’اس معاملے پر علی امین گنڈا پور نے باضابطہ طور پر استعفی دینے کا اعلان کیا اور وہ خود اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہوئے اور نئے وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں اپنا ووٹ دیا۔ لہذِا اس میں اب کوئی ابہام نہیں ہے۔‘
پاکستان میں خیبر پختونخوا اسمبلی نے پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے رُکن سہیل آفریدی کو نیا وزیرِ اعلیٰ منتخب کر لیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے اسمبلی کی کارروائِی کو ’غیر آئینی‘ قرار دیتے ہوئے ایوان سے واک آؤٹ کیا۔
سپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی کے مطابق سہیل آفریدی کو 145 رُکنی ایوان میں 90 ووٹ ملے۔ دوسری جانب خیبر پختونخوا اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر عباد اللہ نے وزیرِ اعلیٰ کے انتخاب کو ’غیر آئینی‘ قرار دیتے ہوئے عدالت سے رجوع کا اعلان کیا ہے۔
یاد رہے کہ نئے وزیر اعلیٰ کا یہ انتخاب ایک ایسے موقع پر عمل میں لایا گیا ہے جب گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے اسمبلی اجلاس سے چند گھنٹے قبل سابق وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کے استعفے پر اعتراض کرتے ہوئے اسے منظور نہیں کیا۔
قانونی ماہرین بھی اس معاملے پر مختلف آرا کا اظہار کر رہے ہیں۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ علی امین گنڈا پور نے خود اسمبلی اجلاس میں شرکت کر کے اپنے استعفے کی تصدیق کر دی چنانچہ ذاتی حیثیت میں پیش ہونے جیسے مطالبے کی کوئی اہمیت نہیں، جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ گورنر کے پاس اختیار ہے کہ وہ وزیرِ اعلیٰ کو بلوا کر استعفے کی تصدیق کر سکتے ہیں۔
اس سے قبل گورنر فیصل کریم کنڈینے وزیرِ اعلیٰ علی امین گنڈا پور کا استعفیٰ یہ اعتراض لگانے کے بعد واپس بھجوا دیا تھا کہ اس پر موجود اُن کے دستخط میل نہیں کھاتے۔
گورنر خیبر پختونخوا نے اتوار اور پیر کی درمیانی شب اپنے ’ایکس‘ ہینڈل پر وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کو لکھا گیا وہ خط شیئر کیا جس میں اُنھوں نے اُن کی جانب سے ارسال کیے گئے دونوں استعفوں کو مسترد کرتے ہوئے اُنھیں ذاتی حیثیت میں 15 اکتوبر کو استعفیٰ کی تصدیق کے لیے گورنر ہاؤس آنے ہدایت کی ہے۔
خط میں گورنر کا کہنا تھا کہ ’آٹھ اور 11 اکتوبر کو گورنر ہاؤس بھجوائے جانے والے مبینہ استعفوں میں کیے جانے والے دستخط مماثلت نہیں رکھتے۔‘
گورنر خیبر پختونخوا نے خط میں مزید بتایا کہ ’وہ شہر میں نہیں ہیں اور 15 اکتوبر کو واپس آئیں گے۔ لہذِا وزیرِ اعلیٰ گنڈا پور بدھ کی سہ پہر تین بجے گورنر ہاؤس آ کر ان مبینہ استعفوں اور ان پر موجود اپنے دستخطوں کی تصدیق کریں۔‘
گورنر خیبر پختونخوا کی ’ایکس‘ پوسٹ پر ردعمل دیتے ہوئے علی امین گنڈا پور نے لکھا کہ ’آخرکار گورنر خیبر پختونخوا کو میرے دونوں استعفے مل گئے ہیں۔ میں تصدیق کرتا ہوں کہ اِن دونوں استعفوں پر میرے ہی دستخط ہیں۔‘
بعدازاں پیر کی صبح خیبر پختونخوا اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے علی امین گنڈا پور کا کہنا تھا کہ پاکستان میں جمہوریت کو مذاق بنایا جا رہا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ وہ اپنا استعفیٰ گورنر کو بھجوا چکے ہیں اور اب ہر معاملے پر پارٹی کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔
پاکستان تحریک انصاف نے گورنر خیبر پختونخوا کی جانب سے وزیرِ اعلیٰ کے استعفے پر اعتراض لگانے کے معاملے پر سخت ردِعمل دیا ہے۔
پارٹی رہنما نعیم اختر پنجوتھا نے ’ایکس‘ پر لکھا کہ ’فیصل کنڈی نے علی امین کا استعفیٰ مسترد کر کے اپنے حلف کی صریح خلاف ورزی کی اور آئین کا تقدس برقرار رکھنے میں ناکام رہے، چنانچہ انھیں فوری طور پر ہٹایا جائے۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ آئین کے تیسرے شیڈول کے ساتھ پڑھے گئے آرٹیکل 102 کے تحت، گورنر آئین کے مطابق کام کرنے کا پابند ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ نے لکھ کر استعفی دیا اور اُن کا ویڈیو پیغام بھی موجود ہے جس میں وہ مستعفی ہونے کا اعلان کر رہے ہیں۔ ’پہلی دفعہ استعفی نہ ملنے کا عذر دیا گیا تو علی امین گنڈا پور نے دوسری مرتبہ استعفی بھجوایا تاکہ کوئی عذر نہ رہے۔‘
نعیم اختر کا کہنا تھا کہ دستخطوں پر اعتراض اُس وقت ہوتا ہے جب کوئی شخص موجود نہ ہو اور اسے کوئی جانتا نہ ہو۔
قانونی ماہرین کیا کہتے ہیں؟
آئین پاکستان کا آرٹیکل (8)130 وزیر اعلیٰ کے استعفے سے متعلق ہے اور اس کے تحت وزیر اعلیٰ اپنا استعفی تحریری طور پر گورنر کو بھجوانے کے پابند ہیں۔
قانون کے مطابق سبکدوش ہونے والے وزیر اعلیٰ اپنے جانشین کے انتخاب تک اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے رہیں گے، چاہے وہ تکنیکی طور پر مستعفی ہی کیوں نہ ہو گئے ہوں۔
گورنر کی جانب سے استعفیٰ منظور نہ ہونے اور اسی دوران نئےوزیر اعلیٰ کے انتخاب پر ماہرین اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ آنے والے دنوں میں یہ معاملہ سنگین صورت اختیار کر سکتا ہے۔
سابق اٹارنی جنرل اور آئینی اُمور کے ماہر اشتر اوصاف کہتے ہیں کہ آئین پاکستان میں آئینی عہدوں، بشمول وزیر اعظم، اٹارنی جنرل یا وزیر اعلیٰ، کے حوالے سے استعفے کی منظوری کا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔
بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ آرٹیکل (8)130 میں درج ہے کہ استعفے پر دستخط موجود ہوں۔ ’اس معاملے پر علی امین گنڈا پور نے باضابطہ طور پر استعفی دینے کا اعلان کیا اور وہ خود اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہوئے اور نئے وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں اپنا ووٹ دیا۔ لہذِا اس میں اب کوئی ابہام نہیں ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اس سارے عمل میں آئین کی منشا پوری ہوئی ہے، اگر کوئی اس معاملے میں ابہام دیکھتا ہے تو شاید اُس نے آئین نہیں پڑھا۔ ‘
ماہر قانون ماہا راجہ ترین نے اپنی ایکس پوسٹ پر لکھا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان اپنے ایک فیصلے میں قرار دے چکی ہے کہ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل (8)130 کے تحت، جب وزیرِاعلیٰ کا تحریری استعفیٰ گورنر کو پیش کر دیا جائے اور اس کی وصولی کی تصدیق ہو جائے، تو وہ فوراً مؤثر ہو جاتا ہے۔
اُن کے بقول ’آئینِ پاکستان کی روح کو مدنظر رکھتے ہوئے، اس کے لیے کسی رسمی منظوری، اطلاع (نوٹیفکیشن) یا مزید کارروائی کی ضرورت نہیں ہے اور وزیرِاعلیٰ کا عہدہ اسی لمحے خالی تصور ہوتا ہے۔‘
قانونی اُمور کی ماہر ریما عمر لکھتی ہیں کہ گورنر خیبر پختونخوا آئین کی روح پر عمل نہیں کر رہے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ ’وزیر اعلی نے آئین کے آرٹیکل 130 کی شق آٹھ کے تحت استعفی دیا، لیکن گورنر اُنھیں عہدے پر برقرار رہنے کے لیے مجبور کر رہے ہیں۔‘
