یہ معاہدہ ایک بڑی پیش رفت ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ جنگ ختم ہو چکی ہے۔ لیکن اسرائیل پر حماس کے حملوں کے بعد پہلی بار، پچھلے دو سالوں کی ہولناکیوں کو ختم کرنے کا حقیقت پسندانہ امکان موجود ہے۔
اسرائیل اور حماس نے مصر میں تین دن کی بالواسطہ بات چیت کے بعد اس پہلے مرحلے پر اتفاق کیا جسے ڈونلڈ ٹرمپ ایک وسیع تر معاہدے کا حصہ بنانا چاہتے ہیں۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جو عالمی واقعات کے دوران مرکزِ نگاہ بننا پسند کرتے ہیں، یہ ایک ڈرامائی لمحہ تھا جب امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے بدھ کے روز واشنگٹن ڈی سی میں ٹرمپ کی صدارت میں ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے اجلاس میں مداخلت کی۔
انھوں نے ایک پیغام دیا کہ صدر کو دنیا کو بتانے کی ضرورت ہے کہ معاہدہ ہو گیا ہے۔
ٹرمپ نے کمرے میں موجود سامعین اور لاکھوں افراد، جنھوں نے اب ویڈیو دیکھ لی ہے، بتایا کہ انھیں وہاں سے جانا پڑے گا۔
اس دن کے کاموں کو معطل کر کے ٹرمپ نے کہا ’انھیں اب میری ضرورت ہو گی۔۔۔ مجھے اب جانا ہوگا تاکہ مشرق وسطیٰ کے کچھ مسائل حل کرنے کی کوشش کر سکوں۔‘
اسرائیل اور حماس نے مصر میں تین دن کی بالواسطہ بات چیت کے بعد اس پہلے مرحلے پر اتفاق کیا جسے ڈونلڈ ٹرمپ ایک وسیع تر معاہدے کا حصہ بنانا چاہتے ہیں۔
ٹرمپ نے روبیو سے سرگوشی کے بعد اعلان کیا کہ ’مجھے مشرق وسطیٰ میں کچھ مسائل حل کرنے کی کوشش کرنے کے لیے ابھی جانا ہے‘قطر اور مصر کے ثالث اسرائیلی اور فلسطینی مذاکرات کاروں کے پاس گئے جو بحیرہ احمر کےمشہور سیاحتی مقام شرم الشیخ کے ایک ہوٹل کی مختلف منزلوں پر موجود تھے۔
بات چیت کو مؤثر بنانے اور اسرائیلیوں پر دباؤ قائم رکھنے کے لیے، ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے داماد جیرڈ کشنر اور اپنے نمائندے سٹیو وٹکوف کو بھیجا۔
قطر کے وزیرِ اعظم اور مصر و ترکی کے خفیہ اداروں کے سربراہ بھی حماس کے وفد کے لیے یہی کام کرنے کے لیے وہاں موجود تھے۔
یہ معاہدہ ایک بڑی پیش رفت ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ جنگ ختم ہو گئی ہے، لیکن حماس کے اسرائیل پر حملوں کے بعد پہلی بار پچھلے دو سالوں کے دوران پیش آنے والے ہولناک واقعات کو ختم کرنے کا ایک کا حقیقت پسندانہ امکان موجود ہے۔
ایک بڑا قدم لیکن مزید اقدامات کی ضرورت ہے
منصوبہ یہ ہے کہ جنگ بندی کے بعد فلسطینی قیدیوں کے بدلے باقی اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کیا جائے گا۔
حکومتی ترجمان کے مطابق اسرائیلی فوج آئی ڈی ایف اپنی موجودہ پوزیشنوں سے پیچھے ہٹ جائے گی، جسکے بعد وہ غزہ کے53 فیصد حصے میں رہ جائے گی۔
