حبیب کی کہانی سن کر اور ڈی ڈی ایل جے کی کہانی کو یاد کرتے ہوئے میرے ذہن میں یہ سوال آیا کہ اس فلم کی کہانی میں کتنا حصہ مرد کردار راج (شاہ رخ خان) کا تھا اور کتنا حصہ مرکزی خاتون سمرن (کاجول) کو ملا؟
اس فلم میں مرکزی کردار شاہ رخ خان اور کاجول نے نبھائے تھے’میں بچپن میں شاہ رخ خان کی فلمیں دیکھ کر بڑا ہوا ہوں۔ خاص طور پر دل والے دلہنیا لے جائیں گے۔‘
’جب میں نے پہلی بار یہ فلم دیکھی اس وقت میری عمر تقریباً 10–12 سال تھی۔ اس کے بعد میں نے یہ کئی بار دیکھی اور میرے ذہن میں یہ بیٹھ گیا کہ اگر محبت کی کہانی ہو تو وہ ایسی ہی ہونی چاہیے۔ پھر تین سال پہلے شاہ رخ خان سے متعلق ایک پروگرام میں میری ملاقات ایک لڑکی سے ہوئی۔ ایک نظر، جو صرف نظر تھی، رفتہ رفتہ محبت میں بدل گئی۔‘
حبیب خان اپنی حقیقی محبت کی کہانی سنا رہے تھے جو بالکل شاہ رخ کے کردار راج کی طرح ہے۔
وہ کہتے ہیں ’میں جنوبی انڈیا سے ہوں اور وہ (لڑکی) مغربی انڈیا سے۔ ہمارا مذہب، ثقافت، سب کچھ مختلف تھا۔ اس کے گھر والوں کو راضی کرنا آسان نہیں تھا۔ لیکن ’ڈی ڈی ایل جے‘ سے متاثر ہو کر ہم نے طے کیا کہ جب تک والدین راضی نہ ہوں، ہم شادی نہیں کریں گے۔ برسوں بعد اب ہم شادی کرنے والے ہیں۔‘
’میں کہہ سکتا ہوں کہ اگر حقیقت میں راج جیسا کوئی شخص ہو اور سمرن کے والد خود اس کا ہاتھ آپ کو پکڑا کر کہیں ’جا سمرن، جا، جی لے اپنی زندگی‘ تو اس سے خوبصورت لمحہ کوئی نہیں۔‘
بالکل ویسے ہی جیسے فلم دل والے دلہنیا لے جائیں گے کے آخری منظر میں ہوا۔
جب یہ فلم 20 اکتوبر 1995 کو (30 سال پہلے) انڈیا میں ریلیز ہوئی تو رومانس کی علامت بن گئی۔
آج بھی نوجوان مداح اس فلم کی محبت بھری میراث کو زندہ رکھے ہوئے ہیں اور ممبئی کے مراٹھا مندر سنیما ہال میں یہ فلم تین دہائیوں سے لگاتار چل رہی ہے۔
حبیب بتاتے ہیں کہ شادی سے پہلے والدین کی اجازت لینے کا فیصلہ صرف ان کا نہیں تھا۔ یہ ان کی ساتھی کا فیصلہ بھی تھا، جو باہمی احترام اور رضامندی پر مبنی تھا۔
حبیب کی کہانی سن کر اور ڈی ڈی ایل جے کی کہانی کو یاد کرتے ہوئے میرے ذہن میں یہ سوال آیا کہ اس فلم کی کہانی میں کتنا حصہ مرد کردار راج (شاہ رخ خان) کا تھا اور کتنا حصہ مرکزی خاتون سمرن (کاجول) کو ملا؟
یا پھر کیا اس مشہور فلم میں خواتین کے کرداروں کو واقعی کوئی اہم مقام ملا؟
جبکہ حبیب کی کہانی میں ان کی ساتھی کی مرضی واضح اور نمایاں ہے۔
30 سال بعد بھی یہ فلم صرف ایک محبت کی کہانی نہیں بلکہ آج کے جدید دور میں صنفی نظریات کے حوالے سے بھی موضوعِگفتگو ہے۔
مصنفہ پارومیتا باردولوی نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ لکھی، جس میں انھوں نے فلم کے قدامت پسند ماحول میں پلی بڑھی سمرن (اداکارہ کاجول) کی شادی کے بعد کی زندگی کا تصور کیا۔
