناتے ہوئے خریدے جائیں گے۔
تاہم بنگلہ دیش میں مختلف حلقوں کی جانب سے یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ عبوری حکومت نے دفاع جیسے اہم شعبے میں اتنی بڑی خریداری سے متعلق فیصلہ کس حیثیت میں کیا ہے؟
دفاعی ماہرین نے بھی بنگلہ دیش میں عام انتخابات سے صرف پانچ ماہ قبل عبوری حکومت کی جانب سے کیے گئے اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ اس ڈیل کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے بہت بڑی رقم یعنی 2.2 ارب ڈالر یا تقریباً 15.5 ارب ٹکا درکار ہوں گے۔
دفاعی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ کیا کوئی عبوری حکومت اس نوعیت کے اہم معاملات میں مداخلت کر سکتی ہے؟
عبوری حکومت لڑاکا طیارے کیوں خرید رہی ہے؟
اس منصوبے کی مالیت 2.2 ارب ڈالر بتائی جا رہی ہےعبوری حکومت کے مشیر آصف محمود نے اپنی پوسٹ میں یہ لڑاکا طیارے خریدنے کی وجہ اور مقصد کے بارے میں تھوڑی بہت وضاحت کی ہے۔ اس میں محض اتنا کہا گیا ہے کہ عبوری حکومت نے بنگلہ دیشی فضائیہ کو جدید بنانے اور قومی فضائی دفاع کو مضبوط بنانے کے لیے 20 لڑاکا طیارے خریدنے کا فیصلہ کیا ہے۔
تاہم یہ واضح نہیں کیا گیا کہ یہ طیارے کس نوعیت کے معاہدے کے تحت خریدے جائیں گے۔
یاد رہے کہ گذشتہ سال اگست میں عوامی بغاوت کے نتیجے میں شیخ حسینہ کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد محمد یونس کی قیادت میں بنگلہ دیش میں عبوری حکومت قائم کی گئی تھی۔
محمد یونس نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنے پہلے غیر ملکی دورے کے طور پر مارچ میں چین کا دورہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ بنگلہ دیش کی مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنما بھی حالیہ دنوں میں چین کے دورے کر چکے ہیں۔
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے اعلان کیا ہے کہ ملک میں عام انتخابات اگلے سال فروری میں کروائے جائیں گے۔ اس حساب سے دیکھا جائے تو عبوری حکومت کے پاس اب صرف چار ماہ رہ گئے ہیں۔
دفاعی اُمور کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس حکومت کے لیے انتخابات سے عین قبل اتنا بڑا دفاعی خریداری کا معاہدہ کرنے کی کوئی منطق نہیں ہے۔
تاہم اُن کا خیال ضرور ہے کہ بنگلہ دیش کو جنگی تیاریوں سے متعلق اپنی دفاعی اور سکیورٹی کی صلاحیتوں کو برقرار رکھنے کے لیے لڑاکا طیارے خریدنے کی ضرورت ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت بنگلہ دیش میں موجود لڑاکا طیارے کافی پرانے ہیں۔
سکیورٹی تجزیہ کار میجر جنرل ریٹائرڈ اے این ایم منیر الزمان نے کہا کہ کسی بھی ملک کو خطرات سے نمٹنے کے لیے دفاع کے لیے لڑاکا طیاروں سمیت ہر قسم کی تیاریاں کرنی پڑتی ہیں۔
تاہم اُن کا خیال ہے کہ اس خریداری کے حوالے سے فیصلہ عبوری حکومت کو نہیں بلکہ منتخب حکومت کو کرنا چاہیے۔
انھوں نے بی بی سی بنگلہ کو بتایا کہ ’میرے خیال میں ایک عبوری حکومت، جو اپنی مدت ختم ہونے والی ہے، کو انتخابات کے اتنے قریب اتنے بڑے پیمانے پر خریداری جیسے معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔‘
انھوں نے بتایا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان لڑاکا طیاروں کو خریدنے میں تقریباً ڈھائی ارب ڈالر لگیں گے، جو کہ ایک بہت بڑی رقم ہے۔
سکیورٹی تجزیہ کار کے مطابق ’اسی لیے وہ جو بھی بڑی خریداری کرنے کا فیصلہ ہے وہ اگلی منتخب حکومت کے کندھوں پر آئے گا۔ اس لیے اس قسم کا فیصلہ عام طور پر کسی حکومت کو آخری لمحات میں نہیں لینا چاہیے۔‘
