ماضی میں کسی نے شاید سوچا بھی نہیں ہوگا کہ طالبان کا کوئی سینیئر رہنما کبھی انڈیا کا دورہ بھی کرے گا۔ لیکن جمعے کو افغانستان میں طالبان حکومت کے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نئی دہلی پہنچے۔

ماضی میں کسی نے شاید سوچا بھی نہیں ہوگا کہ طالبان کا کوئی سینیئر رہنما کبھی انڈیا کا دورہ بھی کرے گا۔ لیکن جمعے کو افغانستان میں طالبان حکومت کے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نئی دہلی پہنچے۔
انڈیا نے اعلان کیا ہے کہ وہ کابل میں اپنے ’ٹیکنیکل مشن‘ کو سفارتخانے کا درجہ دے گا جس کی حیثیت 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد کم کر دی گئی تھی۔
یہ اعلان انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے اپنے افغان ہم منصب امیر خان متقی کے استقبال کے موقع پر کیا جو 2021 کے بعد طالبان حکومت کے پہلے اعلیٰ سطحی نمائندے ہیں جنھوں نے انڈیا کا دورہ کیا ہے۔
جے شنکر نے دونوں ممالک کے تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے کئی اقدامات کا اعلان کیا ہے اور اس دوران بغیر کسی ملک کا نام لیے کہا کہ انڈیا اور افغانستان دونوں ’سرحد پار دہشتگردی سے متاثرہ ہیں۔‘
امیر متقی کا یہ دورہ اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب افغانستان میں فضائی بمباری کی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں جس کی پاکستانی حکام نے تاحال تصدیق یا تردید نہیں کی ہے۔
طالبان اور انڈیا کے تعلقات دہائیوں سے کشیدہ رہے ہیں۔ اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان تاریخی روابط بھی رہے ہیں لیکن اب دونوں حکومتیں تعلقات بہتر بنانے کی خواہش رکھتی ہیں اور عوامی طور پر اس کے لیے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔
تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ ایک طرف انڈیا اس خطے میں استحکام اور افغانستان سے یہ یقین دہانی چاہتا ہے کہ اس کی سرزمین انڈیا کے خلاف استعمال نہیں ہو گی جبکہ دوسری طرف طالبان بین الاقوامی پہچان اور سرمایہ کاری حاصل کرنے کے خواہشمند ہیں۔
انڈین وفد سے خطاب کرتے ہوئے امیر متقی نے کہا کہ افغانستان انڈیا کو قریبی دوست سمجھتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ افغانستان کسی گروہ کو اپنی سرزمین دوسروں کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’افغانستان باہمی احترام، تجارت اور عوامی روابط پر مبنی تعلقات چاہتا ہے۔‘
اگر انڈیا کا دورہ کامیاب ہوتا ہے تو یہ طالبان کے لیے فائدہ مند ہو گا کیونکہ وہ بین الاقوامی تنہائی اور انسانی حقوق کے ریکارڈ پر تنقید کا سامنا کر رہا ہے۔
امیر متقی کے لیے دورۂ انڈیا کیوں اہم ہے؟
کابل میں افغانستان سائنس اکیڈمی کے ریجنل سٹڈیز سینٹر کے اسسٹنٹ پروفیسر معصوم جان ماسومے کا کہنا ہے کہ ’انڈیا کے ساتھ قریبی تعلقات بنانا طالبان حکومت کے لیے سیاسی کامیابی ہوگی جو اپنی بین الاقوامی تنہائی ختم کرنا چاہتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’انڈیا طالبان سے ہر موضوع پر بات کرنا چاہتا ہے ۔ یہ اقدامات اعتماد سازی (کانفیڈینس بلڈنگ) کے لیے اچھے ہیں۔‘
تاہم ان کے مطابق طالبان اور انڈیا کے درمیان دشمنی رہی ہے جس کے سیاسی اثرات آج بھی ظاہر ہیں۔
