’پہلے جھڑپیں ہوتی تھیں، اب باقاعدہ جنگ جیسی صورتحال ہے‘: پاکستان اور افغانستان کے درمیان تناؤ کیا رُخ اختیار کر سکتا ہے؟

پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ اگر افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو گی تو پاکستان کارروائی کرنے کا حق رکھتا ہے، جبکہ پاکستان کی فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں محفوظ ٹھکانے پاکستان میں دہشتگردی کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔
افغانستان
Getty Images
پاکستان نے 200 سے زائد طالبان اہلکاروں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے

پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب شروع ہونے والی جھڑپیں تو فی الحال بند ہو چکی ہیں لیکن دونوں ممالک پر گہری نظر رکھنے والے مبصرین کو خدشہ ہے کہ معاملات یہاں رُکیں گے نہیں بلکہ صوتحال مزید خرابی کی طرف بھی جا سکتی ہے۔

ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب پاکستان اور افغان طالبان کی فورسز کے درمیان مسلح جھڑپوں کے بعد فریقین نے ایک دوسرے کو بھاری جانی نقصان پہنچانے کا دعویٰ کیا تھا۔

پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے جھڑپوں میں 200 سے زائد طالبان اہلکاروں کی ہلاکت اور متعدد چیک پوسٹس قبضے میں لینے کا دعویٰ کیا تھا۔

اسی بیان میں پاکستانی فوج نے سکیورٹی اہلکاروں سمیت 23 پاکستانیوں کی ہلاکت کی بھی تصدیق کی تھی۔

دوسری جانب افغان طالبان کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے نیوز کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ پاکستان کے افغانستان میں کیے گئے حملوں کے جواب میں طالبان فورسز نے بھرپور کارروائی کی۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ان کارروائیوں میں 58 پاکستانی سکیورٹی اہلکار ہلاک جبکہ کئی زخمی ہوئے۔

مبصرین اور ماہرین اس صورتحال کو کس طرح دیکھتے ہیں اس سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان معاملات یہاں تک کیسے پہنچے؟

یہ تنازع اس وقت شروع ہوا تھا جب افغان طالبان نے الزام عائد کیا تھا کہ پاکستان نے اُس کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی ہے۔ پاکستان نے افغان طالبان کے دعوؤں کی تردید تا تصدیق نہیں کی ہے۔

پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ اگر افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو گی تو پاکستان کارروائی کرنے کا حق رکھتا ہے، جبکہ پاکستان کی فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں محفوظ ٹھکانے پاکستان میں دہشتگردی کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔

پاکستان فوج کے ترجمان نے افغانستان کے اندر پاکستان کی کارروائیوں کی نہ تصدیق کی تھی نہ تردید، تاہم نیوز کانفرنس میں اُنھوں نے بتایا تھا کہ پاکستان کے عوام کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں گے۔

بظاہر ایسا لگتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تناؤ کے فوری اثرات ملک پاکستان میں مقیم غیرقانونی افغان پناہ گزینوں پر پڑ رہے ہیں۔

تصادم کے بعد افغان پناہ گزینوں کے خلاف کریک ڈاؤن میں تیزی

دونوں ممالک کے درمیان حالیہ جھڑپوں کے بعد پاکستان کے کچھ حصوں میں غیر قانونی پناہ گزینوں کے خلاف کریک ڈاؤن میں بھی تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔

کراچی میں بی بی سی کے نامہ نگار ریاض سہیل کے مطابق سندھ میں غیر قانونی افغان پناہ گزینوں کے خلاف آپریشن ایک بار پھر زور پکڑ گیا ہے۔

افغانستان
Getty Images
پاکستان نے افغان طالبان کی فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں فوجی اہلکاروں سمیت 23 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے

وزیر اعلی سندھ کا کہنا ہے کہ پاکستان اور افغانستان تنازع کے بعد صوبے میں خطرات ہیں۔

کراچی میں سہراب گوٹھ کے علاقے میں اتوار کی شب پولیس نے آپریشن کیا تھا۔ اس آپریشن کی سربراہی کرنے والے ڈی ایس پی اورنگزیب خٹک نے بی بی سی کو بتایا کہ اس وقت تک 22 افغان شہریوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔

اُنھوں نے بتایا کہ گرفتار افغان شہریوں کو کیماڑی کیمپ منتقل کیا جائے گا جہاں سے ان کی افغانستان روانگی کا عمل شروع ہو گا۔

ان کے بقول کئی خاندان پہلے ہی رضاکارانہ طور پر افغان کیمپ سے جا چکے ہیں۔

دوسری جانب دادو، نواب شاہ میں بھی آپریشن کیا گیا ہے جس میں چار سے زائد افغان شہریوں کو حراست میں لیا گیا۔

اس سے قبل سندھ کے وزیر داخلہ ضیالحسن لنجار نے ایک بیان میں کہا تھا کہ غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کے حوالے سے ریاست کی واضح پالیسی ہے۔

