اٹھارہویں صدی کے آخر اور انیسویں صدی کے اوائل میں بائبل کا ایک ایسا نسخہ شائع ہوا، جس میں 'خدا کے چنے ہوئے لوگوں' کی نجات کی یہ پوری کہانی بیان کی گئی ہے۔ یہ کہانی 'بک آف ایگزوڈس' یعنی 'کتاب الخروج' میں بیان ہوئی ہے لیکن اس میں غلامی یا انسانوں پر ظلم کے خلاف تمام بیانے نکال دیے گئے ہیں۔
’عبرانیوں کے خدا نے مجھے تمہارے پاس بھیجا ہے تاکہ میں تم سے کہوں کہ ’میرے لوگوں کو بیابان (ویرانے) میں جا کر میری عبادت کرنے دو۔۔۔‘
حضرت موسیٰ کی فرعون سے یہ درخواست، بنی اسرائیل کو غلامی سے نجات دلانے کی جدوجہد کا آغاز تھی، تاکہ وہ مصر سے نکل کر اُس سرزمین کی طرف جا سکیں جس کا وعدہ کیا گیا تھا۔
دس آفات اور بحر قلزم کے دو ٹکڑوں میں بٹ جانے جیسی معجزانہ نشانیوں کی کہانیاں بائبل کی مشہور ترین داستانوں میں شامل ہیں۔
لیکن 18ویں صدی کے آخر اور 19ویں صدی کے اوائل میں بائبل کا ایک ایسا نسخہ شائع کیا گیا، جس میں ’خدا کے منتخب کردہ لوگوں‘ کی نجات کی یہ پوری کہانی بیان کی گئی ہے لیکن اُس نسخے میں سے غلامی یا انسانوں پر ظلم کے خلاف تمام بیانیے نکال دیے گئے۔
اس کتاب کا اصل عنوان ’سلیکٹڈ پورشن آف ہولی بائبل فار دی یوز آف دی نیگرو سلیوز اِن دی برٹش ویسٹ انڈیز‘ یعنی برٹش ویسٹ انڈیز میں غلاموں کے لیے مقدس بائبل کے منتخب حصے‘ تھا۔ یہ کتاب سنہ 1807 میں لندن سے شائع ہوئی تھی۔
وقت کے ساتھ ساتھ مؤرخین نے اسے ’غلاموں کی بائبل‘ کہنا شروع کر دیا۔
بائبل کا یہ نسخہ ایک مشنری تنظیم نے تیار کیا تھا جس کا نام ’سوسائٹی فار دی کنورژن آف نیگرو سلیوز‘ تھا۔ یہ چرچ آف انگلینڈ (اینگلیکن چرچ) کی ایک شاخ تھی، جس کا مقصد اُن افریقی غلاموں کو مسیحی بنانا تھا جنھیں کیریبیائی جزائر کی برطانوی نوآبادیات میں زرعی زمینوں پر کام کرنے کے لیے لایا گيا تھا۔ اس نسخے میں غلامی کے نظام کو چیلنج نہیں کیا گیا تھا۔
برطانوی ماہرِ دینیات، رابرٹ بیکفورڈ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ بائبل خاص طور پر اس لیے ترتیب دی گئی تھی تاکہ غلاموں پر کنٹرول رکھا جا سکے۔‘
انھوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’اس نسخے میں اولڈ ٹیسٹیمنٹ کا تقریباً 90 فیصد اور نیو ٹیسٹیمنٹ کا 60 فیصد حصہ نکال دیا گیا تھا۔ حضرت موسیٰ کی پوری کہانی، جس میں بنی اسرائیل کی مصر سے نجات کا ذکر ہے، مکمل طور پر حذف کر دی گئی تھی۔ اس کے علاوہ ہر وہ عبارت بھی نکال دی گئی تھی جس میں آزادی یا انسانی نجات کا ذکر ہو۔‘
مشنری افراد نے مالکان کو یہ باور کرایا کہ افریقی غلاموں کو مسیحی بنانے سے اُن میں زیادہ تابعدارای آ جائے گیامریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی کے ’میوزیم آف دی بائبل‘ کے ڈائریکٹر انتھونی شمٹ نے بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا۔ اُن کے مطابق سنہ 2017 میں ’غلاموں کی بائبل‘ کی چند باقی ماندہ کاپیوں میں سے ایک وہاں نمائش کے لیے رکھی گئی تھی۔