وہ لکھتی ہیں ’اب 30 سال بعد راج (شاہ رخ) اور میں (سمرن) بھی والدین ہیں۔ میں نے راج سے کہا کہ جب ہم پہلی بار ملے تھے اور وہ میرے سامنے زمین پر گرا ہوا زیرِ جامہ لہرا رہا تھا تو مجھے اس وقت بہت غیر محفوظ محسوس ہوا تھا۔ راج یہ مانتا ہے کہ اس وقت وہ سمجھتا تھا کہ کسی لڑکی کو پسند کرنے کا مطلب اس کے قریب آنا ہے۔ لیکن اب وہ 22 سال کا راج نہیں رہا اور 46 سال کا ہو چکا ہے اور مجھے اس بات کی خوشی ہے۔‘
یہ مصنفہ فلم کے اس منظر کی طرف اشارہ کر رہی ہیں جسے آج کے دور میں کئی لوگ پریشان کن سمجھتے ہیں۔
ڈی ڈی ایل جے کے مداح آشیش کہتے ہیں ’ہر انسان کو زندگی میں ایک بار ڈی ڈی ایل جے ماراٹھا مندر میں دیکھنی چاہیے‘ڈی ڈی ایل جے سمرن کی کہانی ہے یا صرف راج کی؟
اگر آپ فلم کو منظر بہ منظر دیکھیں تو لگتا ہے کہ خواتین کو اس میں زیادہ حق یا آواز نہیں دی گئی۔
یہ اس وقت واضح ہوتا ہے جب کاجول اپنے والد سے صرف اپنی دوستوں کے ساتھ یورپ جانے کی اجازت کے لیے منت کرتی ہے: ’کیا آپ میری خوشی کے لیے میری ہی زندگی کا ایک مہینہ مجھے نہیں دے سکتے؟‘
صحافی انوپما چوپڑا اپنی کتاب دل والے دلہنیا لے جائیں گے ’اے ماڈرن کلاسک‘ میں لکھتی ہیں: ڈی ڈی ایل جے خواتین کے کرداروں کی خواہشات اور مشکلات کو قریب سے دکھاتی ہے مگر فلم نے انھیں اپنی آواز دینے سے محروم رکھا ہے۔ ابتدا میں سمرن بھاگ جانا چاہتی ہے مگر اس کے بعد وہ خاموشی سے اپنے محبوب اور باپ کے بیچ ہونے والی کشمکش کے انجام کا انتظار کرتی ہے۔۔۔ تاکہ اس کی تقدیر کا فیصلہ ہو سکے۔‘
’آخر میں وہ ایک مرد کی حفاظت سے دوسرے مرد کی حفاظت میں چلی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ فلم کے آخر تک صرف اس کے والد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اسے راج سے شادی کی اجازت دیں یا نہ دیں۔‘
نرم لہجے مگر صاف انداز میں ڈی ڈی ایل جے کی کہانی مرد کو ملنے والے طاقت کے اختیار اور غیرت کی حدود کے ارد گرد ہی گھومتی ہے۔
لیکن تضاد یہ ہے کہ ہدایتکار آدتیہ چوپڑا اسی مردانہ دنیا میں عورتوں کی ایک چھوٹی سی دنیا بھی دکھاتے ہیں، جہاں وہ ایک دوسرے کے دکھ کو بغیر الفاظ کے سمجھ لیتی ہیں۔۔۔کچھ ایسا جو مرد نہ دیکھ پاتے ہیں نہ محسوس کر سکتے ہیں۔
جب کاجول کی زبردستی منگنی کی جا رہی ہوتی ہے تو سمرن کی دادی (زوہرہ سہگل) اپنے بیٹے سے کہتی ہیں: ’مجھے نہیں معلوم کیوں، مگر سمرن کی آنکھوں میں ایک اداسی سی دکھائی دیتی ہے۔ کیا سب کچھ ٹھیک ہے؟‘
دادی نے برسوں سے سمرن کو نہیں دیکھا تھا مگر اس کی آنکھوں میں چھپی تکلیف کو پڑھنے کے لیے انھیں سمرن سے بات کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔
ایک ایسے خاندان میں جہاں ہر رشتہ باپ کے گرد گھومتا تھا، ماں اور بیٹی کے رشتے کے حصے میں بس چند ہی لمحات آئے۔
جب ماں (اداکارہ فریدہ جلال) چھت سے دیکھتی ہیں کہ سمرن اور راج ایک دوسرے کو محبت سے کھانا کھلا رہے ہیں، تو وہ فوراً سمجھ جاتی ہیں کہ یہی لڑکا ان کی بیٹی کی زندگی ہے اور وہ انھیں بھاگ جانے کا مشورہ دیتی ہیں۔
شاہ رخ خان باورچی خانے میں
