رواں سال مئی میں قائم کی گئی قومی سائبر کرائم تحقیقاتی ایجنسی (این سی سی آئی اے) کا مقصد ملک میں آن لائن جرائم کی روک تھام اور سائبر حملوں میں ملوث ملزمان کی گرفتاری تھا، تاہم ایسے ہی کیسز کی تحقیقات کرنے والی اسی ایجنسی کے متعدد افسران خود لاپتہ ہو چکے ہیں۔اردو نیوز کو موصول معلومات کے مطابق اب تک مجموعی طور پر این سی سی آئی اے کے چھ افسران لاپتہ ہو چکے ہیں، جن میں لاہور، گوجرانوالہ اور اسلام آباد کے افسران شامل ہیں۔لاہور سے ایڈیشنل ڈائریکٹر، ڈپٹی ڈائریکٹر اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر گذشتہ ہفتے پراسرار طور پر لاپتہ ہوئے، جبکہ گوجرانوالہ اور راوالپنڈی سے بھی ایک ایک اسسٹنٹ ڈائریکٹر مبینہ طور پر اغوا ہو چکے ہیں۔این سی سی آئی اے کے افسر کے لاپتہ ہونے کا تازہ واقعہ اسلام آباد میں پیش آیا، جہاں ادارے کے ڈپٹی ڈائریکٹر آپریشنز محمد عثمان کو 14 اکتوبر کی شام اغوا کیا گیا۔ اسلام آباد کے تھانہ شمس کالونی میں مغوی کی اہلیہ کی مدعیت میں درج ایف آئی آر میں بتایا گیا ہے کہ وہ زارہ ہائٹس، ایچ-13 میں رہائش پذیر ہیں۔14 اکتوبر کی شام تقریباً ساڑھے سات بجے سفید رنگ کی ٹویوٹا کرولا میں سوار چار نامعلوم افراد نے گن پوائنٹ پر ان کے شوہر کو اغوا کیا اور نامعلوم مقام پر لے گئے، جن کا تاحال کچھ پتہ نہیں چل سکا۔دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ نے این سی سی آئی اے کے لاپتہ ہونے والے افسر محمد عثمان کے اغوا کے کیس میں پولیس کو تین دن کی مہلت دی ہے اور واضح کیا ہے کہ اگر مغوی کو بازیاب نہ کرایا گیا تو سائبر ایجسنی کے سینٹرل ڈائریکٹر اور آئی جی اسلام آباد کو ذاتی طور پر عدالت میں پیش ہونا ہوگا۔اسلام آباد ہائیکورٹ میں محمد عثمان کی اہلیہ روزینہ عثمان کی جانب سے دائر درخواست پر جسٹس محمد اعظم خان نے آج سماعت کی۔ دورانِ سماعت درخواست گزار کے وکیل راجہ رضوان عباسی نے عدالت کو بتایا کہ انہیں معلوم نہیں کہ پٹیشنر کہاں ہیں، خدشہ ہے کہ انہیں بھی اٹھا لیا گیا ہو۔ ان کے مطابق روزینہ عثمان نے فون پر بتایا تھا کہ ان پر درخواست واپس لینے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔وکیل نے استدعا کی کہ ڈائریکٹر این سی سی آئی اے اور آئی جی اسلام آباد کو عدالت طلب کیا جائے۔ اس موقع پر اسلام آباد پولیس نے عدالت سے سات دن کی مہلت مانگی، تاہم عدالت نے صرف تین دن کا وقت دیا۔
اٹارنی جنرل نےکہا کہ مقدمہ درج ہو چکا ہے، لہٰذا پولیس کو مزید تفتیش کے لیے وقت دیا جائے (فوٹو: ایف آئی اے)
راجہ رضوان عباسی نے عدالت کو مزید بتایا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں جو گاڑی دیکھی گئی، اس کی نمبر پلیٹ جعلی ہے۔ اس پر جسٹس محمد اعظم خان نے ریمارکس دیے کہ اگر گاڑی کی نمبر پلیٹ جعلی ہے تو وہ اسلام آباد میں آزادانہ کیسے چل رہی ہے؟ یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے، جبکہ شہر میں ناکے اور سی سی ٹی وی کیمرے موجود ہیں۔
دورانِ سماعت اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ مقدمہ درج ہو چکا ہے، لہٰذا پولیس کو مزید تفتیش کے لیے وقت دیا جائے۔اردو نیوز نے مبینہ طور پر اغوا ہونے والے افسران کے معاملے پر این سی سی آئی اے کے ترجمان اور ڈائریکٹر جنرل سے رابطہ کیا، تاہم تاحال ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔اس حوالے سے ماہر قانون اور کریمنل پروسیڈنگز کے ماہر کرنل (ر) انعام الرحیم نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر اسلام آباد سے کسی سرکاری تحقیقاتی ایجنسی کے افسران لاپتہ ہو رہے ہیں تو یہ نہایت سنجیدہ معاملہ ہے۔