شمٹ نے کہا کہ ’یہ بائبل ایک مختصر اور مخصوص افراد کے لیے تیار کردہ نسخہ تھی، جس میں سے بڑے حصے غائب ہیں۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ تاریخ میں اس طرح کے ترمیم شدہ نسخے عام رہے ہیں۔
’ہمارے پاس بائبل کے دیگر مختصر نسخے بھی ہیں، جو کچھ خاص طبقوں کے لیے آسان اور قابلِ فہم بنانے کے لیے تیار کیے گئے۔ مثلاً بچوں کے لیے بنایا گیا بائبل کا نسخہ، جن میں اصل متن کی جگہ تصویریں شامل کی گئیں۔‘
لیکن اُن کا کہنا ہے کہ ’غلاموں کی بائبل‘ کا معاملہ مختلف تھا۔
’جن لوگوں نے اسے تیار کیا، اُن کا مقصد غلاموں کو ذہنی طور پر قابو میں رکھنا تھا، شاید اس لیے کہ وہ سمجھتے تھے کہ حضرت موسیٰ کی کہانی اِتنی طاقتور ہے کہ بغاوت پر اُکسا سکتی ہے۔‘
شمٹ کا کہنا ہے کہ یہ ترمیم محض الفاظ یا جملے حذف کرنے کی حد تک محدود نہیں تھی، بلکہ مکمل اصل نسخے کے چند مکمل ابواب اس سے نکال دیے گئے۔
’مثلاً، کتابِ خروج کا بڑا حصہ نکال دیا گیا، لیکن موسیٰ کا ذکر جن دیگر مقامات پر آتا ہے، وہ باقی رہنے دیا گیا۔‘
عام طور پر پروٹیسٹنٹ بائبل میں 66 کتابیں ہوتی ہیں، کیتھولک بائبل میں 73 اور مشرقی آرتھوڈوکس ترجمے میں 78 بُکس شامل ہیں۔ میوزیم آف دی بائبل نے بتایا کہ ’لیکن 'غلاموں کی بائبل‘ میں صرف 14 کتابیں شامل ہیں۔‘
’تاریخی تناظر‘
بیکفورڈ کے مطابق ’غلاموں کی بائبل‘ کے منظر عام پر آنے کا زمانہ اُس کے مقصد کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔
’یہ 1807 میں شائع ہوئی، اسی سال مارچ میں برطانوی پارلیمنٹ نے سلطنت میں غلاموں کی خرید و فروخت پر پابندی لگا دی تھی، لیکن غلامی کا نظام اس کے بعد بھی تقریباً تیس سال تک قائم رہا۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’زرعی زمینوں پر کام کرنے والے غلاموں کو کیسے قابو میں رکھا جائے؟ اس کے لیے صرف تشدد ہی کافی نہیں تھا بلکہ ایک نظریاتی نظام بھی ضروری تھا۔ تشدد غلامی کا جزو لاینفک تھا۔ چونکہ اس وقت نسل پرستی پر مبنی جھوٹی سائنس (کہ سفید فام اعلیٰ ہیں) ابھی وجود میں نہیں آئی تھی، اس لیے بائبل کو کلیدی حیثیت حاصل تھی کیونکہ اس کے ذریعے یہ دکھایا گيا کہ خدا غلامی کو جائز قرار دیتا ہے۔‘
’غلامو، اپنے مالکوں کے خوف اور عزت کے ساتھ، صدق دل سے ایسے حکم مانو جیسے تم مسیح کی خدمت کر رہے ہو۔‘ یہ عبارت حضرت عیسی کے مبلغ پولوس کے خط افسیوں سے لی گئی ہے اور یہ اُن اقتباسات میں شامل ہے جو غلامی کی حمایت کرتے ہیں اور غلاموں کے نسخے میں شامل کیے گئے تھے۔‘
بیکفورڈ کے مطابق ’اس بائبل کا مقصد یہ تھا کہ اسے نسل پرستی کے نظام کے لیے آلہ بنایا جائے، تاکہ غلام افریقیوں کو یہ باور کرایا جا سکے کہ ان کی پستی اور غلامی کی حالت خدا کی مرضی سے ہے۔'