اُن کے بقول غیر قانونی طور پر سندھ سمیت ملک بھر میں مقیم افغان شہریوں کو ان کے وطن واپس بھیجا جا رہا ہے، اس ضمن میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو واضح ہدایات جاری کی گئی ہیں۔

انھوں نے جمعے کو پریس کانفرنس میں تسلیم کیا تھا کہ کئی افغان شہریوں نے پاکستان میں شادیاں کرلی ہیں، یہاں ان کی رشتے داریاں ہیں اور ملکی قانون کی وجہ سے انھیں واپس بھیجنے میں دشواری ہو رہی ہے۔

پاکستان کی افغان پالیسی اور آگے کا راستہ کیا ہے؟

دونوں ممالک کے درمیان حالیہ تنازع کے بعد یہ سوال بھی اُٹھ رہا ہے کہ کیا پاکستان کی افغان پالیسی میں کوئی تبدیلی آنے والی ہے؟

افغان اُمور کے ماہر تجزیہ کار زاہد حسین کہتے ہیں کہ 'پہلے دونوں ملکوں کے درمیان معمولی جھڑپیں ہوتی تھیں لیکن اب باقاعدہ جنگ جیسی صورتحال ہے جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔'

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان میں کالعدم تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) کے حملے جاری رہے تو دونوں ملکوں کے درمیان دوبارہ بھی تصادم ہو سکتا ہے۔

خیال رہے پاکستان متعدد مرتبہ دعویٰ کرتا رہا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی کو افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں حاصل ہیں۔ تاہم افغانستان ان الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔

زاہد حسین کہتے ہیں کہ ' پاکستان کا خیال تھا کہ افغانستان میں طالبان حکومت آنے کے بعد ٹی ٹی پی کے حملے کم ہو جائیں گے، لیکن ایسا نہیں ہو سکا، اس کی وجہ یہ ہے کہ ٹی ٹی پی، افغان طالبان کا ہی ایک دھڑا ہے۔'

پچھلے کچھ دنوں میں افغان حکم کی جانط سے یہ دعوے بھی سامنے آئے تھے کہ پاکستان نے افغانستان کے درالحکومت کابل میں کوئی حملہ کیا ہے۔

تاہم پاکستان نے ایسے کسی حملے کی تصدیق یا تردید نہیں کی ہے۔

ان اطلاعات کا حوالہ دیتے ہوئے افغان اُمور کے ماہر سمیع یوسفزئی کہتے ہیں کہ 'پاکستان کے لیے کابل میں حملہ کرنا آسان تھا، لیکن اس کے نتائج سے نمٹنا بہت مشکل ہو گا۔'

افغانستان اور انڈیا
Getty Images
طالبان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی انڈیا کے دورے پر ہیں

اُن کے بقول 'پاکستان ایک بڑا اسلامی ملک اور جوہری طاقت ہے، لہذا اسے کابل میں اتنی بڑی کارروائی کرنے کے بجائے ذمے داری سے کام لینا چاہیے تھا۔'

پاکستان کو طالبان سے توقع ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کے خلاف کارروائی کرے گا۔ تاہم تجزیہ کار زاہد حسین کہتے ہیں کہ 'افغان طالبان کے لیے پاکستان کے کہنے پر ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرنا بہت مشکل ہے، کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو امریکی اور روسی افواج کے خلاف افغان طالبان کے ساتھ مل کر لڑتے رہے ہیں۔'

اُن کے بقول افغان طالبان کی ثالثی میں پاکستانی حکومت اور ٹی ٹی پی کے مذاکرات ہوئے جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں ٹی ٹی پی کے جنگجو پاکستان میں آئے جس کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں تیزی آئی۔

زاہد حسین کہتے ہیں کہ 'اس سے انکار نہیں کہ افغانستان میں ٹی ٹی پی کی پناہ گاہیں موجود ہیں، لیکن ٹی ٹی پی زیادہ تر کارروائیاں پاکستان سے ہی کر رہی ہے۔'

'پاکستان کے لیے یہ صورتحال زیادہ نقصان دہ ہو گی'

گو کہ پاکستانی وزیرِ دفاع خواجہ آصف افغانستان میں طالبان حکومت سے بات چیت جاری رکھنے کا عندیہ دے چکے ہیں لیکن سمیع یوسفزئی سمجھتے ہیں کہ شاید 'پوائنٹ آف نو ریٹرن' پر پہنچ چکے ہیں۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ 'کابل پر پاکستان کا حملہ ایک طرح سے افغانستان کی تاریخ اور اس کی شناخت پر حملہ تھا۔'

سمیع یوسفزئی کا کہنا تھا کہ 'گو کہ طالبان حکومت افغان عوام کی نمائندہ حکومت نہیں ہے لیکن اس حملے کے بعد طالبان کی جوابی کارروائی کو افغانستان میں سراہا گیا ہے۔'

