گاندربل پولیس کے مطابق ایسے 50 سے زیادہ جوڑے ہیں جنھیں اس گروپ نے ہراساں اور بلیک میل کیا ہے۔
’والدین کو نہ بتانے کے عوض انھوں نے دو ہزار کا ’جرمانہ‘ لیا‘اقرا (فرضی نام)اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں گاندربل کے مقبول سیاحتی مقام عبداللہ پارک میں جا رہی تھیں کہ اُن کا سامنا چند نوجوانوں کے ساتھ ہوا۔
وہ بتاتی ہیں کہ ’ہم ایک درخت کی چھاوٴں میں بیٹھے تھے اور ابھی بیگ سے کولڈ ڈرنک نکال ہی رہے تھے کہ اُن لڑکوں نے ہمارے قریب آ کر ہمیں دھمکایا اور ہمارے والدین کے فون نمبر طلب کیے۔‘
اقرا کا کہنا ہے کہ ’اُن لڑکوں نے ہم دونوں کے کان پکڑوائے اور کافی منت سماجت کے بعد والدین کو خبر نہ کرنے پر آمادہ ہوئے، لیکن اس کے بدلے انھوں نے دو ہزار روپے کا ’جرمانہ‘ وصول کیا۔‘
اسی سے ملتی جلتی کہانی سحرِش (فرضی نام) کی ہے جنھیں حال ہی میں اسی گینگ سے تعلق رکھنے والے لڑکوں نے ہراساں کیا۔
سحرش گاندربل کی یونیورسٹی سے ماسٹرز کر رہی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ’وہ امتحان کی تیاری کے سلسلے میں ایک کلاس فیلو کے ساتھ یونیورسٹی سے نکلیں تو اُن کے کلاس فیلو نے کہا کہ اس کے پاس پچھلے سال کے پرچے ہیں۔
’ہم اسی بارے میں بات کرنے کے لیے نزدیکی پارک میں کچھ دیر بیٹھے تو یہی ٹولہ ہمارے پاس آ کر ہمیں دھمکانے لگا۔ میں ڈر گئی کہ کہیں یہ والدین کو خبر نہ کر دیں۔ ان لوگوں کو یہ احساس بھی نہیں ہے کہ باغ میں بیٹھا ہر جوڑا رومانس کرنے نہیں آتا۔‘
اس نوعیت کے بڑھتے واقعات کے بعد اب مقامی پولیس نے اس گینگ سے تعلق کے الزام میں لگ بھگ 20 لڑکوں کو گرفتار کیا ہے۔
پولیس کے مطابق نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو ہراساں کرنے والا یہ گروہ 96/16 کے نام سے جانا جاتا ہے۔
گاندربل پولیس کے مطابق ایسے 50 سے زیادہ جوڑے ہیں جنھیں اس گروپ نے ہراساں اور بلیک میل کیا ہے۔
ضلع کے پولیس سربراہ محمد خلیل پوسوال نے بی بی سی کو بتایا کہ ’سیاحوں اور مقامی لوگوں کی جانب سے جب یہ شکایات سامنے آئیں تو ہم نے تحقیقات کا آغاز کیا اور معلوم ہوا کہ نوجوانوں کا ایک گروہ ’سیلف میڈ گینگ‘ نام سے آپریٹ کرتا ہے اور انھوں نے اپنے وٹس اپ گروپ کا نام 96/16 رکھا ہوا ہے۔‘
اس نام کی وجہ بیان کرتے ہوئے پولیس افسر نے کہا کہ سرینگر میں چند سال قبل ایک گینگ سرگرم تھا جو ’16‘ نام سے مشہور ہوا۔ ’وہ جرائم پیشہ افراد کا گروپ تھا لیکن سوشل میڈیا پر کافی دیر تک معروف رہا، اِن لڑکوں نے اسی میں 96 جوڑ کر نیا گینگ متعارف کرنے کی کوشش کی تھی۔‘

ایس ایس پی گاندربل کے مطابق گرفتار کیے گئے 20 لڑکوں میں سے بعض نابالغ تھے، جن کے والدین کو بُلا کر ان کی کونسلنگ کی گئی اور وارننگ دے کر انھیں رہا کر دیا گیا، تاہم باقی گینگ کے دیگر اراکین کو گرفتار کر کے ان کے خلاف باقاعدہ مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
ایس ایس پی پوسوال کا کہنا ہے کہ پولیس نے اس سلسلے میں ایک ہیلپ لائن بنائی ہے جس کے بعد مزید متاثرین سامنے آ رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’ابھی تک تو 50 جوڑوں کی شکایات ملی ہیں، جن میں مقامی لوگوں کے علاوہ سیاح بھی شامل ہیں۔ لیکن تحقیقات ابھی بھی جاری ہے۔‘