اسرائیل غزہ میں داخل ہونے والی انسانی امداد پر عائد پابندیاں ختم کر دے گا اور ایک دن میں 400گاڑیوں کے داخلے کی اجازت دی جائے گی جسے اقوام متحدہ اور دیگر ایجنسیوں کے ذریعے تقسیم کیا جائے گا۔
متنازع غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن، جو ایک ناقابلِ اعتبار نظامہے اور جسے اسرائیل اقوام متحدہ کی جگہ دینا چاہتا تھا، اس کا ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 نکاتی منصوبے میں اس کا کہیں ذکر نہیں ہے۔
یہ معاہدہ ایک بڑا قدم ہے لیکن جنگ کے اختتام تک پہنچنے کے لیے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
ٹرمپ کا منصوبہ ایک فریم ورک ہے جس کی تفصیلات پر بات چیت باقی ہے۔ تاہم سنگین رکاوٹیں باقی ہیں۔
حماس چاہتی ہے کہ اسرائیل غزہ کی پٹی سے نکل جائے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہو گا۔
حماس بھاری ہتھیار چھوڑنے کے لیے تیار ہے لیکن کچھ اسلحہ رکھنا چاہتی ہے۔ نتن یاہو غزہ کو مکمل طور پر غیر عسکری بنانا ( ڈیمیلیٹریائزیشنن) چاہتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اسرائیل کی فتح صرف یرغمالیوں کی واپسی کی واپسی تک محدود نہیں ہے۔ انھوں نے کئی بار کہا ہے کہ حماس کو تباہ کیا جانا چاہیے، تاکہ غزہ میں اسرائیلیوں کے لیے دوبارہ خطرہپیدا ہونے کا کوئی امکان نہ رہے۔
منصوبہ یہ ہے کہ جنگ بندی کے بعد باقی ماندہ اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کی جائے گی، اس کے بدلے میں فلسطینی قیدیوں اور اسیران کو رہا کیا جائے گا بائیڈن کا منصوبہ کتنا مختلف تھا؟
مئی 2024 میں صدر جو بائیڈن نے ایک معاہدہ پیش کیا تھا جو ٹرمپ کے منصوبے سے ملتا جلتا ہے۔
اس کے بعد حماس نے اس بات پر اتفاق کیا کہ اگر آئی ڈی ایف غزہ کی پٹی سے نکل جاتا ہے تو وہ اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرے گا اور اس بات کی ضمانت دی گئی تھی کہ اسرائیل جنگ دوبارہ شروع نہیں کرے گا۔
نتن یاہو اس سے اتفاق کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔
پچھلے دو سالوں میں وہ بار بار کہہ چکے ہیں کہ جنگ جاری رکھنا ہی یرغمالیوں کو واپس لانے اور حماس کو تباہ کرنے کا واحد راستہ ہے۔
بائیڈن نے کبھی بھی اسرائیل کو امریکی سفارتی، مالی اور فوجی مدد ختم کرنے کی دھمکی نہیں دیشاید بائیڈن کا منصوبہ دونوں فریقوں کے لیے بہت جلد تھا۔ اب جو کچھ ہوا ہے اور پچھلے سال مئی میں جو کچھ نہیں ہوا اس کے درمیان فرق یہ ہے کہ ٹرمپ نے نتن یاہو کو میز پر لانے کے لیے اسرائیل پر امریکہ کے اثر و رسوخ کو استعمال کیا ہے۔
اسرائیل کے جنگ کے طرز عمل پر تشویش کا اظہار کرنے کے باوجود بائیڈن نے کبھی بھی امریکی سفارتی، مالی اور فوجی مدد ختم کرنے کی دھمکی نہیں دی، سوائے ایک بار جب 2000 پاؤنڈ بموں کی ایک کھیپ روک دی گئی۔