اگر کوئی مرد خواتین کی اس دنیا میں داخل ہونے میں کامیاب ہوا تو وہ صرف راج (شاہ رخ) تھا۔
راج، جو باورچی خانے میں بیٹھ کر گاجریں چھیلتا ہے، مہمانوں کو کھانا پیش کرتا ہے۔۔۔ اسے اپنی اس شبیہ پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
جب راج لندن سے انڈیا آ کر مینڈولین بجاتا ہے اور سمرن کے لیے گانا گاتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ ’کسی کو بھگانے یا چرانے نہیں آیا بلکہ دلہن بنانے آیا ہے۔۔۔ اور وہ سمرن کو صرف تب ہی لے جائے گا جب اس کا باپ خود اس کا ہاتھ راج کے ہاتھ میں دے گا‘۔۔۔ مردانگی سے بھری فلموں کے دور میں یہ کردار کئی لوگوں کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا محسوس ہوا۔
اور فلم کا جادو آج بھی نوجوانوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔
امراوتی کے رہائشی آشش اوئیک، جو ممبئی سے 600 کلومیٹر دور رہتے ہیں، ایک شاہ رخ فین کلب چلاتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں ’جب میں نے ڈی ڈی ایل جےکو اس کی ریلیز کے برسوں بعد دیکھا تو سنیما ہال میں انڈیا کے ساتھ امریکہ، روس اور کوریا سے آئے مداح بھی موجود تھے۔ جیسے ہی راج (شاہ رخ خان) کی انٹری ہوئی، لوگ سیٹیاں بجانے لگے۔ اور جب اداکار امریش پوری، جو سخت گیر باپ کا کردار نبھا رہے تھے، اپنی بیٹی سے کہتے ہیں ’جا سمرن جا...‘ تو پورا تھیٹر کھڑا ہو گیا اور تالیوں سے گونج اٹھا۔ اسی دن میں نے سمجھا کہ ڈی ڈی ایل جے صرف ایک فلم نہیں بلکہ ایک جذبے کا نام ہے۔ ماراٹھا مندر میں یہ فلم دیکھنا میرا خواب تھا۔‘
جب فلم کے ہدایتکار آدتیہ چوپڑا نے شاہ رخ کو یہ کہانی سنائی تو وہ ابتدا میں زیادہ پُرجوش نہیں تھے کیونکہ فلم میں کوئی ایکشن نہیں تھا۔۔۔ یہ محض دو محبت کرنے والوں کی کہانی تھی جو بھاگنے کے بجائے والدین کی رضامندی کا انتظار کرتے ہیں۔
ڈی ڈی ایل جے کی سب سےخاص بات یہی تھی کہ اس فلم میں وہ بھاگتے نہیں ہیں۔۔۔ مصنفہ انوپما چوپڑا اسے ’گرینڈ ریبیلین ٹوئسٹ‘ پکارتی ہیں۔
ڈی ڈی ایل جے کے مداح آشیش کہتے ہیں ’ہر انسان کو زندگی میں ایک بار ڈی ڈی ایل جے ماراٹھا مندر میں دیکھنی چاہیے۔ یہ ایک بہت خوبصورت احساس ہے۔‘
تو کیا ڈی ڈی ایل جے جیسی فلم اپنی تمام خوبیاں اور خامیاں لیے، آج کے دور میں بھی بن سکتی ہے؟
فلم کے سینئر نقاد بالاجی وِتّل کہتے ہیں: ’ایشیا کے بہت سے لوگوں کی طرح اس فلم میں مرکزی کرداروں کے والدین لندن میں تارکین وطن کے طور پر رہتے تھے۔ وہ اپنی پرانی روایات ساتھ لے کر آئے تھے۔ لیکن آج کے دور میں راج اور سمرن، جو لندن میں پیدا ہوئے اور وہیں کے تعلیم یافتہ ہیں، ان کے (فرضی) بچے ایسی کسی ثقافتی کشمکش سے نہیں گزریں گے۔ آج کی تیسری نسل کی برطانوی ایشیائی بیٹیاں شاید اپنے فیصلے خود کرنے کے قابل ہیں۔ اب وہ والدین کی مخالفت کا سامنا نہیں کریں گی اور اسی لیے آج کے دور میں ڈی ڈی ایل جے جیسی فلم نہیں بن سکتی۔‘