غزہ شہر میں حماس کی سکیورٹی فورسز اور دغمش قبائل کے مسلح جنگجوؤں کے درمیان شدید جھڑپوں میں کم از کم 27 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ یہ جھڑپیں اس علاقے میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے اختتام کے بعد سے ہونے والے سب سے پرتشدد تصادم میں شمار کی جا رہی ہیں۔
’جیش الاسلام‘ طاقتور دغمش قبیلے کی ایک شاخ ہے جو بھتہ خوری، سمگلنگ، اسلحہ کی خرید و فروخت اور مخالفین کو بے رحمی سے ختم کرنے کے لیے مشہور ہے اور اسے ’غزہ شہر کا سوپرانو خاندان‘ بھی کہا جاتا ہے۔غزہ شہر میں حماس کی سکیورٹی فورسز اور دغمش قبائل کے مسلح جنگجوؤں کے درمیان شدید جھڑپوں کے نتیجے میں کم از کم 27 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ یہ جھڑپیں اس علاقے میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے اختتام کے بعد سے ہونے والے سب سے پرتشدد تصادم میں شمار کی جا رہی ہیں۔
عینی شاہدین کے مطابق حماس کے نقاب پوش جنگجوؤں کا جنوبی غزہ میں اُردن کے زیرِ انتظام چلنے والے ہسپتال کے قریب ’دغمش‘ عسکریت پسندوں کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔
حماس کے زیرِ انتظام وزارتِ داخلہ کے ایک سینیئر اہلکار کے مطابق حماس کے سکیورٹی یونٹ نے غزہ شہر کے اندر اس مسلح ملیشیا کو گھیرے میں لیا اور اس کے ارکان کو گرفتار کرنے کی کوشش کی۔ تاہم وزارت کے مطابق اس کوشش میں حماس کی سکیورٹی فورسز کے آٹھ اہلکار ہلاک ہوئے۔
بی بی سی کے رشدی ابو اللوف نے بتایا کہ مقامی طبی ذرائع کے مطابق سنیچر کے روز شروع ہونے والی اس لڑائی میں دغمش قبیلے کے 19 ارکان اور حماس کے آٹھ جنگجو ہلاک ہوئے۔
عینی شاہدین کے مطابق جھڑپیں تل الحوا کے مقام پر اُس وقت شروع ہوئیں کہ جب حماس کے 300 سے زائد جنگجوؤں نے ایک رہائشی عمارت پر حملہ کیا جہاں دغمش قبیلے کے مسلح افراد مورچہ زن تھے۔
رہائشیوں نے بتایا کہ شدید فائرنگ کے دوران درجنوں خاندان خوف و ہراس میں اپنے گھروں سے فرار ہو گئے، جن میں سے بہت سے پہلے ہی جنگ کے دوران کئی بار بے گھر ہو چکے تھے۔
ایک رہائشی نے کہا کہ ’اس بار لوگ اسرائیلی حملوں سے نہیں بھاگ رہے تھے، وہ اپنے ہی لوگوں سے جان بچا کر بھاگ رہے تھے۔‘
واضح رہے کہ دغمش قبیلہ غزہ شہر کا ایک بااثر اور مسلح قبیلہ ہے، جو اپنی خودمختاری اور طاقت کے لیے مشہور ہے۔ اس قبیلے کے کچھ افراد مختلف مسلح گروہوں، بشمول حماس اور القاعدہ سے منسلک تنظیموں، سے وابستہ رہے ہیں۔
دغمش قبیلے کا ماضی میں غزہ میں حماس کی حکومت کے ساتھ متعدد بار تصادم بھی ہو چکا ہے، خاص طور پر کنٹرول اور اثر و رسوخ کے معاملات پر۔
حماس اس گروہ پر اسرائیل سے روابط کا الزام بھی عائد کرتا ہے۔
حماس کے زیرِ انتظام وزارتِ داخلہ نے کہا کہ ان کی فورسز ’علاقے میں نظم و ضبط بحال کرنے کے لیے کارروائی کر رہی ہیں‘ اور انھوں نے خبردار کیا کہ کسی بھی مسلح سرگرمی سے سختی سے نمٹا جائے گا۔
فریقین نے ایک دوسرے پر ان جھڑپوں کی ابتدا کرنے کی ذمہ داری عائد کی ہے۔
مقامی ذرائع کے مطابق حماس نے تقریباً 7000 سکیورٹی اہلکاروں کو واپس بلایا ہے تاکہ غزہ کے ان علاقوں پر دوبارہ کنٹرول قائم کیا جا سکے جو حال ہی میں اسرائیلی افواج نے خالی کیے تھے۔حماس نے پہلے کہا تھا کہ دغمش کے مسلح افراد نے اس کے دو جنگجوؤں کو ہلاک اور پانچ کو زخمی کر دیا، جس کے بعد اُن کے خلاف کارروائی شروع کی گئی۔
تاہم دغمش خاندان کے ایک ذریعے نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ حماس کی فورسز اس عمارت میں آئیں جو پہلے غزہ شہر میں اردن کے زیرِ انتظام چلنے والے ہسپتال کا حصہ تھی، دغمش خاندان نے حالیہ اسرائیلی حملے میں السبرا علاقے میں اپنے مکانات کے تباہ ہونے کے بعد یہاں پناہ لی ہوئی تھی۔
