صحافی اعظم چوہدری کہتے ہیں کہ طیفی بٹ نجی محافل میں اکثر یہ کہا کرتے تھے کہ ’میں اپنے گھر کا کوئی مچھر بھی نہیں مرنے دُوں گا‘ لیکن آج وہ خود اس دُنیا میں نہیں رہے۔
پاکستان میں صوبہ پنجاب کے کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ (سی سی ڈی) نے دعویٰ کیا ہے کہ گذشتہ برس لاہور میں قتل ہونے والے امیر بالاج ٹیپو کے قتل میں ملوث نامزد مرکزی ملزم خواجہ تعریف گلشن عرف طیفی بٹ مبینہ پولیس مقابلے میں مارے گئے ہیں۔
یاد رہے کہ امیر بالاج ٹیپو کو گذشتہ برس 18 فروری کو اُس وقت قتل کر دیا گیا تھا جب وہ لاہور کے ایک پوش علاقے کی نجی ہاوسنگ سوسائٹی میں اپنے ایک دوست کی شادی کی تقریب میں شریک تھے۔ اس تقریب میں فوٹوگرافر کے روپ میں شریک شخص نے امیر بالاج پر فائرنگ کر دی تھی جس کے نتیجے میں وہ ہلاک ہو گئے۔
امیر بالاج کے قتل کی ایف آئی آر اُن کے بھائی امیر معصب کی مدعیت میں درج کی گئی تھی جس میں خواجہ تعریف گلشن عرف طیفی بٹ اور خواجہ عقیل عرف گوگی بٹ کو مرکزی ملزم نامزد کیا گیا تھا۔
پاکستان کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی) نے چار اکتوبر کو رپورٹ کیا تھا کہ ’امیر بالاج ٹیپو قتل کیس کے مرکزی ملزم خواجہ تعریف گلشن عرف طیفی بٹ کو دبئی سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔‘
رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ ’یہ گرفتاری پولیس نے انٹرپول کی مدد سے کی ہے اور ملزم کو جلد از جلد پاکستان منتقل کرنے کے لیے قانونی کارروائی جاری ہے اور توقع ہے کہ انھیں آئندہ چند روز میں لاہور لایا جائے گا۔‘
اور اب 11 اکتوبر (سنیچر کی دوپہر) کو پنجاب کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ (سی سی ڈی) کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز میں بتایا گیا کہ ملزم خواجہ طارق گلش کو جمعہ (10 اکتوبر) کو دبئی سے کراچی لایا گیا تھا جس کے بعد کراچی اِیئر پورٹ حکام نے انھیں سی سی ڈی کی تحویل میں دے دیا تھا۔
سی سی ڈی نے دعویٰ کیا ہے کہ ملزم کو بذریعہ سڑک کراچی سے لاہور منتقل کیا جا رہا تھا جب جمعہ کی علی الصبح پنجاب کے شہر رحیم یار خان کے قریب سی سی ڈی کی گاڑی پر طیفی بٹ کے مسلح ساتھیوں نے حملہ کر دیا۔
پریس ریلیز میں مزید دعویٰ کیا گیا اس موقع پر ہونے والی فائرنگ کے تبادلے میں سی سی ڈی کا ایک اہلکار شدید زخمی ہوا جسے قریبی ہسپتال منتقل کیا گیا جبکہ مسلح افراد طیفی بٹ کو حراست سے چھڑا کر فرار ہو گئے۔
اس واقعے سے متعلق ڈی ایس پی (سی سی ڈی) سید حسین حیدر کی مدعیت میں ایک ایف آئی آر بھی درج کی گئی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا کہ دو گاڑیوں میں سوار سات سے آٹھ مسلح افراد نے پولیس ٹیم پر حملہ کیا، فائرنگ کی اور ملزم کو چھڑوا لیا گیا۔
سی سی ڈی کے بیان می مزید کہا گیا کہ مسلح حملہ آوروں اور ملزم طیفی بٹ کی تلاش کے لیے مقامی پولیس کی بھی مدد لی گئی اور سنیچر کی صبح لگ بھگ پانچ بجے دو مشتبہ گاڑیوں کو روکا گیا اور اس دوران پھر فائرنگ کا تبادلہ ہوا جو 20 سے 25 منٹ تک جاری رہا۔
