سمندر کے بیچ انڈین کیڈٹ کی کارگو جہاز سے پراسرار گمشدگی: ’کوئی چلتے جہاز سے کیسے لاپتہ ہو سکتا ہے؟‘

پچھلے تین ہفتوں سے نریندر سنگھ رانا کا گھر وسوسو اور اندیشوں میں ڈوبا ہوا ہے اور امید و بیم کے درمیان بہت سے سوالات کلبلا رہے ہیں کیونکہ ان کا 22 سالہ بیٹا کرن دیپ سنگھ رانا جو مرچنٹ نیوی میں کیڈٹ تھے، سمندر میں ایک جہاز سے اچانک لاپتہ ہو گئے ہیں۔

انڈیا کی شمالی ریاست اتراکھنڈ کے دارالحکومت دہرہ دون کی ایک تنگ گلی میں خاموشی چھائی ہے، لیکن اس خاموشی سے ایک خاندان کی مبہم کی امیدیں وابستہ ہیں۔

گذشتہ تین ہفتوں سے نریندر سنگھ رانا کے اہلخانہ وسوسوں اور اندیشوں میں ڈوبا ہوا ہے اور امید و بیم کے درمیان بہت سے سوالات جنم لے رہے ہیں۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ نریندر رانا کا 22 سالہ بیٹا کرن دیپ سنگھ رانا، جو مرچنٹ نیوی میں کیڈٹ تھے، سمندر میں ایک جہاز سے اچانک لاپتہ ہو گئے ہیں۔

کرن دیپ 18 ستمبر کو دہرہ دون سے اس سفر پر روانہ ہوئے تھے۔ وہ خام تیل عراق سے چین لے جانے والے ایک آئل ٹینکر ’ایم ٹی فرنٹ پرنسس‘ پر سوار تھے۔

یہ جہاز مارشل جزائر کے پرچم تلے ایگزیکٹو شپ مینجمنٹ (ای ایس ایم) کے تحت سمندر میں چلتا ہے۔ ای ایم ایس سنگاپور کی ایک نجی کمپنی ہے جو جہاز کے عملے کی بھرتی اور انتظام و انصرام سنبھالتی ہے۔

کمپنی کے مطابق: ’20 ستمبر کو جب یہ جہاز سری لنکا سے تقریباً 150 ناٹیکل میل جنوب مشرق میں تھا تو اس وقت معلوم ہوا کہ کیڈٹ کرن دیپ رانا جہاز سے لاپتہ ہیں۔‘

کمپنی کا کہنا ہے کہ اس نے واقعے کو ’انتہائی سنجیدگی اور حساسیت کے ساتھ لیا گیا ہے اور تحقیقات میں تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مکمل تعاون کیا جا رہا ہے۔‘

لیکن کرن دیپ کا خاندان کمپنی کے ان دعوؤں اور دلاسوں سے مطمئن نہیں ہے۔ اہلخانہ کا کہنا ہے کہ واقعے کے حوالے سے کئی متضاد بیانات جاری کیے گئے اور انھیں ابھی تک کوئی ٹھوس معلومات نہیں دی گئیں۔

’کوئی چلتے جہاز سے کیسے لاپتہ ہو سکتا ہے؟‘

کرن دیپ کے والد نریندر سنگھ رانا کا کہنا ہے کہ ’جب مجھے بتایا گیا کہ میرا بیٹا لاپتہ ہے تو میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ مجھے بتایا گیا کہ وہ چھ بجے کے قریب فوٹو شوٹ کے لیے ڈیک پر گیا تھا مگر واپس نہیں آیا۔‘

رانا کا کہنا ہے کہ یہ معلومات انھیں جہاز کے کپتان رشی کیش نے دی ہیں لیکن ان کی بات چیت میں بھی کئی تضادات تھے۔

وہ کہتے ہیں،: ’کبھی کہا جاتا تھا کہ وہ ڈیک پر گیا تھا، کبھی کہا جاتا تھا کہ چیف باورچی نے اسے آخری بار جہاز پر دیکھا تھا۔ لیکن جہاز میں جس جگہ کی بات کی جا رہی ہے وہاں سے سمندر بہت نیچے، اتنا نیچے ہے کہ وہاں سے گرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘

نریندر سنگھ کا کہنا ہے کہ انھوں نے وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی، وزیر اعظم کے دفتر، وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ سے اس ضمن میں اپیل کی ہے۔

’میں نے خود وزیر اعلیٰ دھامی سے ملاقات کی، انھوں نے یقین دہانی کرائی، لیکن ابھی تک کوئی ٹھوس کارروائی دیکھنے میں نہیں آئی۔ مجھے کمپنی کی طرف سے کوئی مناسب جواب نہیں ملا اور نہ ہی حکومت کی طرف سے کوئی مدد یا معلومات ملی ہیں۔‘

وہ مزید کہتے ہیں: ’ایک دن دہلی سے دو لوگ کمپنی کے نمائندے ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے آئے۔ انھوں نے کہا کہ کرن کی تلاش جاری ہے۔ لیکن میں کیسے یقین کروں کہ میرا بیٹا ایسے ہی غائب ہو گیا جیسے بتایا جا رہا ہے؟‘

’بس میرا بچہ لوٹ آئے‘

دیوار پر لٹکی اپنے بیٹے کی بچپن کی تصویر دیکھ کر کرن دیپ کی والدہ ششی رانا کی آنکھیں آنسوؤں سے بھیگ جاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’اب میرے دن اور رات ایک جیسے ہیں۔ میری بس یہی دعا ہے کہ میرا بچہ میرے پاس لوٹ آئے۔‘

ششی کا کہنا ہے کہ اُن کی آخری بار اپنے بیٹے سے 20 ستمبر کی دوپہر 12:30 بجے بات کی تھی۔ ’وہ مکمل طور پر نارمل تھا۔ وہ کسی پریشانی میں نہیں لگ رہا تھا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’کمپنی نے واضح طور پر یہ نہیں بتایا کہ میرے بیٹے کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ انھوں نے صرف اتنا کہا کہ وہ جہاز پر نہیں تھا اور نہ ہی سمندر میں پایا گیا۔ لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ ہمیں لگتا ہے کہ کچھ غلط ہوا ہے۔ میرے بیٹے کے ساتھ کچھ غلط ہوا ہے۔‘

کرن دیپ کی بہن سمرن اب اس معاملے کو ہر سطح پر اٹھانے میں مصروف ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’جس کیپٹن نے میرے والد کو بتایا کہ کرن لاپتہ ہے اس نے کہا کہ اسے آخری بار لائف بوٹ کے قریب شام 5:45 پر دیکھا گیا تھا، لیکن شام 5 بجے کے بعد کسی کو بھی ڈیک پر جانے کی اجازت نہیں ہے تو وہ وہاں کیسے پہنچا؟‘

سمرن کہتی ہیں کہ ’ہمیں جہاز پر موجود افراد نے بتایا کہ ڈیک سے ایک کیمرہ اور ایک جوتا ملا ہے۔ لیکن ایک کیمرہ اور صرف ایک جوتا ملنا بہت خوفناک بات ہے۔ کرن کو محفوظ رکھنا کمپنی کی ذمہ داری تھی۔ کوئی ڈیوٹی پر کیسے غائب ہو سکتا ہے؟‘

وہ کہتی ہیں کہ ’17 ستمبر کو کرن نے مجھے ایک وائس نوٹ بھیجا تھا، اس نے کہا کہ کام کا بوجھ بہت زیادہ ہے، اور یہ کہ بہت سے لوگ اسے پسند نہیں کرتے، اور کپتان ان پر زیادہ بوجھ ڈال رہے ہیں۔ اس نے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ تین یا چار لوگوں کا کام اکیلے کر رہا تھا۔‘

سمرن نے کہا کہ اس نے وزارت خارجہ، ڈی جی شپنگ، ایم آر سی سی کولمبو، چین، سنگاپور اور سری لنکا کے سفارت خانوں کو ای میلز بھیجیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’جب میں نے آئی ٹی ایف لندن (انٹرنیشنل ٹرانسپورٹ ورکرز فیڈریشن) کو بھی لکھا کہ ایم ٹی فرنٹ پرنسس نامی جہاز سے ایک کیڈٹ لاپتہ ہے۔ اس کے بعد سے ہی کچھ ردعمل آنا شروع ہوا۔‘