تاہم سینیئر قانون دان ڈاکٹر خالد رانجھا کہتے ہیں کہ آئین گورنر کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ اپنی تسلی کے بعد وزیرِ اعلیٰکا استعفیٰ منظور کریں۔
بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے اُنھوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’جب آپ کا چیک کسی بینک میں جائے اور آپ کے دستخط نہ ملیں تو آپ ذاتی حیثیت میں بینک جا کر تصدیق کرتے ہیں۔ یہاں تو معاملہوزیرِ اعلیٰ کے استعفے کا ہے۔ ‘
اُن کے بقول اگر گورنر کو لگے کہ دستخط درست نہیں ہیں یا وزیرِ اعلیٰ کسی دباؤ میں آ کر استعفیٰ دے رہے ہیں تو وہ اُنھیں ذاتی حیثیت میں بُلا کر استعفے کی تصدیق کر سکتے ہیں۔
اسی دوران خیبر پختونخوا اسمبلی کا اجلاس بلانے کے سوال پر ڈاکٹر خالد رانجھا کا کہنا تھا کہ جب تک استعفیٰ منظور نہیں ہو جاتا، اُس وقت تک نئے وزیرِ اعلیٰ کا انتخاب نہیں ہو سکتا۔
اشتر اوصاف اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر وزیر اعلی ملک سے باہر ہے اور وہ اپنا استعفی ای میل کرتا ہے تو اس معاملے میں گورنر تصدیق کر سکتا ہے کہ آیا یہ استعفی دباؤ کے تحت تو نہیں لیا جا رہا۔
اُن کے بقول جب وزیر اعلیٰموجود ہے اور اعلان کر رہا کہ وہ استعفی دے چکے ہیں اور نئے وزیر اعلی کے انتخاب میں ووٹ بھی ڈال چکے ہیں تو پھر اس معاملے کی شفافیت پر کوئی سوال نہیں اُٹھتا۔
علی امین گنڈا پور کا استعفی اور سہیل آفریدی کی نامزدگی پر تنازع
واضح رہے کہ وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے چند روز قبل اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا۔
جماعت کے بیشتر اراکین کے مطابق خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کے اندر کے اختلافات، عمران خان کی رہائی کے لیے مہم میں ناکامی اور صوبے میں تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات ایسے عوامل تھے جس پر بانی پی ٹی آئی نے علی امین کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا تھا۔
دوسری جانب عمران خان کی جانب سے خیبر پختونخوا اسمبلی کے رُکن سہیل آفریدی کی بطور وزیر اعلیٰ نامزدگی پر تنازع سامنے آیا تھا۔
پاکستان میں حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) نے سہیل آفریدی کی نامزدگی کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے دعوی کیا تھا کہ سہیل آفریدی کو ’دہشت گردوں کی سہولت‘ کے لیے لایا جا رہا ہے۔
خیبر پختونخوا کے نئے وزیر اعلی سہیل آفریدی پاکستان تحریک انصاف کے ایک نظریاتی کارکن ہیں اور انھوں نے جماعت کی طلبا تنظیم آئی ایس ایف سے اپنی سیاست کا آغاز کیا تھا۔
سہیل آفریدی کا تعلق ضلع خیبر سے ہے۔ وہ صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی کے 71 سے بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے ہیں۔ انھوں نے اکنامکس میں گریجویشن کی ہے اور جرنلزم میں ڈپلومہ بھی کیا ہے۔
سہیل آفریدی کی عمر 35 سال ہے اور جماعت کے رہنماؤں کے مطابق وہ 2008-2009 سے پاکستان تحریک انصاف کا حصہ ہیں۔ زمانہ طالبعلمی میں انصاف سٹوڈنٹ فیڈیریشن کے صوبائی صدر بنے اور اس کے بعد مرکزی صدر بنے، اسی طرح وہ انصاف یوتھ ونگ کے صوبائی صدر اور بعد میں مرکزی صدر منتخب ہوئے تھے۔
گذشتہ چند روز سے اُن کا ایک ویڈیو کلپ بھی وائرل ہے جس میں وہ یہ کہتے دکھائی دے رہے ہیں کہ اُن کی لائن ’وہی ہو گی جو عمران خان کی ہے۔‘