اسرائیل امریکی مدد کے بغیر یہ جنگ نہیں لڑ سکتا تھا، لیکن بائیڈن نے اس انحصار سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی۔
نتن یاہو پُراعتماد تھے کہ وہ ان کی مخالفت کے باوجود اپنے فیصلوں پر قائم رہ سکتے ہیں۔ ٹرمپ نے فوجی اور سیاسی حمایت برقرار رکھی ہے لیکن وہ اس کے بدلے میں بہت کچھ چاہتے ہیں۔
دوحہ حملے کا اثر
ایک اہم واقعہ جس نے پیش رفت کی راہ ہموار کی، وہ اسرائیل کی 9 ستمبر کو دوحہ میں حماس کی قیادت کو قتل کرنے کی ناکام کوشش تھی۔
اس حملے کا مرکزی ہدف سینئر رہنما خلیل الحیا اور ان کے ساتھی تھے جو اس وقت ٹرمپ کے امن منصوبے کے تازہ ترین مسودے پر تبادلہ خیال کر رہے تھے۔
وہ خود تو بچ گئے، لیکن ان کا بیٹا حملے میں مارا گیا۔ خلیل الحیا اس وقت مصر میں حماس کے وفد کی قیادت کر رہے ہیں۔
اسرائیلیوں نے یہ حملہ کرنے سے پہلے امریکیوں کو اطلاع نہیں دی تھی۔ ٹرمپ اس بات پر شدید غصے میں آ گئے۔
جب نتن یاہو نے وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں ان سے ملنے کو کہا تو ٹرمپ نے انھیں قطری وزیر اعظم کو فون کرنے پر مجبور کیا تاکہ وہ ان سے معافی مانگیں۔
جس وقت نتن یاہو پہلے سے تیار کردہ معافی نامہ پڑھ رہے تھے، فون کا ہینڈ سیٹ ایک لمبی تار کے ذریعے ٹرمپ کی گود میں رکھا ہوا تھا اور وہ غصے میں نظر آ رہے تھے۔
وائٹ ہاؤس نے جو تصاویر جاری کیں ان میں وہ کسی ہیڈ ماسٹر کی طرح لگ رہے تھے جو ایک نافرمان طالبعلم سے زبردستی معافی منگوا رہا ہو۔
ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹو آرڈر بھی جاری کیا جس میں قطر پر دوبارہ حملہ ہونے کی صورت میں اسے غیر معمولی سکیورٹی کی ضمانت دی گئی ہے۔
نتن یاہو کو یہ معافی اس لیے مانگنی پڑی کیونکہ قطر امریکہ کا اتحادی ہے، مشرق وسطیٰ میں سب سے بڑا امریکی فوجی اڈہ وہیں موجود ہے اور یہ خطے میں امن کے لیے ٹرمپ کے وسیع تر منصوبے کا ایک اہم حصہ ہے۔
اس منصوبے کی بنیاد ایک بڑے معاہدے پر ہے جس کے تحت سعودی عرب، اسرائیل سے تعلقات معمول پر لائے گا۔
لیکن اسرائیلی حملے نے امریکہ کو ایسا اتحادی بنا کر پیش کیا ہے جو اپنے دوستوں کی حفاظت بھی نہیں کر سکتا۔
دوحہ میں حماس کی قیادت کو اسرائیلی حملے میں نشانہ بنایا گیا کئی دوسری چیزیں بھی بدلیں، جیسے آئی ڈی ایف نے بہت سے فلسطینیوں کو ہلاک کیا ہے اور غزہ کے بہت زیادہ حصے کو تباہ کر دیا ہے۔ اسرائیل آج جتنا تنہا ہے شاید 1948 میں اپنے قیام کے بعد سے کبھی نہیں رہا۔
ستمبر میں نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں سپیکر کے پوڈیم پر نتن یاہو کے آتے ہیسفارت کاروں نے احتجاجاً واک آؤٹ کیا تھا۔
امریکہ بدستور ایک طاقتور اتحادی ہے لیکن امریکی عوام میں کیے گئے سروے ظاہر کرتے ہیں کہ اسرائیل اب اکثریتی امریکی حمایت پر ویسے انحصار نہیں کر سکتا جیسے ماضی میں کرتا تھا۔ لہذا سیاسی طور پر اب امریکہ پر یہ دباؤ نہیں رہا کہ وہاسرائیلی وزیراعظم کی ہاں میں ہاں ملائے۔