کمپنی، ایگزیکٹو شپ مینجمنٹ (ای ایس ایم) نے 10 اکتوبر کو ایک تفصیلی بیان جاری کیا، جس میں کہا گیا کہ کیڈٹ کرن دیپ سنگھ رانا کی گمشدگی کو ’انتہائی سنجیدگی اور حساسیت کے ساتھ لیا جا رہا ہے۔‘

کمپنی کے مطابق ’واقعہ کی اطلاع ملتے ہی جہاز اور میری ٹائم حکام کے ساتھ مل کر مکمل تلاشی اور ریسکیو آپریشن شروع کیا گیا۔ اس آپریشن میں سری لنکا کی جانب سے تعینات کردہ مرچنٹ نیوی کے دو دیگر جہاز اور ہیلی کاپٹر بھی شامل تھے۔ بحری اور فضائی راستے سے 96 گھنٹے کی تلاش کے باوجود کیڈٹ رانا کا پتہ نہیں چل سکا۔‘

ای ایس ایم نے کہا کہ وہ خاندان کے ساتھ ’مسلسل رابطے میں ہیں اور ہر ممکن جذباتی، انتظامی اور لاجسٹک مدد فراہم کر رہے ہیں۔‘

کمپنی کے مطابق: ’24 ستمبر کو ہمارے نمائندوں نے اہل خانہ سے دہلی میں ملاقات کی اور خاندان کو جہاز کے عملے کے ساتھ 45 منٹ کی بات چیت بھی کرائی گئی۔‘

کمپنی نے بتایا کہ ایک آزاد سرویئر مقرر کیا گیا ہے، جس نے 7 اکتوبر کو جہاز کا دورہ کیا۔

کمپنی نے مزید کہا کہ ’سروے کرنے والا اپنی رپورٹ بین الاقوامی سمندری معیارات کے مطابق تیار کرے گا اور اسے فلیگ سٹیٹ، ڈی جی شپنگ (انڈیا)، آئی ٹی ایف اور (چین میں) انڈین سفارت خانےکے ساتھ شیئر کرے گا۔‘

ای ایس ایم کا کہنا ہے کہ ’اس طرح کے واقعات میں، افواہیں اور غیر مصدقہ معلومات تیزی سے پھیل سکتی ہیں، لیکن کمپنی اس بات کو یقینی بنانا چاہتی ہے کہ تمام حقائق صرف سرکاری عمل کے ذریعے ہی سامنے آئیں۔‘

کرن دیپ کی والدہ کو اپنے بیٹے کا رات دن انتظار ہے
BBC
کرن دیپ کی والدہ ششی رانا کو اپنے بیٹے کا رات دن انتظار ہے

خاندان ابھی بھی پر امید

رانا خاندان اب ہر روز پوچھے گئے سوالات کے جوابات کا انتظار کرتا ہے۔ والد نریندر سنگھ رانا کہتے ہیں: ’مجھے لگتا ہے کہ کرن کہیں ہے، لیکن ہمیں اس کے بارے میں درست معلومات نہیں دی جا رہی ہیں۔ مجھے اب بھی اپنے کانوں میں اپنے بیٹے کی آواز سنائی دیتی ہے۔‘

ماں کہتی ہے کہ ’اگر میرا بیٹا زندہ ہے تو اسے واپس لاؤ اور اگر نہیں تو سچ بتاؤ، میں صرف یہ جاننا چاہتی ہوں کہ میرے بچے کے ساتھ کیا ہوا ہے۔‘

سمرن ہر روز ایک نئی ای میل لکھتی ہیں اور جواب کا انتظار کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں: ’ہر صبح جب میں جاگتی ہوں تو سوچتی ہوں کہ شاید آج مجھے کوئی ای میل یا جواب ملے گا، کوئی اچھی خبر ملے گی۔ میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ کرن کو انصاف ملے اور دنیا کو اس کی حقیقت کا پتہ چلے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US