مثال کے طور پر1999 میں جب شدت پسندوں نے نیپال سے ایک انڈین طیارہ اغوا کیا اور اسے طالبان کے زیرِ انتظام قندھار لے گئے تو انڈیا کے حالیہ قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوال نے طالبان حکومت سے مذاکرات میں حصہ لیا جس میں متقی ایک وزیر کے طور پر شامل تھے۔
مگر تجزیہ کاروں کی رائے میں اب حالات بدل چکے ہیں کیونکہ طالبان نے 1996 سے 2001 کے اپنے سابقہ دور حکومت کے مقابلے میں اس دور حکومت میں زیادہ حقیقت پسندانہ اقدامات کیے ہیں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ طالبان خطے کے ممالک اور مغربی ممالک کے ساتھ باہمی احترام پر مبنی دو طرفہ تعلقات قائم کرنے کے لیے پُرعزم ہیں۔
روس، چین، پاکستان، ایران اور کئی وسطی ایشیائی ممالک نے طالبان سے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے رابطہ کیا ہے۔
اس لحاظ سے انڈیا افغانستان کے لیے اہم بن جاتا ہے اور یہی متقی کے آج کے بیان میں ظاہر تھا۔
معصوم جان ماسومے کی رائے ہے کہ طالبان انڈیا سے قریبی تعلقات چاہتے ہیں۔
ان کے مطابق ’انڈیا کا ردعمل بھی زیادہ محتاط اور نپی تلی پالیسی پر مبنی ہے۔ انڈیا طالبان کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کی مخالفت کرتا ہے لیکن تعلقات کو آہستہ آہستہ بہتر بنانے کا خواہشمند ہے۔‘
طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد انڈیا نے انھیں انسانی امداد فراہم کی ہے، اپنے پرانے ترقیاتی منصوبے جاری رکھنے کا وعدہ کیا ہے اور افغان شہریوں کے لیے ویزا کا نیا نظام شروع کیا ہے۔
جمعے کو انڈیا نے دونوں دارالحکومتوں کے درمیان اضافی فلائٹس کے آغاز اور افغان طلبہ کے لیے انڈین یونیورسٹیوں میں تعلیم کے مواقع بڑھانے کا اعلان کیا گیا۔
چونکہ طالبان کے اپنے پڑوسی اور پہلے کے قریبی اتحادی پاکستان سے تعلقات کشیدگی کے دور سے گزر رہے ہیں، متقی کا یہ دورہ اس وقت اس لیے مزید اہم ہو جاتا ہے کہ نو اور دس اکتوبر کی درمیانی رات پاکستان کی جانب سے افغانستان میں بمباری کی رپورٹس سامنے آرہی ہیں۔
افغانستان میں مبینہ بمباری کا حوالہ دیتے ہوئے ماسومے کا کہنا تھا کہ ’افغانستان اور انڈیا کے تعلقات میں بہتری آنے سے ہمیشہ پاکستان بے چین ہوتا ہے۔‘
ان کے مطابق ’وہ اس بار بھی انڈیا اور افغانستان کے درمیان موجودہ پیش رفت سے خوش نہیں ہوں گے۔‘
متقی کے دورے کا ایجنڈا عوامی طور پر جاری نہیں کیا گیا ہے لیکن مقامی میڈیا نے رپورٹ کیا ہے کہ وہ سنیچر کے آخر میں آگرہ میں تاج محل اور دیوبند مدرسے کا دورہ کریں گے جس کے نظریے سے تحریک طالبان متاثر ہے۔
اگلے ہفتے وہ انڈین تاجروں اور انڈیا میں رہنے والے افغان شہریوں کے وفد سے ملاقات کریں گے۔
اگرچہ انڈیا کا کابل میں اپنے مشن کو سفارتخانے کے درجے پر لے جانا ایک اہم قدم ہے اور طالبان انتظامیہ چاہتی ہے کہ انڈیا ان کی حکومت کو سرکاری طور پر تسلیم کرے۔
طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ اور قطر میں افغانستان کے سفیر سہیل شاہین نے ٹائمز آف انڈیا کو بتایا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ دونوں ممالک کی قیادت کو سفارتی سطح بلند کرنی چاہیے اور اسلامی امارات افغانستان کی حکومت کو تسلیم کر کے دو طرفہ تعاون اور مختلف شعبوں میں تعلقات کو وسعت دینے کی راہ ہموار کرنی چاہیے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’یہ ہمارے وزیر خارجہ کا انڈیا کا پہلا اعلیٰ سطحی دورہ ہے اور بہت اہم ہے۔ ہمیں امید ہے کہ یہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز کرے گا۔‘