سی سی ڈی کا دعویٰ ہے کہ فائرنگ کے بعد جب اہلکار گاڑیوں کے قریب پہنچے تو ایک شخص شدید زخمی حالت میں وہاں موجود تھا جس کی شناخت بعدازاں ملزم طیفی بٹ کے طور پر ہوئی جنھیں ہسپتال منتقل کیا گیا مگر وہ ہلاک ہو گئے۔
سی سی ڈی کا دعویٰ ہے کہ دوسری مرتبہ ہونے والی فائرنگ کے نتیجے میں بھی سی سی ڈی کا ایک اہلکار شدید زخمی ہوا۔ دوسری جانب رحیم یار خان میں ڈائریکٹر ایمرجنسی شیخ زید ہسپتال کے مطابق ہلاک ہونے والے ملزم کی لاش کا پوسٹ مارٹم کر دیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ سی سی ڈی کی حراست سے فرار ہونے کی کوشش اور اس کے بعد ملزم کے ہلاک ہو جانے سے متعلق یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ قانونی ماہرین اس نوعیت کے معاملات کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور انھیں ’ماورائے عدالت‘ کارروائیاں قرار دیتے ہیں۔
ایسے واقعات کے بعد پولیس کی جانب سے عموماً یہ روایتی بیان جاری کیا جاتا ہے کہ ملزم کو چھڑوانے کے لیے پولیس ٹیم پر حملہ کیا گیا اور اس دوران ملزم اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہو گیا۔
پنجاب میں حالیہ مہینوں میں سنگین جرائم بشمول خواتین اور بچوں کے خلاف جرائم میں نامزد بہت سے ملزمان اسی نوعیت کے مشکوک حالات میں مارے جا چکے ہیں۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے سینیئر کرائم رپورٹر اعظم چوہدری کہتے ہیں اتنے ہائی پروفائل ملزم کو دبئی سے لاہور کے بجائے کراچی لایا جانا اور پھر بذریعہ سڑک کراچی سے ان کی لاہور منتقلی کرنا بھی حیرت انگیز ہے کیوںکہ ایسے معاملات میں پولیس ملزمان کی سکیورٹی کو مدنظر رکھتی ہے اور فضائی سفر ہی کو ترجیج دی جاتی ہے۔
سی سی ڈی نے اس معاملے پر مزید کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
خواجہ تعریف گلشن عرف طیفی بٹ کون تھے؟
طیفی بٹ کو لاہور کا بڑا انڈر ورلڈ ڈان سمجھا جاتا تھا اور اُن کے کزن گوگی بٹ کی لاہور کے ٹرکاں والا خاندان کے ساتھ دیرینہ دُشمنی ہے۔
امیر بالاج ٹیپو کے قتل میں بطور مرکزی ملزم نامزدگی کے بعد سے خواجہ تعریف گلش عرف طیفی بٹ مفرور تھے۔
طیفی بٹ اور اُن کے کزن گوگی بٹ کا شمار لاہور کے بڑے ’انڈر ورلڈ ڈانز‘ میں ہوتا تھا۔
لاہور کے علاقے گوالمنڈی سے تعلق رکھنے والے اس خاندان کی شاہ عالم کے علاقے میں اثر و رسوخ رکھنے والے ٹرکاں والا خاندان سے دیرینہ دُشمنی تھی، جس کا ذکر امیر بالاج قتل کیس میں درج ایف آئی آر میں بھی موجود ہے۔
بی بی سی نے ان دونوں خاندانوں کی دُشمنی کے حوالے سے ایک تفصیلی سٹوری کی تھی جس میں امیر بالاج ٹیپو کے قتل کے محرکات اور ان خاندانوں کے بیچ دُشمنی کے آغاز کا ذکر کیا گیا تھا۔
بی بی سی کی اس تفصیلی رپورٹ کے مطابق اس دیرینہ دُشمنی کا آغاز ٹرکاں والا خاندان کے بلا ٹرکاں والا کے سنہ 1994 میں قتل کے بعد ہوا تھا۔ ٹرکاں والا خاندان کو یہ رنج تھا کہ طیفی بٹ نے بلا ٹرکاں والے کو قتل کرنے والے ملزمان شفیق اور حنیف کو پناہ دی تھی۔