ذرائع کے مطابق، حماس اس خاندان کو عمارت سے نکال کر وہاں اپنی نئی فورسز کا بیس قائم کرنا چاہتی تھی۔
مقامی ذرائع کے مطابق حماس نے تقریباً 7000 سکیورٹی اہلکاروں کو واپس بلایا ہے تاکہ غزہ کے ان علاقوں پر دوبارہ کنٹرول قائم کیا جا سکے جو حال ہی میں اسرائیلی افواج نے خالی کیے تھے۔
رپورٹس کے مطابق مسلح حماس یونٹس پہلے ہی کئی اضلاع میں تعینات ہیں، کچھ شہری لباس میں اور کچھ غزہ پولیس کے نیلے یونیفارم میں۔ حماس کے میڈیا دفتر نے ان الزامات کی تردید کی کہ وہ ’سڑکوں پر جنگجو فوجی بھیج رہی ہے۔‘
2007 میں لی گئی اس تصویر میں حماس کے فلسطینی پولیس فورس کے اراکین وہ خودکار رائفلیں لے جا رہے ہیں جو مبینہ طور پر دغمش قبیلے سے ضبط کی گئی ہیںدغمش قبیلے کے متعلق ہم کیا جانتے ہیں؟
دغمش خاندان کا تعلق غزہ شہر کے شجاعیہ علاقے سے ہے۔ شجاعیہ ضلع تاریخی لحاظ سے اہمیت رکھتا ہے اور یہ غزہ شہر کے مشرقی حصے میں واقع ہے۔
ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق دغمش قبیلہ غزہ شہر کے علاقے تل الحوا اور مغربی غزہ کے صابرہ میں مقیم ہے۔
ترکی کے ہُریّت اخبار کے مطابق اس قبیلے کی جڑیں ترکی میں ہیں اور وہ خود کو ترک نژاد کہتے ہیں۔
سنہ 2007 میں انادولو ایجنسی کی نرسل گوردیلیک نے دغمش خاندان کے اراکین سے بات کی تھی جس دوران انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ اس خاندان نے تقریباً سو سال پہلے عثمانی دور میں ترکی سے ہجرت کی اور غزہ آ کر آباد ہوئے تھے۔
غزہ میں مسلح تنظیموں کے متعلق ایک مضمون میں بی بی سی عربی نے لکھا ہے غرہ میں کچھ ایسے گروہ بھی سرگرم ہیں جنھوں نے القاعدہ کے سیاہ پرچم کو اپنا رکھا ہے اور ان کے نظریات اس تنظیم کے نظریات سے مطابقت رکھتے ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں گروپ ’جیش الاسلام‘ ہے جس کی قیادت ممتاز دغمش نامی شخص کرتے ہیں۔
بی بی سی عربی کے مطابق اس گروہ کا پہلا عسکری آپریشن سنہ 2006 میں اسرائیلی فوجی گیلاڈ شالیت کے اغوا میں حصہ لینے سے متعلق تھا۔
اس گروپ نے سنہ 2007 میں غزہ کی پٹی میں بی بی سی کے رپورٹر ایلن جانسٹن کے اغوا کی ذمے داری بھی قبول کی تھی۔
تنظیم کے زیادہ تر اراکین غزہ کی پٹی میں موجود طاقتور اور سب سے زیادہ مسلح دغمش خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔
بی بی سی مانیٹرنگ کے مطابق، غزہکی پٹی میں طاقتور دغمش خاندان اپنے جیش الاسلام گروپ سے وابستگی کے لیے جانا جاتا ہے، جس کا سب سے زیادہ مشہور کردار بی بی سی کے صحافی ایلن جانسٹن کے اغوا میں سامنے آیا۔
دغمش خاندان نے غزہ کی پٹی میں موجود متعدد قبلیوں کے ساتھ تصادم میں ملوث ہونے کی وجہ سے بھی شہرت حاصل کی ہے۔
سنہ 2024 میں ٹائمز آف اسرائیل نے رپورٹ کیا کہ حماس نے غزہ شہر میں طاقتور دغمش قبیلے کے سربراہ (جنھیں قبلیے کا پرنس بھی بلایا جاتا تھا) کو ہلاک کر دیا ہے کیونکہ ان پر الزام تھا کہ یہ گروہ انسانی ہمدردی کے تحت فراہم کی جانے والی امداد چوری کر رہا ہے اور اس پر اسرائیل کے ساتھ رابطے میں ہونے کا بھی شبہ تھا۔
اخبار کے مطابق قبیلے کے سربراہ، جن کا نام ظاہر نہیں کیا گیا، کو خاندانی کمپاؤنڈ میں دو دیگر افراد کے ساتھ موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔
اسرائیل کے ساتھ تعاون کی رپورٹس کے باوجود قبائل نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اب بھی حماس کی حمایت کرتے ہیں۔
