’ٹیسٹ تو یہاں بابر اعظم اور شان مسعود کا بھی ہے‘

پاکستان جیسے سفید پوش کرکٹ بورڈز کے لیے ٹیسٹ کرکٹ ایک مخمصہ بن چکی ہے جسے کھیلنا بھی ناگزیر ہے مگر زیادہ کھیل پانا بھی ناممکن ہے۔ اگر خزانے کے کھیسے ٹی ٹوئنٹی سے بھرتے ہوں تو پھر کسے پڑی ہے کہ ڈیڑھ صدی پرانی روایت کے پالن میں اپنی جیب کٹوائے۔
تصویر
Getty Images
بابر اعظم جنوری سے تاحال کسی ایک بھی فرسٹ کلاس میچ کے لیے وقت نہیں نکال پائے

پاکستان جیسے سفید پوش کرکٹ بورڈز کے لیے ٹیسٹ کرکٹ ایک مخمصہ بن چکی ہے جسے کھیلنا بھی ناگزیر ہے مگر زیادہ کھیل پانا بھی ناممکن ہے۔ اگر خزانے کے کھیسے (جیب) ٹی ٹوئنٹی سے بھرتے ہوں تو پھر کسے پڑی ہے کہ ڈیڑھ صدی پرانی روایت کے پالن میں اپنی جیب کٹوائے۔

جتنا پیسہ چار گھنٹے کی ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کماتی ہے، ٹیسٹ میچ چار دن میں بھی نہیں کما سکتا۔ سو، ٹی ٹوئنٹی کے عہد میں ٹیسٹ کرکٹ کا حال بھی ویسا ہی ہے جیسا ریپ میوزک کے دور میں خیال گائیکی کا ہو چکا ہے۔

ایسے میں یہ قطعی بھنویں اُچکانے کی بات نہیں ہے کہ پاکستان نے اپنا آخری ٹیسٹ میچ نو ماہ پہلے کھیلا تھا اور چونکہ پی سی بی بھی تاریخ کے ایک اور نازک موڑ پر تعمیرِ نو میں مصروف رہا تو ڈومیسٹک سیزن بھی شروع ہوتے ہوتے بہت دیر لے گیا۔

بابر اعظم پاکستان کرکٹ کی پہچان ہیں۔ اگرچہ ٹی ٹوئنٹی میں اب وہ زیرِ غور نہیں رہے لیکن ٹیسٹ کرکٹ میں تو بہرحال وہ ہر ٹیم شیٹ کا پہلا نام ہوں گے۔ یہ بات وہ خود بھی جانتے ہیں مگر نجانے کیوں جنوری سے تاحال وہ کسی ایک بھی فرسٹ کلاس میچ کے لیے وقت نہیں نکال پائے۔

عین یہی قصہ شاہین آفریدی کا بھی ہے جو فرسٹ کلاس کرکٹ کو ترجیح نہیں دے پا رہے۔ دراصل اس پورے سکواڈ کا مسئلہ یہی ہے کہ کسی نے اگر ذرہ بھر فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلی بھی ہے تو اِکا دُکا میچز کے سوا کہیں کچھ دکھائی نہیں دیتا۔

باووما
Getty Images
پاکستان کے لیے یہ کسی نوید سے کم نہیں کہ مڈل آرڈر میں جنوبی افریقہ کے کپتان باووما نہیں ہیں

گو، پچھلے برس سپن کا جال بچھا کر پاکستان انگلش ٹیم کو نڈھال کرنے میں کامیاب رہا تھا مگر یہ جنوبی افریقی ٹیم نہ تو ’بیز بال‘ کھیلتی ہے اور نہ ہی اِس کے بلے باز سپن سے یوں نابلد ہیں جیسے سٹوکس کے بلے باز نکلے۔

اور پھر ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ جنوبی افریقہ جس سائیکل میں ورلڈ چیمپیئن بنی، چیمپیئن شپ کے اُسی سائیکل میں پاکستان ٹیبل کی سب سے نچلی ٹیم رہا۔