انڈیا کی ترجیحات کیا ہوں گی؟

ماضی میں پاکستان کے ساتھ طالبان کے قریبی تعلقات کی وجہ سے انڈین فوجی اور سیاسی اسٹیبلشمنٹ نے 1994 میں اس کی بنیاد کے بعد سے ہی اس گروپ کو ایک پاکستانی پراکسی کے طور پر دیکھا ہے۔
انڈیا نے روس اور ایران کے ساتھ مل کر افغانستان میں طالبان کے خلاف لڑنے والے دھڑوں کی حمایت کی۔ 2001 کے امریکی حملے کے بعد طالبان کو اقتدار سے ہٹا دیا گیا تھا۔
اگلے 20 سالوں تک انڈیا نے امریکہ کی حمایت یافتہ اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ افغان حکومت کی حمایت کی۔ جبکہ پاکستان نے اس گروپ کے پہلے دور حکومت (1996-2001) اور ان کے دوسرے دور اقتدار کے آغاز کے دوران طالبان کے ساتھ اچھے تعلقات کا لطف اٹھایا۔ مگر دونوں کے درمیان تعلقات تیزی سے کشیدہ ہوتے گئے۔
اب پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف نے افغانستان کو کھلے عام ’دشمن ملک‘ کہہ چکے ہیں۔ پاکستان طالبان کی حکومت پر الزام لگاتا ہے کہ اس نے پاکستانی طالبان (ٹی ٹی پی) کو پاکستان کے اندر حملوں کے لیے افغان سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دی ہے۔ ماضی میں اس نے افغانستان کے اندر ٹی ٹی پی کی پناہ گاہوں کے خلاف فضائی حملے بھی کیے ہیں۔
اگرچہ انڈیا نے افغانستان کے حکمرانوں کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے لیکن یہ ان متعدد ممالک میں سے ایک ہے جو طالبان کے ساتھ کسی نہ کسی طرح کے سفارتی یا غیر رسمی تعلقات برقرار رکھتے ہیں۔
انڈیا کا اس وقت کابل میں ایک چھوٹا مشن ہے اور وہ افغانستان کو انسانی امداد بھیجتے ہیں جو دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے ایک ہے۔
آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کے تھنک ٹینک کے ہرش وی پنت اور شیوم شیخاوت نے این ڈی ٹی وی نیوز چینل کے لیے ایک مضمون میں لکھا کہ ’پاکستان کے ساتھ تعلقات میں خرابی کی وجہ سے وہ [طالبان] یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اپنی بقا کے لیے اسلام آباد پر انحصار نہیں کر رہے۔‘
پنت اور شیخاوت کے مطابق انڈیا کے ساتھ گہرا تعلق طالبان کو یہ موقع دیتا ہے کہ وہ مقامی سطح پر یہ تاثر پیدا کر سکیں کہ ان کی حکومت کو عالمی طور پر تسلیم کیا جا رہا ہے۔
ایکس پر سٹریٹجک امور کے تجزیہ کار برہما چیلانی نے کہا کہ یہ دورہ ’پاکستان کے لیے دھچکا ہے‘ اور طالبان حکومت کی حقیقت کو تسلیم کرنے کی جانب ایک اہم قدم کی نشاندہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ سٹریٹیجک مفادات کے لیے انڈیا اور طالبان عملی اقدامات کو ترجیح دے رہے ہیں اور ممکنہ طور پر یہ دورہ افغانستان کے لیے ’پاور شفٹ‘ کی علامت ہے۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ خطے میں چین اور پاکستان کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے انڈیا ایران اور وسطی ایشیا کے ساتھ رابطے گہرا کرنا چاہتا ہے جس میں طالبان کے ساتھ تعلقات بھی کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔
انڈیا اور طالبان حکومت کے درمیان گہرے تعلقات کے باوجود دونوں فریق محتاط ہیں کیونکہ وہ مقامی تحفظات اور ممکنہ بین الاقوامی اثرات سے باخبر ہیں۔