برطانیہ اور فرانس کی سربراہی میں اسرائیل کے یورپی اتحادیوں نے فلسطین کی ایک آزاد ریاست کو تسلیم کر لیا ہے۔ ان کے سرکاری بیانات میں غزہ میں ہونے والے قتل و غارت، تباہی، اور اسرائیلی ناکہ بندیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بھوک و قحط پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
اگر ٹرمپ کے 20نکاتی منصوبے کا مقصد جنگ کو ختم کرنا ہے تو امریکہ کو اسرائیل پر دباؤ جاری رکھنا ہو گا۔نو ستمبر کو دوحہ پر ہونے والے حملے نے عرب اور مسلم اکثریتی ممالک میں بھی عجلت کا ایک نیا احساس پیدا کیا۔ ایک غیر معمولی متحد محاذ نے ڈونلڈ ٹرمپ پر دباؤ ڈالا کہ وہ اسرائیل کو مذاکرات کی میز پر لائیں۔
اگر ٹرمپ کے 20نکاتی منصوبے کا مقصد جنگ کو ختم کرنا ہے تو امریکہ کو اسرائیل پر دباؤ جاری رکھنا ہو گا۔
ایک بڑا سوال یہ ہے کہ کیا یرغمالیوں کے گھر آنے کے بعد نتن یاہو جنگ دوبارہ شروع کرنے کا کوئی راستہ تلاش کر لیں گے۔ کابینہ میں ان کے انتہائی قوم پرست اتحادی چاہتے ہیں کہ ایسا ہو۔
امیر خلیجی ریاستیں جن کی ٹرمپ تعریف کرتے ہیں اور جو غزہ کی دوبارہ تعمیرِ نو میں بڑا کردار ادا کرنا چاہتی ہیں، وہ امریکی صدر پر دباؤ برقرار رکھیں گی کہ جنگ دوبارہ نہ شروع ہو سکے۔
کیا نتن یاہو یرغمالیوں کی وطن واپسی کے بعد جنگ دوبارہ شروع کرنے کا کوئی راستہ تلاش کر سکتے ہیں؟دونوں طرف خوشی اور تلخی کے ملے جلے جذبات کے ساتھ جشن
شرم الشیخ میں ہونے والی پیش رفت کا اسرائیل اور غزہ کی پٹی کے اندر جشن سے استقبال کیا گیا، مگر دونوں جانب اس میں تلخی بھی شامل تھی کیونکہ بہت بڑا نقصان ہو چکا ہے۔
اسرائیل میں یرغمالیوں کے اہل خانہ اور ان کے حامی مسلسل دباؤ اور مظاہروں کے ذریعے اپنے فوجیوں کو غزہ سے واپس لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
رائے عامہ کے سروے مسلسل یہ دکھاتے ہیں کہ اگر زندہ یرغمالی گھر واپس آ جائیں اور مرنے والوں کی باقیات مل جائیں تو اسرائیلیوں کی اکثریت اس جنگ کو ختم کرنے کے لیے تیار ہے۔
خیال کیا جا رہا ہے کہ تقریباً 20 یرغمالی زندہ ہو سکتے ہیں۔ حماس نے تقریباً 28 دیگر کی لاشیں واپس کرنے پر بھی رضا مندی ظاہر کی ہے، اگرچہ یہ واضح نہیں کہ ان سب کے قبریں تلاش کی جا سکیں گی یا نہیں۔
فلسطینیوں نے غزہ کے کھنڈرات میں جشن منایا۔ یرغمالیوں کے بدلے میں اسرائیل نے عمر قید کی سزا کاٹنے والے 250قیدیوں اور 1700 زیر حراست افراد کو رہا کرنے پر اتفاق کیا ہے جنھیں آئی ڈی ایف نے گذشتہ دو سالوں کے دوران غزہ سے حراست میں لیا ہے۔
فلسطینی ان کا ہیرو کے طور پر استقبال کریں گے۔
