عجیب و غریب نیکڈ مول چوہے یا چھچھوندر کہلانے والی اس مخلوق کے بارے میں ایک نئی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ جانوروں نے ڈی این اے کی مرمت کا ایک طریقہ کار تیار کیا ہے جو ان کی لمبی عمر کی وضاحت کرسکتا ہے۔
یہ چوہے 40 سال تک زندہ رہتے ہیں جبکہ عام چوہا تقریباً تین سال جیتا ہے عجیب و غریب، گنجے، زیر زمین رہنے والے چوہے جو دیکھنے میں ایسے لگتے ہیں جیسے ساسج پر دانت نکلے ہوں۔۔۔ مگر انھوں نے حال ہی میں طویل عمر کا ایک جینیاتی راز افشا کیا ہے۔
عجیب و غریب نیکڈ مول چوہے یا چھچھوندر کہلانے والی اس مخلوق کے بارے میں ایک نئی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ان جانوروں نے ارتقا کے ذریعے ڈی این اے کی مرمت کا ایک ایسا نظام حاصل کر لیا ہے جو شاید ان کی طویل عمر کی وضاحت کرتا ہے۔
ان بلوں میں رہنے والے چوہوں کی زیادہ سے زیادہ عمر تقریباً 40سال ہے، جو انھیں دنیا کا سب سے طویل عرصے تک زندہ رہنے والا چوہا بناتی ہے۔
سائنس جریدے میں شائع ہونے والی نئی دریافت اس بات پر بھی روشنی ڈال سکتی ہے کہ یہ نیکڈ مول چوہے عمر سے متعلق متعدد بیماریوں سے محفوظ کیوں رہتے ہیں۔
یہ چھوٹے جانور کینسر، دماغ اور ریڑھ کی ہڈی کی خرابی اور گٹھیا کے خلاف مزاحم ہیں، لہذا بہت سے سائنسدان اس بارے میں مزید سمجھنا چاہتے ہیں کہ ان کے جسم کس طرح کام کرتے ہیں۔
نیکڈ مول چوہے زیر زمین سرنگوں اور چیمبروں کے نیٹ ورک میں رہتے ہیںچین کے شہر شنگھائی میں ٹونجی یونیورسٹی کی ایک ٹیم کی سربراہی میں ہونے والی اس تحقیق میں ڈی این اے کی مرمت پر توجہ مرکوز کی گئی جو ہمارے جسم کے خلیوں میں ایک قدرتی عمل ہے۔
جب ڈی این اے، جو ہمارے جینیاتی نظام کی بنیاد ہے، کو نقصان پہنچتا ہے تو جسم میں ایک ایسا طریقہ کار فعال ہو جاتا ہے جس کے ذریعے ایک صحت مند، غیرمتاثرہ ڈی این اے سٹرینڈ یا تار کو بطور نمونہ استعمال کر کے متاثرہ حصے کی مرمت کی جاتی ہے۔
اس تحقیق کا مرکز ایک خاص قسم کا پروٹین تھا جو نقصان کو محسوس کرنے اور مرمت کے اس نظام میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
جب کوئی خلیہ ڈی این اے کو پہنچنے والے نقصان کو محسوس کرتا ہے تو وہ کئی کیمیائی مادے پیدا کرتا ہے، جن میں سے ایک پروٹین ’سی گیس‘ کہلاتا ہے۔ یہ پروٹین مختلف کردار ادا کرتا ہے لیکن اس تحقیق میں سائنس دانوں کی دلچسپی اس بات میں تھی کہ انسانوں میں یہ پروٹین ڈی این اے کی مرمت کے عمل میں رکاوٹ ڈالتا ہے اور اس عمل کو سست یا غیر مؤثر بنا دیتا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ یہی رکاوٹ بعض اوقات کینسر کے امکانات کو بڑھا سکتی ہے اور عمر کو مختصر کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔
تاہم ننگے مول چوہوں کے معاملے میں سائنس دانوں نے یہ حیران کن انکشاف کیا کہ یہی پروٹین الٹا اثر ڈالتا ہے۔۔یعنی یہ ڈی این اے کی مرمت کے عمل میں مددگار ثابت ہوتا ہے اور اسے بہتر بناتا ہے۔
پروفیسر گیبریل بالموس کیمبرج یونیورسٹی میں ڈی این اے کی مرمت اور عمر بڑھنے پر تحقیق کرتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ جب یہ سمجھنے کی بات آتی ہے کہ یہ جانور اتنی غیر معمولی لمبی زندگی کیوں گزارتے ہیں تو یہ دریافت دلچسپ اور ایک بڑی چیز کی شروعات ہے۔
’آپ سی جی اے ایس کو حیاتیاتی بناوٹ کا ایک ٹکڑا سمجھ سکتے ہیں۔ انسانوں اور نیکڈ مول چوہوں میں بنیادی شکل ایک جیسی ہے لیکن چوہے کے ورژن میں کچھ کنیکٹر پلٹ دیے گئے ہیں، جو اسے بالکل مختلف ساخت اور فعل کی اجازت دیتے ہیں۔‘
پروفیسر بالموس نے وضاحت کی کہ ارتقا کے لاکھوں سالوں میں، نیکڈ مول چوہوں نے ایک ہی راستے کو دوبارہ تیار کیا ہے اور ’اسے اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا ہے۔‘
’یہ دریافت بنیادی سوالات اٹھاتی ہے: ’ارتقا نے اسی پروٹین کو الٹا کام کرنے کے لیے کیسے پروگرام کیا؟ کیا بدلا؟ اور کیا یہ ایک الگ واقعہ ہے یا ایک وسیع ارتقائی نمونے کا حصہ؟‘
سب سے اہم بات یہ ہے کہ سائنسدان جاننا چاہتے ہیں کہ وہ ان چوہے نما جانوروں سے کیا سیکھ سکتے ہیں تاکہ انسانی صحت کو بہتر بنایا جا سکے اور عمر کے ساتھ زندگی کے معیار کو بڑھایا جا سکے۔
پروفیسر بالموس نے کہا ’میرے خیال میں اگر ہم نیکڈ مول ریٹ کی حیاتیات کو ریورس انجینئر کر سکیں تو ہم عمر رسیدہ افراد کے لیے کچھ بہت ضروری علاج لا سکتے ہیں۔‘