صحافی ماجد نظامی نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ خواجہ تعریف عرف طیفی بٹ اور خواجہ عقیل عرفی گوگی بٹ اس زمانے میں اندرون لاہور کے انڈر ورلڈ کے بڑے نام تھے۔
'وہ خود کو کاروباری کہلاتے تھے مگر اُن پر زمینوں اور جائیدادوں پر قبضوں کے درجنوں کیس موجود تھے۔‘
ماجد نظامی کے مطابق طیفی بٹ پر یہ الزام بھی تھا کہ وہ اپنے ڈیروں پر اشتہاریوں اور جرائم پیشہ افراد کو پناہ دیتے تھے اور پھر انھیں اپنے غیرقانونی کاموں کے لیے استعمالکرتے تھے۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی میاں عابد کہتے ہیں کہ طیفی بٹ اور گوگی بٹ دونوں پھوپھی زاد بھائی ہیں۔
’یہ دونوں افراد لاہور پولیس کو زیادہ تر زمینوں پر ناجائز قبضوں اور بھتّہ وغیرہ کے مقدمات میں مطلوب رہتے تھے۔ یہ اشتہاری مجرموں کو پناہ بھی دیتے تھے اور مجرم بھی ان کے لیے کام کرتے تھے۔ انڈرورلڈ میں ان لڑائیوں میں بھی ان اشتہاریوں کا استعمال کیا جاتا تھا۔‘
لاہور ہی سے تعلق رکھنے والے سینیئر کرائم رپورٹر نعیم حنیف کے مطابق طیفی بٹ اس سے قبل بھی کئی مقدمات میں نامزد کیے جا چکے ہیں ’لیکن جس طرح سے امیر بالاج کے قتل کو سوشل میڈیا پر ہائی لائٹ کیا گیا اور اس کی وسیع پیمانے پر کوریج کی گئی، اس نے طیفی اور گوگی بٹ کی مشکلات میں اضافہ ہوا۔‘
نعیم حنیف کہتے ہیں کہ امیر بالاج کے قتل کے بعد سے طیفی بٹ کا نام بار بار سامنے آتا رہا اور اُن کی گرفتاری کے لیے پولیس پر دباؤ بڑھتا جا رہا تھا، لیکن شاید یہ کسی کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ اُن کا انجام ایسا ہو گا۔

’میں اپنے گھر کا مچھر بھی نہیں مرنے دوں گا‘
لاہور میں پرانی خاندانی دُشمنیوں اور دیگر جرائم کی کوریج کرنے والے صحافی اعظم چوہدری کہتے ہیں کہ طیفی اور گوگی بٹ خاندان کے سیاسی روابط بھی تھے۔
اُن کے بقول جب سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں گوالمنڈی میں فوڈ سٹریٹ بنائی گئی تو طیفی بٹ کا خاندان اس میں پیش پیش تھا۔
وہ بتاتے ہیں کہ سابق صدر پرویز مشرف نے بسنت کے موقع پر گوالمنڈی میں گوگی بٹ کی چھت پر پتنگ بازی کی تھی جبکہ اس کے علاوہ بھی اس خاندان کے دیگر سیاسی جماعتوں سے بھی مراسم تھے۔
اُن کے بقول طیفی بٹ ماضی میں لاہور کی اکبری منڈی میں تاجر تنظیم کے الیکشن بھی لڑتے رہے ہیں۔
اعظم چوہدری کہتے ہیں کہ اگر تاریخ پر نگاہ ڈالی جائے تو ٹیپو ٹرکاں والا خاندان سے دُشمنی کے دوران طیفی بٹ کے خاندان کا کوئی فرد نہیں مارا گیا تھا، تاہم یہ ضرور ہے کہ امیر بالاج کے قتل کے بعد طیفی بٹ کے بہنوئی جاوید کو لاہور کے علاقے گلبرگ میں قتل کر دیا گیا تھا۔
اُن کے بقول طیفی بٹ کے بھائی خواجہ اظہر گلشن بھی لاہور میں تاجر تنظیموں کے عہدے دار رہ چکے ہیں۔ لیکن اس خاندان میں سب سے زیادہ اثر و رسوخ طیفی بٹ کا ہی تھا۔
صحافی اعظم چوہدری کہتے ہیں کہ طیفی بٹ نجی محافل میں اکثر یہ کہا کرتے تھے کہ ’میں اپنے گھر کا کوئی مچھر بھی نہیں مرنے دُوں گا‘ لیکن آج وہ خود اس دُنیا میں نہیں رہے۔