ان کا خیال ہے کہ چونکہ بنگلہ دیش ایک منتخب حکومت کی طرف بڑھ رہا ہے، اس لیے اس نوعیت کے فیصلوں کو کرنے یا نہ کرنے کی ذمہ داری اگلی منتخب حکومت پر چھوڑ دینی چاہیے۔
لڑاکا طیارے خریدنے پر بحث
سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حکومت کے دوران بھی لڑاکا طیاروں کی خریداری کے حوالے سے کافی ہنگامہ آرائی اور بحث جاری رہتی تھی۔
سکیورٹی ماہرین کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش کے لیے لڑاکا طیاروں کی خریداری کے حوالے سے بات چیت کا سلسلہ سنہ 2016 میں ہوا تھا۔
اس وقت یہ بحث چل رہی تھی کہ بنگلہ دیش کو ان تینوں میں سے کون سا لڑاکا طیارہ خریدنا چاہیے: فرانسیسی ساختہ رفال، یورپی یونین کا یورو فائٹر ٹائیفون یا امریکی ساختہ ایف 16۔
بعد ازاں فرانسیسی صدر ایمانوئل میخواں 10 ستمبر 2023 کو دو روزہ دورے پر ڈھاکہ آئے تھے اور اُس وقت فرانسیسی ساختہ رفال لڑاکا طیارے خریدنے کی پیشکش بنگلہ دیش کو کی گئی تھی۔
تاہم یہ مذاکرات کورونا وائرس کے دوران مالی بحران کی وجہ سے تعطل کا شکار ہو گئے تھے۔ اور عبوری حکومت کے دور میں ایک بار پھر لڑاکا طیاروں کی خریداری کا شور ہو رہا ہے۔
’J-10 CE‘ کی خصوصیات کیا ہیں؟
سکیورٹی امور کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ لڑاکا طیارے بنیادی طور پر کسی ملک کے دفاعی شعبے میں دو طرح کے کاموں کے لیے استعمال ہوتے ہیں: ایک دفاعی اور دوسرا جارحانہ۔
دفاعی شعبے سے وابستہ ماہرین کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش کے زیادہ تر لڑاکا طیارے دفاعی یا حفاظتی غرض کے ہیں جس کی بنیاد بنگلہ دیش کی خارجہ پالیسی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ چین کے ’J-10‘ سیریز کے لڑاکا طیارے بنیادی طور پر اُن کی ایروبیٹک ٹیم استعمال کرتی ہے۔
یہ چینی لڑاکا طیارہ رواں برس مئی میں پاکستان اور انڈیا کے تنازع کے دوران بھی زیر بحث آیا تھا۔
اس وقت خبر رساں ادارے روئٹرز نے ایک امریکی اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا تھا کہ پاکستان نے انڈین لڑاکا طیاروں پر میزائل فائر کرنے کے لیے چینی ساختہ جے ٹین طیاروں کا استعمال کیا اور کم از کم دو انڈین طیاروں کو مار گرایا گیا۔
پاکستان نے انڈیا کے چھ طیارے مار گرانے کا دعوی کر رکھا ہے، جس میں نے ایک بڑے سائز کا یو اے وی بھی شامل ہے۔ انڈیا نے براہ راست کی اس کی تردید نہیں کی ہے جبکہ امریکی صدر بھی سات طیاروں کے بارے میں بیان دے چکے ہیں کہ جو جنگ کے دوران مار گرائے گئے۔
چین نے ’J-10A‘ اور ’J-10S‘ کو سنہ 2009 میں نمائش کے لیے پیش کیے گئے طیاروں کی فہرست میں شامل کیا۔ پھر چین نے 2023 میں اسے بہتر ورژن ’J-10C‘ سے اپ گریڈ کیا۔
سکیورٹی امور کے حکام سے بات کرتے ہوئے یہ معلوم ہوا کہ J-10CE لڑاکا جیٹ کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ بہت چھوٹے ایریا میں انتہائی مختصر وقت میں ٹیک آف کر سکتا ہے۔
اس کے علاوہ یہ جنگی طیارہ سنگل انجن والا لڑاکا طیارہ ہے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ جنگ اس کی ’منوورنگ‘ ہے، یعنی یہ ’ٹاپ فائٹ‘ یا ’ہائی اپ‘ یعنی بلندی پر مقابلے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
عسکری ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹاپ فائٹ کے دوران بہت زیادہ تیز موڑ کی ضرورت ہوتی ہے، جو اس میں موجود ہے۔
یہ لڑاکا طیارہ ’ملٹی رول‘ کردار بھی ادا کرتا ہے یعنی یہ بیک وقت دفاعی اور جارحانہ دونوں کام انجام دے سکتا ہے۔
اس لڑاکا طیارے کی ایک اور خصوصیت اس کی رفتار ہے جو آواز کی رفتار سے دگنی ہے۔