فلسطینیوں نے غزہ کے کھنڈرات میں جشن منایااسرائیل نے مروان برغوتی کو رہا کرنے سے انکار کر دیا ہے جنھیں 2002میں گرفتار کیا گیا تھا اور بعد میں اسرائیلیوں پر حملوں کی منصوبہ بندی کے الزام میں پانچ مرتبہ عمر قید اور 40سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
بہت سے فلسطینی انھیں اپنے نیلسن منڈیلا کے طور پر دیکھتے ہیں، جو جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کے خلاف تحریک کی قیادت کرنے کے جرم میں 27 سال قید میں رہے اور بعد میں رہائی پا کر جمہوری انتخاب جیتے۔
حماس اپنے کچھ اہم کمانڈروں کی رہائی چاہتی ہے جنھیں اسرائیل خطرناک دہشت گرد سمجھتا ہے۔ ان کی رہائی متنازع ہو گی۔
یحییٰ سنوار جنھوں نے اسرائیل کے ہاتھوں ہلاک ہونے سے پہلے سات اکتوبر کے حملوں کی قیادت کی تھی، کو 2011میں قیدیوں کے تبادلے میں رہا کیا گیا تھا۔
خیال کیا جاتا ہے کہ حماس کی فہرست میں عباس السید بھی شامل ہیں جنھیں 35 مرتبہ عمر قید کی سزاؤں کے علاوہ 100 سال قید سنائی گئی ہے، ان پر 2002 کے ایک حملے کا الزام ہے جس میں 35 اسرائیلی پاس اوور مناتے ہوئے ہلاک ہو گئے تھے۔
ایک اور نام حسام سلامہ ہے جنھیں 1996 میں یروشلم میں بسوں کو اڑانے کے لیے خودکش حملے آوروں کو بھیجنے کے جرم میں 46 مرتبہ عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس واقعے میں درجنوں اسرائیلی ہلاک اور زخمی ہوئے تھے۔
رائے عامہ کے سروے مسلسل یہ دکھاتے ہیں کہ اگر زندہ یرغمالی گھر واپس آ جائیں اور مرنے والوں کی باقیات مل جائیں تو اسرائیلیوں کی اکثریت اس جنگ کو ختم کرنے کے لیے تیار ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ مشرق وسطیٰ کے لیے ’3000 سالوں میں ہونے والا سب سے بڑا واقعہ‘ ہو سکتا ہے۔ اگرچہ یہ بیان اُن کے مخصوص انداز کی مبالغہ آمیزی کی ایک بڑی مثال ہے۔
لیکن اگر اسرائیلی یرغمالیوں کے بدلے فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے بعد ٹرمپ منصوبے کے دیگر نکات پر بھی پیش رفت ہوتی ہے تو واقعی امید کی جا سکتی ہے کہ دونوں جانب کی طویل تکلیف کا کچھ ازالہ ممکن ہو سکتا ہے۔
اگرچہ آگے کا راستہ خطرات اور پیچیدہ مذاکرات سے بھرا ہوا ہے، پھر بھی پُرامید حلقے پہلے ہی یہ سوچنے لگے ہیں کہ غزہ کی جنگ کا اختتام مشرقِ وسطیٰ میں ایک نئے باب کی شروعات ثابت ہو سکتا ہے۔ مگر ایسا ممکن بنانے کے لیے مستقل مزاجی اور سنجیدگی درکار ہوگی۔۔۔جو ٹرمپ نے اب تک کم ہی دکھائی ہے۔
مصر میں ہونے والے مختصر اور تیز رفتار مذاکرات ٹرمپ کے جارحانہ اور دباؤ ڈالنے والے انداز سے میل کھاتے ہیں۔
لیکن اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان ایک صدی سے جاری اس تنازعے کو، جو دریائے اردن سے بحیرۂ روم تک کی زمین پر کنٹرول کے گرد گھومتا ہے، ختم کرنے کے لیے ایک بالکل مختلف سطح کی لیڈرشپ کی ضرورت ہے۔