اُن کے بقول افغانستان کے اندر یہ سوچ پائی جاتی تھی کہ افغان طالبان کی پاکستان کے ساتھ لڑائی مصنوعی ہے کیونکہ ماضی میں پاکستان اس گروپ کی حمایت کرتا رہا ہے۔ لہذا اس تاثر کو ذائل کرنے کے لیے افغان طالبان نے اپنے محدود وسائل کے باوجود پاکستان کے خلاف جوابی کارروائی کی۔

وہ کہتے ہیں کہ اسی ساری صورتحال میں زیادہ نقصان پاکستان کا ہی ہو گا، کیونکہ مشرق میں اس کے انڈیا کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں اور اب اس کی مغربی سرحد پر بھی تناؤ ہے۔

اُن کے بقول 'افغان عوام یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان نے افغانستان کے معاملات میں مداخلت کر کے اسے عدم استحکام سے دوچار کیا۔'

خواجہ آصف
Getty Images
پاکستانی وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے افغانستان میں طالبان حکومت سے بات چیت جاری رکھنے کا عندیہ دیا ہے

دوسری جانب زاہد سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے صوبے بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے سرحدی علاقوں میں مقیم افراد کی افغانستان میں رشتہ داریاں ہیں اور اُن کی وہاں گہری جڑیں ہیں۔

'اگر دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے بارڈر بند رہتا ہے تو اس سے ان علاقوں میں بے چینی بڑھے گی۔'

’افغان طالبان نے اپنا سیاسی قبلہ تبدیل کر لیا ہے‘

پاکستان اور افغانستان کے معاملات میں دونوں طرف موجود علما اور ہم خیال طبقات اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ ماضی میں مولانا سمیع الحق اور مولانا فضل الرحمن جیسے مذہبی رہنما دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔

کیا اب بھی افغان طالبان سے قریبی مراسم رکھنے والے پاکستانی علما مصالحت کی کوشش کر سکتے ہیں؟

اس سوال کے جواب میں سمیع یوسفزئی کا کہنا تھا کہ یہ مولانا فضل الرحمن کے لیے بھی بہت مشکل صورتحال ہے۔

اُن کے بقول 'پاکستان میں بھی افغانستان کے حوالے سے جذبات بہت مشتعل ہیں، لہذا ایسے ماحول میں کوئی مفاہمانہ بات کرنے کی کوئی کوشش بظاہر کامیاب نہیں ہو گی۔'

افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کے انڈیا کے دورے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سمیع یوسفزئی کا کہنا تھا کہ 'پہلے افغان طالبان کا سیاسی قبلہ پاکستان اور مذہبی قبلہ دارالعلوم حقانیہ تھا، لیکن اب اُنھوں نے اپنا سیاسی قبلہ دلی اور مذہبی قبلہ دارلعلوم دیو بند بنا لیا ہے۔'

11 اکتوبر کو امیر خان متقی نے انڈیا کے معروف دینی ادارے 'دارالعلوم دیوبند' کا دورہ کیا جہاں اُن کا پرتپاک استقبال کیا گیا اور اُن کی دستار بندی بھی کی گئی۔

افغانستان
Getty Images
افغان وزیِر خارجہ نے انڈیا میں دارالعلوم دیوبند کا دورہ بھی کیا ہے

اس موقع پرافغان وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ 'میں ہندوستان اور افغانستان کے تعلقات کا بہت روشن مستقبل دیکھ رہا ہوں۔'

کیا دوست ممالک کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں؟

چین کے پاکستان اور افغانستان میں طالبان حکومت کے ساتھ گہرے مراسم ہیں۔ طالبان رہنما چین کے دورے بھی کر چکے ہیں۔

اس سوال پر کہ کیا چین اس حوالے سے کوئی کردار ادا کر سکتا ہے؟ سمیع یوسفزئی کا کہنا تھا کہ چین بہت محتاط انداز میں اپنی خارجہ پالیسی چلاتا ہے، لہذا ایسا نہیں لگتا کہ وہ ان دونوں ملکوں کے معاملات بہتر بنانے کے لیے کوئی ثالثی کرے گا۔

تاہم چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے لن جیان نے ایک میڈیا بریفنگ کے دوران 'پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات بہتر کرنے کے لیے تعمیری کردار' ادا کرنے کی پیش کش کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ چین کو امید ہے کہ دونوں ممالک 'ایک دوسرے کے خدشات مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے حل کریں گے اور تنازع کو آگے بڑھانے سے گریز کریں گے۔'

تاہم تجزیہ کار سمیع یوسفزئی سمجھتے ہیں کہ'سعودی عرب، قطر یا امریکہ اس معاملے میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ جیسا کہ صدر ٹرمپ نے بھی یہ کہا کہ اُن کی ان دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والی جھڑپ پر نظر ہے۔'


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US