بظاہر اگرچہ یہ ممولے اور شہباز کی لڑائی سا معاملہ دکھائی دیتا ہے مگر پاکستان کے لیے امید اس پہلو میں نظر آتی ہے کہ جنوبی افریقی مڈل آرڈر کو اپنے کپتان ٹیمبا باوومہ کا ساتھ میسر نہ ہو گا اور وہ پوری طرح پاکستانی سپنرز کی مہارت کے نشانے پر ہو گا۔

گو ایڈن مارکرم اور دیگر بلے باز جنوبی افریقہ میں ہی کچھ سپن پچز پر اپنے تئیں پریکٹس تو کر آئے ہیں، مگر ’عاقب جاوید مارکہ‘ سپن پچز پر ساجد خان اور نعمان علی جیسی حیرت بھلا افریقی پچز کہاں دے پائی ہوں گی۔

جنوبی افریقہ کے لیے فکر انگیز پہلو یہ بھی ہے کہ اسے اپنے مستند سپنر کیشو مہاراج بھی پہلے ٹیسٹ کے لیے دستیاب نہ ہوں گے۔ گو، وہ دوسرے میچ میں موجود ہوں گے مگر کم از کم پہلا میچ پاکستانی مڈل آرڈر کے لیے کچھ اطمینان افزا رہے گا۔

تزویراتی اعتبار سے جہاں سپن کے معاملے میں پاکستان کی فوقیت نظر آتی ہے، وہیں حالیہ تجربے کا فقدان اس کی نمایاں دِقت بھی بن سکتا ہے کہ مخالف الیون نے پچھلے چند مہینوں میں خاصی ریڈ بال کرکٹ کھیل رکھی ہے۔

پاکستان کے سپنرز کے لیے بھی یہ کسی امتحان سے کم نہ ہوگا
Getty Images
’اپنی تازہ روش کے برعکس شان مسعود کو کپتان برقرار رکھتے ہوئے تسلسل کا جو نادر موقع پی سی بی نے فراہم کیا ہے، وہ کسی نایاب نوید سے کم نہیں‘

اکیلی مہارت ہی ٹیسٹ کرکٹ میں کامیابی کو کافی نہیں ہو سکتی، پانچ روزہ کھیل دراصل جسمانی و ذہنی فٹنس کی جانچ کا نام ہے اور یہ فٹنس تبھی برقرار رہ پاتی ہے جب اسے مسلسل پریکٹس میسر ہو۔

دوسرا زاویہ یہ بھی ہے کہ جب کنڈیشنز بلے بازی کے لیے مشکل ہوں گی تو امتحان صرف مہمان بلے بازوں کا ہی تو نہیں ہو گا، خود میزبان بھی تو زد میں آئیں گے۔ اگر جنوبی افریقی سپنرز حالات سے جلد سیکھ پائے تو تمام نظریں شان مسعود اور بابر اعظم پر ہوں گی۔

بابر اعظم نہ صرف فاسٹ بولنگ کا سامنا پسند کرتے ہیں بلکہ اچھے اچھوں کے خلاف من مانی بھی کر جاتے ہیں۔ شان مسعود بھی پیسرز کو اٹیک کرنا پسند کرتے ہیں مگر سپن کے خلاف دونوں ہی کی اپنی اپنی الجھنیں ہیں۔

ٹیسٹ کرکٹ لمبی دوڑ ہے اور اس کا بنیادی تقاضہ تسلسل ہے۔ اپنی تازہ روش کے برعکس شان مسعود کو کپتان برقرار رکھتے ہوئے تسلسل کا جو نادر موقع پی سی بی نے فراہم کیا ہے، وہ کسی نایاب نوید سے کم نہیں۔

مگر محسن نقوی جیسے منتظم کے زیرِ نگیں یہ تسلسل بھی اپنی بقا کے لیے نتائج کا طلبگار ہے کہ جس کپتان کو سینٹرل کنٹریکٹ کی سب سے نچلی کیٹیگری میں رکھا گیا ہو، وہ اپنے لیے تو کشفِ ذات کی آرزو کر سکتا ہے مگر ڈریسنگ روم میں نئی روح پھونکنا اس کی جیب کے پرے ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US