شمٹ کا بھی ماننا ہے کہ 'غلاموں کی بائبل' اس وقت کے حالات کی عکاس تھی۔
انھوں نے کہا: 'اٹھارہویں صدی کے دوران بعض مسیحی شخصیات، افریقی غلاموں کی روحانی حالت پر فکرمند تھے، لیکن زمیندار اس بات کے خلاف تھے کہ ان غلاموں کو عیسائی بنایا جائے، کیونکہ انھیں خدشہ تھا کہ یہ ان کے اقتدار کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔‘
واشنگٹن کے ’میوزیم آف دی بائبل‘ کے ڈائریکٹر شمٹ نے مزید کہا کہ ’زمینداروں کی مخالفت پر قابو پانے کے لیے اینگلیکن مشنریوں نے یہ دلیل دی کہ غلاموں کو مسیحی بنانے سے وہ بہتر غلام بنیں گے، کیونکہ مسیحیت انھیں فرمانبرداری سکھاتی ہے۔‘
برطانوی پارلیمان سے غلامی کے خاتمے کے بعد یہ بائبل شائع کی گئی تھیاینگلیکن چرچ کا کردار
بیکفورڈ نے یہ بات یاد دلائی کہ چرچ آف انگلینڈ (اینگلیکن چرچ) کا غلامی کے کاروبار میں ملوث ہونا ایک تاریخی حقیقت ہے۔ مثال کے طور پر، اس کی ایک تنظیم ’سوسائٹی فار دی پروپیگیشن آف دی گاسپیل ان فارن پارٹس‘ یعنی انجیل مقدس کی اجنبی علاقوں میں تبلیغ کی تنظیم بارباڈوس جزائر کے کوڈرنگٹن نامی پلانٹیشن میں اپنا حصہ یا حصص رکھتی تھی، جہاں سینکڑوں افریقی غلام کام کرتے تھے۔
سنہ 2023 میں جسٹن ویلبی، جو اُس وقت آرچ بشپ آف کینٹربری اور اینگلیکن چرچ کے اعلیٰ ترین مذہبی پیشوا تھے، نے چرچ کی افریقہ سے انسانوں کی سمگلنگ میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا تھا۔ یہ اعتراف چرچ کی اندرونی تحقیق کے بعد سامنے آیا۔
’اس شرمناک ماضی کے تدارک کے اقدام کے تحت ویلبی نے اعلان کیا کہ غلامی سے متاثرہ کمیونٹیز میں فلاحی منصوبوں کے لیے 135 ملین ڈالر کی مالی معاونت فراہم کی جائے گی۔‘
تاہم شمٹ کا ماننا ہے کہ ’غلاموں کی بائبل‘ ایک ایسے گروہ نے شائع کی جس کے تعلقات بشپ بیلبی پورٹس (1731–1809) سے تھے، جو غلامی کی عوامی سطح پر مذمت کرنے والے ابتدائی اینگلیکن مذہبی رہنماؤں میں سے ایک تھے۔ اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ چرچ اصلاحات کی کوشش کر رہا تھا، حتیٰ کہ غلامی کے مکمل خاتمے کا ارادہ بھی رکھتا تھا۔
شمٹ نے کہا کہ ’ان مشنریوں کا وژن ترقی پسند تھا۔ وہ غلاموں کی زندگی بہتر بنانا چاہتے تھے، اُن پر کام کا بوجھ کم کرنا چاہتے تھے، طبی سہولتیں دینا چاہتے تھے اور ان کے خاندانوں کو جدا ہونے سے روکنا چاہتے تھے۔‘
لیکن انھوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ اس بات کے بھی کوئی شواہد موجود نہیں کہ ان مذہبی رہنماؤں نے غلامی کے فوری خاتمے کی حمایت کی ہو۔
شمٹ نے وضاحت کی کہ ’میرا خیال ہے کہ ان کا مقصد یہ تھا کہ غلامی کا ایک یا دو نسلوں میں بتدریج خاتمہ ہو۔‘
بیکفورڈ کی رائے بھی اُن سے ملتی جلتی نظر آتی ہے۔ ان کے مطابق اس وقت اینگلیکن چرچ ’مسیحی غلامی‘ کی وکالت کرتا تھا۔