غزہ میں کئی بڑے روایتی خاندانی قبیلے موجود ہیں جو سیاسی دھڑوں سے منسلک ہیں، جن میں حماس اور فسطین کے مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی پر غالب حریف گروپ فتح بھی شامل ہے۔
غزہ شہر اور دیگر مقامات میں کچھ بڑے قبیلوں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اچھی طرح سے مسلح ہیں، لیکن ان کی ایک طویل تاریخ ہے جس میں وہ اپنے متضاد مفادات کے باعث لڑائی جھگڑوں میں ملوث رہے ہیں، اور اس بات کا کوئی اشارہ نہیں ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ کام کرنے پر غور کریں گے۔
سنہ 2024 میں حماس نے دغمش قبیلے کے سربراہ (جنھیں قبیلے کا پرنس بھی بلایا جاتا تھا) کو ہلاک کر دیا کیونکہ ان پر اسرائیل کے ساتھ رابطے میں ہونے کا شبہ تھا’دغمش‘ غزہ میں کتنا طاقتور ہے؟
اسرائیل اور یہودی دنیا سے متعلق خبریں اور تجزیوں کی ویب سائٹ وائے نیٹ نیوز کے مطابق اس قبیلے کے ارکان مختلف فلسطینی اور اسلام پسند گروہوں سے وابستہ یا منسلک ہیں جن میں فتح، حماس، پاپولر ریزسٹنس کمیٹیز اور القاعدہ شامل ہیں۔
اور یہ گروہ اتحاد بدلتا بھی رہا ہے۔
اخبار نے لکھا ہے کہ ممتاز دغمش، جو گیلاد شالیت کے اغوا میں ملوث تھے، نے 2008 تک جیش الاسلام کی قیادت کی۔ غزہ پر حماس کے قبضے کے بعد دغمش قبیلہ اکثر حماس کی سکیورٹی فورسز کے ساتھ پرتشدد اور مہلک جھڑپوں میں ملوث رہا ہے۔
حماس کے ایک پولیس افسر کے قتل کے بعد حماس کی سکیورٹی فورسز نے قبیلے کے ٹھکانوں پر چھاپہ مارا، جس کے نتیجے میں 16 ستمبر 2008 کو قبیلے اور حماس کی فورسز کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔
اس تشدد کے بدترین واقعے میں جولائی 2008 کے بعد قبیلے کے دس افراد مارے گئے، جن میں ممتاز دغمش کے بھائی بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ حماس سے وابستہ پاپولر ریزسٹنس کمیٹیز کے سیکرٹری جنرل زکریا دوغموش کی چھوٹی بیٹی بھی ہلاک ہوئی۔
ایف ای ایف ای نیوز ایجنسی کے مطابق غزہ میں دغمش کو ایک بڑا اور بااثر قبیلہ سمجھا جاتا ہے جس کی مقامی سطح پر مضبوط موجودگی ہے۔
دغمش قبیلہ غزہ کے نمایاں خاندانوں میں شمار ہوتا ہے، خاص طور پر صابرہ محلے میں اور یہ مختلف سماجی و سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتا رہا ہے۔
دغمش خاندان کے افراد شہری اور عسکری دونوں میدانوں میں سرگرم رہے ہیں، جس کی وجہ سے ان کا کردار غزہ کے سماجی و سیاسی ڈھانچے میں پیچیدہ بن گیا ہے۔
’غزہ شہر کا سوپرانو خاندان‘
دغمش خاندان کی سرگرمیاں مقامی انتظامی معاملات سے لے کر عسکری کارروائیوں تک پھیلی ہوئی ہیں، جو ان کے متنوع کردار کی عکاسی کرتی ہیں۔
دغمش قبیلے پر منظم جرائم جیسے بھتہ خوری، سمگلنگ، اغوا اور دیگر غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات بھی رہے ہیں۔
اگرچہ ان جرائم کی مخصوص تفصیلات محدود ہیں مگر رپورٹس کے مطابق یہ قبیلہ مختلف غیر قانونی سرگرمیوں میں شامل رہا ہے۔
پال مارٹن نے ٹائمز آن لائن کے لیے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ’جیش الاسلام‘ طاقتور دغمش قبیلے کی ایک شاخ ہے جو بھتہ خوری، سمگلنگ، اسلحہ کی خرید و فروخت اور مخالفین کو بے رحمی سے ختم کرنے کے لیے مشہور ہے اور اسے ’غزہ شہر کا سوپرانو خاندان‘ بھی کہا جاتا ہے۔
دا ٹائمز اخبار کے مطابق حالیہ عرصے میں غزہ میں ہونے والی لڑائیوں کے دوران اکثر حماس کے دغمش خاندان پر کریک ڈاؤن کی خبریں آتی رہیں ہیں اور حماس نے متعدد مرتبہ دغمش قبیلے کے خلاف کارروائیاں کی ہیں۔
اور جب حالات زیادہ کشیدہ ہوتے ہیں، تو قبیلے کے افراد عمارتوں یا کمپاؤنڈز میں پناہ لیتے ہیں تاکہ جوابی کارروائی سے بچ سکیں۔