’میرے شوہر نے پیسے نہیں دیے تو انھیں تھپڑ مارا‘
شائستہ قیوم کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کے ساتھ گفتگو کے دوران بتایا کہ وہ خود بھی ایسے ہی ایک گینگ کا شکار ہوئی تھیں۔
’گاندربل ہی نہیں یہ ہر جگہ ہو رہا ہے۔ چند ماہ پہلے میں سرینگر کی اقبال پارک میں اپنے خاوند کے ساتھ موجود تھی، ہمیں ڈاکڑ کے پاس جانا تھا۔ کچھ لڑکے آئے اور کہا کہ انھوں نے ہماری ویڈیو بنا لی ہے اور یہ کہ اگر پیسہ نہیں دیں گے تو وہ ویڈیو وائرل کر دیں گے۔ میرے خاوند نے اُن کو ڈانٹنا شروع کیا تو ان میں ایک نے انھیں تھپڑ دے مارا۔‘
شائستہ کہتی ہیں کہ انھوں نے اس واقعے کے بعد شکایت درج کروائی تو پولیسنے ان لوگوں کو بعد میں ایک ہفتے کی تلاش کے بعد گرفتار کیا۔
بیروزگاری، احساس کمتری اور ذہنی دباؤ
اس حوالے سے کشمیر میں بحث جاری ہے اور لوگ اس نوعیت کی ہراسانی پر مبنی کارروائیوں کی وجوہات پر بات کر رہے ہیں۔
اکثر ماہرین کہتے ہیں کہ بعض نوجوان جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی جب جوڑوں کو دیکھتے ہیں تو وہ احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور اسی کے باعث اس نوعیت کے اقدام کرتے ہیں۔
پروفیسر شائستہ کہتی ہیں کہ ’یہ احساس ہوتے ہی ایسے لڑکے خودساختہ سماجی مصلح بن جاتے ہیں اور لوگوں کو ہراساں کرتے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ دوسری وجہ تیزی سے پھیل رہی منشیات کی لت ہے۔
’یہ لوگ منشیات کے عادی ہوتے ہیں اور کوئی کام دھندا نہیں کرتے۔ منشیات مہنگی ہیں اور وہ پیسہ بنانے کا آسان طریقہ ڈھونڈتے ہیں۔ اور ظاہر ہے چونکہ لوگ اپنی پرائیوسی کو لے کر بہت حساس ہوتے ہیں اسی لیے وہ اس نوعیت کے کرداروں کو پیسہ دے دیتے ہیں۔‘
معروف صحافی اور تجزیہ نگار ہارون ریشی کا کہنا ہے کہ جدید دور میں پُرانے زمانے کے سماجی اقدار کچھ لوگوں پر نہیں تھوپے جا سکتے۔
’آج کے دور میں مرد اور عورت کے درمیان صرف ایک ہی طرح کے تعلقات نہیں ہوتے۔ کئی لڑکے اور لڑکیاں بزنس پارٹنرز بھی ہیں۔‘
کشمیر میں خواتین میں شرح خواندگی زیادہ ہےان کا کہنا ہے کہ کوئی بھی شہری کسی بھی جوڑے کو ’غیر قانونی‘ قرار دے کر انھیں ہراساں کرنے کا حق نہیں رکھتا۔
’جوڑوں کا اکثر اوقات باغ باغیچوں میں وقت گزارنے کے پیچھے کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ انڈیا کی سبھی ریاستوں میں سے کشمیر بیروزگاری میں سرفہرست ہے اور اسی وجہ سے اب یہاں شادیاں تاخیر سے ہونے لگی ہیں۔ اور پھر مقابلے کے اس دور میں نوجوانوں کی اکثریت ذہنی تناوٴ کا بھی شکار ہے۔‘
ہارون کہتے ہیں کہ کشمیری سماج سینکڑوں سال سے ترقی پسند نظریات کا حامل رہا ہے۔
’یہ واحد جگہ ہے جہاں سب سے زیادہ مذہبی گروہ اور صوفی بزرگ اور دینی ادارے ہیں۔ لیکن خواتین کی تعلیم میں یہ نظریات کبھی حائل نہ ہوئے اور کشمیر میں دوسرے خطوں کے مقابلے سب سے پہلے خواتین نے تعلیم حاصل کی۔ جو لوگ ایسے گینگ چلاتے ہیں، ان کے خلاف قانونی کارروائی کے علاوہ سماجی سطح پر بھی بیداری کی ضرورت ہے۔‘