انھوں نے کہا کہ ’مسیحی غلامی کا مطلب غلامی کے نظام کو برقرار رکھتے ہوئے افریقی غلاموں کی حالت بہتر کرنا تھا اور بالاخر اس نظام کو اصلاحات کے ذریعے ختم کیا جانا تھا۔‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس متنازع نسخے کے استعمال کا دستاویزی ثبوت صرف برطانوی کیریبین نوآبادیات کے گنے کے پلانٹیشن میں ملتا ہے۔
تاہم بیکفورڈ اور شمٹ دونوں اس بات کے قوی امکانات تسلیم کرتے ہیں کہ یہ بائبل جنوب امریکی علاقوں میں کپاس کیکاشت والیزمینوں پر بھی اسی طرح استعمال کی گئی ہو گی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بائبل کا استعمال یہ بات سمجھانے کے لیے کیا گيا کہ خدا غلامی کے حق میں ہےکیتھولک چرچ کا کیا کردار تھا؟
کیا کیتھولک چرچ کے پاس بھی ’غلاموں کی بائبل‘ تھی؟ سپین میں تاریخ کے پروفیسر خیسوس فولگاڈو نے بی بی سی کے اس سوال کے جواب میں کہا کہ کیتھولک چرچ کے پاس کوئی ایک بائبل نہیں تھی۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’بائبل کے جن حصوں کو اینگلیکن چرچ نے غلامی کے حق میں حذف کیا، انھی آیات کا استعمال کئی پوپ اور یورپ کی مختلف مذہبی جماعتوں نے غلامی کی مذمت کے لیے کیا۔‘
سنہ 1537 نے پوپ پال سوم نے ’سبلیمیس دیوس‘ کے نام سے ایک فرمان جاری کیا، جس میں کہا گیا کہ ’تمام انسان، خواہ کسی بھی نسل سے تعلق رکھتے ہوں، آزاد ہیں اور خود مختار ہیں، اور کسی کو بھی ان کو غلام بنانے کی اجازت نہیں۔‘
کچھ سال بعد پوپ اربن ہشتم نے خبردار کیا کہ جو کوئی کسی کو غلام بنائے گا، وہ کیتھولک چرچ سے خارج (فرقہ بدر) کر دیا جائے گا۔
تاہم کیتھولک چرچ کی قیادت کی اس واضح مخالفت کے باوجود، ہسپانوی، پرتگالی، اور فرانسیسی نوآبادیات میں غلامی کا رواج رہا، حتیٰ کہ خود چرچ کے ادارے بھی اس میں شامل تھے۔
فولگاڈو کے مطابق ’واقعی، یہ تضاد تھا کہ پوپ غلامی کی مخالفت کرتے تھے، لیکن امریکہ میں کئی مذہبی جماعتوں کے اپنے غلام تھے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’تاہم، ہسپانوی امریکہ میں غلامی کا نظام انگریزی بولنے والی امریکہ اور کیریبین کی نوآبادیات کے مقابلے میں مختلف تھا۔‘
کیوں؟ اس سوال کے جواب میں انھوں نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ’مذہبی جماعتوں کے پاس غلام تھے، لیکن ان کے حالات اس وقت کی قشتالہ (سپین کے علاقے کی سلطنت) کے مزدوروں جیسے تھے: اگرچہ وہ مکمل آزاد نہیں تھے لیکن انھیں چھٹی کے دن ملتے تھے، باہر جانے کی اجازت تھی، اور شادی بھی کر سکتے تھے۔‘
آج اس مقدس متنازع نسخے کی چار کاپیاں باقی ہیں۔ ایک کاپی فِسک یونیورسٹی، نیش وِل، ٹینیسی کی لائبریری میں محفوظ ہے، جبکہ دو دیگر کاپیاں آکسفورڈ اور گلاسگوکی برطانوی یونیورسٹیوں میں موجود ہیں۔